محمد انعام الحق قاسمی
لجنہ علمیہ (ابنائے قدیم فضلائے دارالعلوم)
ریاض، مملکت سعودی عرب
مجرموں کا قبضہ و دبدبہ
چند مستثنیات کے علاوہ، مسلم دنیا کے تقریباً تمام حصے مجرموں کی مکمل گرفت میں ہیں۔ اکثر مسلم ممالک میں ،عوام کا ووٹ، آواز یا خواہشات ، سیاستی قدروں کا فیصلہ نہیں کرتی بلکہ بندوق اور گولیاں کرتی ہیں۔ اس لیے جن کے پاس بندوق اور گولیاں ہیں وہی حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ مسلح عسکریت پسندوں کے اس طرح کے قبضے میں جمہوری حقوق، بنیادی انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پیسے کی لوٹ مار واحد جرم نہیں ہے، سب سے بڑا جرم عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ہے۔ عوام کے حقوق پر اس طرح ڈاکہ ڈالنا ، درحقیقت بیشتر مسلم ممالک میں حکمرانی کا یہی طریقہ ہے۔ اور ایسے مجرموں کے قبضہ اور دبدبہ کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کرنا سب سے اعلیٰ حب الوطنی کا عمل ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عام مسلمان لوگ گھریلو جانوروں کی طرح ڈرپوک و بزدل ہیں اس قبضے کو ختم کرنے میں بہت کم دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔
البتہ ، جانوروں جیسی خاموشی یا بے عملی کسی کو بے قصور نہیں بناتی۔ جب گھر میں آگ لگ جاتی ہے، تو گھر کے کسی فرد کو الگ یا غیر فعال نہیں رہنا چاہیے۔ اس آگ کو روکنے و بجھانے کے لیے سب کچھ کرنا چاہیے۔ اسی طرح جب کوئی ملک ، دشمنوں اور مجرموں کے قبضے میں چلا جاتا ہے تو ہر شہری کو اس قبضے کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ ایک اسلامی فریضہ ہے۔ ایسے مسائل پر خاموش رہنا یا لاتعلق رہنا اسلام میں حرام ہے۔ ایسی خاموشی درحقیقت جرم میں شریک ہونے کے مرادف ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی سرزمین کو جہالت، بدعنوانی، استحصال، ناانصافی اور ظلم سے پاک رکھنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کا اپنا نسخہ اور ایکشن پلان ہے۔ اس نے انصاف کا حکم دینے اور بدعنوانی کو ختم کرنے کے لیے شریعت کا تعین کیا ہے۔ اس نے شریعت کے نفاذ کے لیے فریضہ جہاد کو بھی مشروع کیا ہے۔ پانچ وقت کی نماز، رمضان المبارک کے مہینے بھر کے روزے، حج اور صدقہ دینے سے شریعت پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوسکتاہے۔ نہ ہی ان کے ذریعے معاشرے کی صفائی یا اصلاح کا کام ہو سکتاہے۔ یہ کام صرف جہاد ہی کے توسط سے ہوسکتا ہے۔ یہ درحقیقت اسلام کا ایگزیکٹو ٹول ہے۔ اگر جہاد نہ ہو تو شریعت صرف قرآن تک محدود رہتی ہے۔اس کے بغیرمجرم حکمران کو چیلنج نہیں کرسکتے ہیں. اگر حالات ایسے ہوجائیں تو اسلام اپنا فائدہ و پیغام انسانوں تک پہنچانے میں ناکام ہوجائے گا۔ اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے جہاد کو ہر مومن پر فرض قرار دیا گیا۔ یہ درحقیقت اسلام کی اعلیٰ ترین عبادت ہے۔
لیکن ہائے افسوس کہ اکثر مسلمان جہاد سے کوسوں دورہیں بلکہ ان کے دل میں اس اہم فریضہ کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ اس طرح وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے فرمان کے خلاف اپنی سرکشی ظاہر کرتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، وہ جرمانہ ادا کر رہے ہیں. اور اس کی ادائیگی مجرموں کے زیر اقتدار ہو کر کی جاتی ہے۔ جہاد کی عدم موجودگی میں کرپشن، ناانصافیوں اور غلط کاموں کے خلاف کوئی کلین اپ آپریشن برپا نہیں ہوتا۔اس لئے مسلمانان عالم طرح طرح کی آزمائشوں میں مبتلا کردیئے جاتے ہیں۔اور عذاب یہیں ختم نہیں ہوگا، باقی سزا انہیں آخرت میں ملے گی۔
شام، فلسطین، یمن، صومالیہ، سوڈان اور پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں لاکھوں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ روئے زمین پر سب سے زیادہ غربت کا شکار مسلمان ہیں۔ مسلمانان عالم ایسی سنگین صورتحال میں ہے اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سپر لگژری شہر بنانے کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ قطر نے مانچسٹر یونائیٹڈ فٹ بال کلب کے لیے 6.7 بلین ڈالر کی بولی لگائی ہے ۔ پاکستان میں سول اور ملٹری اشرافیہ یعنی ملک کے سفید ہاتھی کے شاندار طرز زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ مجرم حکمرانوں سے اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کا معاملہ
یہ کہہ کر ہم خوش ہوتے ہیں کہ پاکستان میں برطانوی استعمار کا دور 1947 میں ختم ہو گیا۔ لیکن اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس مسلم اکثریتی ملک میں نئی نوآبادیات کا دور شروع ہو چکا ہے۔ یہ اس کی اپنی فوج کے ذریعے پاکستان کی نوآبادکاری (کالونائزیشن) ہے۔ پاکستان کی شاہانہ فوجی چھاؤنیاں درحقیقت بنیاد پرست اور عسکریت پسند سیکولرز کی قلعہ بند کالونیاں ہیں جو عام لوگوں کے عقیدے، ثقافت، رسم و رواج اور سیاست سے اجنبی نظر آتی ہیں۔ چونکہ وہ ملک کے کسی بھی حصے میں عام لوگوں کے ساتھ رہنے سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں ، اس لیے فوج نے پاکستان کے ہر بڑے شہر میں اپنے نوآبادیاتی منصوبے کو وسعت دینے کے لیے ہزاروں ہیکٹر اراضی پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے اور اسے عملی جامہ پہنایا جاچکاہے ۔ اور درحقیقت آپ ان کالونیوں کو دیکھ دنگ رہ جائیں گے کہ کیا یہ ملک کے رکھوالوں کی زندگی کا اسٹائل ہے۔
ماضی میں، فوج نے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنی عجیب و غریب عدم مطابقت ظاہر کی اور انہیں پوری مدت تک اقتدار میں رہنے کی اجازت نہیں دی۔ اور اب یہ عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف کے ساتھ وہی عدم مطابقت ظاہر کرکے اسے اقتدار سے ہٹادیا ہے۔ ماضی میں بنگالی سیاست دانوں کے ساتھ اس طرح کی عدم مطابقت 1971 میں پاکستان کے ٹوٹنے کا باعث بنی۔ چونکہ پاکستانی فوج نوآبادیاتی برطانوی فوج کا تسلسل ہے، فوجی افسران کو مقامی لوگوں کے عقیدے، ثقافت اور سیاسی عقائد کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگائے گئے۔ اس کی وجہ سے، وہ برطانوی نوآبادیاتی مفادات کے محافظ کے طور پر کام کر تے ہیں۔اور مقامی لوگوں کے حقوق کیلئے کم سے کم کھڑے ہوتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فوجی افسران کا استثنیٰ 14 اگست 1947 کو ختم نہیں ہوا بلکہ دیرپا ثابت ہوا۔ اس کے نتیجے میں، فوج پاکستان کے قیام کے پہلے دن سے ہی اسلامی نظریہ اور پان اسلامی سیاست سے نابلد ثابت ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی افسران ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے شراب پینے اور عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور خرید و فروخت کے برطانوی دور کے رواج کو نہیں روک سکے ہیں ۔ ان بدکاریوں کو جنرل ضیاء الحق نے ستر کی دہائی کے آخر میں روکنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اسلامی فریضہ اور مقامی مسلم ثقافت کے خلاف فوج کو کتنی شدید نفرت ہے جس کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے ہیں۔ وے اپنے قبضے کو باقی رکھنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ فوجی افسران قدامت پسند مقامی مسلمانوں کے مقابلے میں مغربی کفار کے ساتھ اپنی مطابقت زیادہ ظاہر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فوری طور پر اسلام کے خلاف امریکی جنگ میں شامل ہوگئے۔اور 70 ہزار سے زائد پاکستانیوں کو قتل کر وا دیا۔ وہ گوانتاناموبے جیل میں قید تنہائی کے لیے سینکڑوں بے گناہ مسلمانوں کو امریکی فوج کے حوالے بھی کر دیا۔ ہزاروں ہزار بار لعنت ہے ایسی فوجی حکومت پر۔
فوج اب غریب پاکستانیوں پر سب سے بڑا معاشی بوجھ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 18 ارب ڈالر طفیلی فوجی اور سول اشرافیہ پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ جبکہ صرف 3 ارب ڈالر کے قرض کے لیے حکومت پاکستان کو بین الاقوامی بھکاری بننا پڑا۔ انتہائی شرم کی بات ہے! افغانستان اب دنیا کے سب سے زیادہ قرضوں سے پاک ممالک میں سے ایک ہے۔ اور نہ ہی یہ قحط جیسی مشاکل سے دوچار ہے۔کیونکہ اس کے پاس کھانے کے لیے سفید ہاتھی نہیں ہیں۔
اپنے کرتوت کی سزا
یہ ظالم حکمران پہلے ہی دنیا اور آخرت دونوں جگہوں میں سخت سزا کے اہل ہو چکے ہیں۔ عام لوگ بھی معصوم نہیں ہیں۔ یہ لوگ بھی مجرم حکمرانوں کے قبضے و مظالم کے خلاف خاموش اور غیر فعال رہ کر سزا کے اہل ہوچکے ہیں۔ ایسی خاموشی اور بے عملی اسلام میں حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عبداللہ بن ابی اور ان کے 300 ساتھیوں کو جہاد میں عدم شرکت کی وجہ سے منافق قرار دیا گیا تھا۔ اس کی پانچ وقت کی نماز بھی اسے ایسے ہولناک انجام سے نہ بچا سکی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ آدھے سے زیادہ صحابہ کرام نے معاشروں کی صفائی و اصلاح اور اسلامی ریاست کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ لیکن اب ایسا صفائی کا عمل اور اصلاح معاشرہ کسی بھی مسلم ملک میں موجود نہیں ہے۔ یہ نام نہاد مسلمان پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل اسلام سے دور ہو چکے ہیں۔ وہ جزوی طور پر اسلام پر عمل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکمل اسلام دنیا میں کہیں بھی نہیں پایا جاتا ہے۔ زیادہ تر مسلمانوں نے اپنی زندگی گزارنے کے نت نئے طریقےایجاد کرلئے ہیں۔ درحقیقت یہ مجرموں اور اسلام کے دشمنوں کے ساتھ ان کا پرامن بقائے باہمی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ایجنڈے کے خلاف اس قسم کے سمجھوتے سے بڑی خیانت اور کیا ہو سکتی ہے؟ کیا کوئی مسلمان ایسی خیانت سے اپنے ایمان کی حفاظت کرسکتا ہے؟