نئی دہلی: (پریس ریلیز) آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنت کے قومی صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بدر الدین اجمل قاسمی نے نواسہ حضرت شیخ الحدیث، جامعہ مظاہر علوم جدید کے امین عام، درجنوں کتابوں کے مصنف عالمی شہرت یافتہ عالم دین حضرت مولانا سید محمد شاہد صاحب کے انتقال پر ملال پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اسے امت کے لئے عظیم خسارہ قرار دیا ہے ۔ مولانا سید محمد شاہد صاحب کے فرزند ارجمند مفتی سید صالح صاحب کو بھیجے گئے اپنے تعزیتی پیغام میں مولانا بدرالدین اجمل قاسمی نے فرمایا : ” انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ آپ کے والد محترم، حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے علمی وراثتوں کے امین خاص، جامعہ مظاہر علوم جدید کے امین عام، سینکڑوں مدارس و مکاتب کے سرپرست اور ہم سب کے محسن و مربی حضرت مولانا سید محمد شاہد صاحب نوراللہ مرقدہ کی وفات حسرت آیات کی جان کاہ خبر نے بالکل جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، دل مغموم ہے ، دماغ تعطل کی کیفیت سے نبرد آزما ہے اور آنکھیں آبدیدہ ہیں جبکہ حضرت سے جڑی بے شمار یادیں ذہن کے پردہ پر مسلسل رونما ہو رہی ہیں ۔ اس اندوہناک خبر سے ہم جیسے متوسلین کی حالت ناگفتہ بہ ہے، جس سے آپ کے غم اور ملال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ تمام پسماندگان پر اس حادثہ نے کیا اثر ڈالا ہوگا ۔ یقینا ہم سب چاہتے تھے کہ کاش حضرت کا سایہ ہم پر باقی رہتا اور آپ کی ذات سے امت مزید مستفید ہو پاتی مگر بقضائے الہی وہ اپنی حیات ِمستعار کی مدت مکمل کرکے ہم سے جدا ہوگئے ہیں ۔ اللہ تعالی حضرت کو اعلی علیین میں جگہ عطاء فرمائے ۔ آپ کو، آ پ کے اہل خانہ، اور ہم جیسے متوسلین، محبین اور متعلقین تمام کو صبر جمیل عطاکرے ۔”
مولانا اجمل نے مزید فرمایا: “اس دورِ قحط ِرجال میں حضرت کی ذات گرامی یقینا ایک نعمت عظمی تھی جس سے ہم سب محروم ہو گئے ۔ اللہ نے حضرت کو بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا ۔ وہ صرف مظاہر علوم کے امین عام نہیں تھے بلکہ حقیقت میں وہ اپنے بزرگوں اور اسلاف کے علم و عمل اور روحانی تربیت و نسبت کے بھی سچے امین تھے ۔ جہاں وہ انتظامی امور کے ماہر تھے وہیں وہ تحقیق، تصنیف اورتدریس کے میدان کے بھی اعلی درجہ کے شہسوار تھے،اسلئے اُن کی رحلت سے ایک خلا پیدا ہو گیا ہے نیزاُن کے ذریعہ جاری تحقیق، تصنیف، تدریس اور روحانی تربیت کا سلسلہ تھم گیا ہے ۔ مظاہر علوم جدیدکو انتظامی،تعلیمی اورتعمیری اعتبار سے ترقی کی بلندیوں پر پہونچانے میں آپ کلیدی کردار ادا کرنے والے تھے ۔ اپنے نانا محترم حضرت شیخ الحدیث شیخ زکریا رحمہ اللہ کے علمی خزانو ں کو امت مسلمہ کے لئے نکھار اور سنوار کر محفوظ کرنا ، ان کے ادھورے رہ جانے والے علمی کاموں کو تکمیل تک پہونچانا، مسودات کو کتابی پیرہن میں لانا آپ کا عظیم کارنامہ اور امت کے لئے عظیم سرمایہ ہے ۔ بلاشبہ ان کی تصنیف کردہ کتابیں ، ان کے درس سے مستفید علماء کرام کی جماعت اور ان کے روحانی تربیت سے وابستہ افراد ، نیزمظاہر علوم کے لئے ان کی خدمات سب اُن کے لئے انشا ء اللہ صدقہ جاریہ ہوں گے ۔ “
حضرتِ والا سے میرا تعلق انتہائی والہانہ تھا ۔ جب بھی ملاقات کی غرض سے حاضری ہوتی تو حضرت کا پُرنور چہرہ دیکھ کر ایک عجیب روحانی سکون کا احساس ہوتا ۔ وہ بے غرض و بے لوث محبت کرنے والوں میں سے تھے ۔ ہمیشہ ہمارے اہل خانہ اور بالخصوص آسام کے مسلمانوں کے حالات جاننے کے خواہشمند رہتے اور اپنی دعاؤں سے نوازتے ۔ انتقال سے تین روز قبل ہی فون پر بات ہوئی، تمام حالات سے واقفیت ہوئی، طبیعت علیل ہونے کا علم ہوا مگر حضرت سے وہ میری آخری گفتگو ہوگی اس کا اندازہ نہیں تھا ۔ اللہ تعالی حضرت ِ والاکو اپنی شایان شان بدلہ عطاء فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا ء کرے، اور تمام اہل خانہ کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔ آمین ۔