حماس کی کارروائی اور مسئلہ فلسطین کی بحالی

افتخار گیلانی

اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے امریکی نژاد ایڈیٹر یاکوف کاٹزنے 22ستمبر کے اپنے ادارتی نوٹ میں جب سوال کیا کہ کیا اسرائیل کو دوبارہ 1973کی یوم کپورجنگ جیسی صورت حال کا سامنا کرپڑسکتا ہے، تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا ، کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی ناک کے نیچے ایسی ہی کارروائی کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔اکتوبر 1973 کومصر ی افواج نے اچانک حملہ کرکے نہر سویز اور صحرائے سینا کو اسرائیلی قبضہ سے آزاد کرواکر اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے بت کوپاش پاش کر دیا تھا۔ پچھلے 50سالوں میں یہ بھرم ایک بار پھر اسرائیلی حکمرانوں کے سر میں سما گیا تھا، اس بھرم کی وجہ سے وہ فلسطینیوں کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں تھے۔ اپنے عرب پڑوسیوں کے ساتھ امن کے لیے ابراہیمی معاہدے کے مندرجات پر بات چیت کرتے ہوئے اسرائیلی، فلسطین کی خودمختاری کے حوالے سے کسی بھی طرح کی بات چیت کرنے کیلئے تیار نہیں ہو رہے تھے۔

پچھلی ایک دہائی سے تو کسی بھی سفارتی میٹنگ میں اسرائیلی سفارت کار فلسطین کے حوالے سے کوئی بات بھی سننے کے روادار نہیں ہوتے تھے۔ وہ اس کے بجائے عرب ہمسائیوں کے ساتھ علاقائی روابط اور استحکام پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ سعودی عرب کے ساتھ ابراھیمی معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل، وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت نے یہودی غیر سرکاری تنظیموں کوچھوٹ دے رکھی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ یہودی آباد کاروں کو مغربی کنارے کے علاقے میں فلسطینیوں کی زمینوں پر آباد کریںکیونکہ فلسطینیوں کے حوالے سے وہ عرب ممالک کو بس اتنی رعایت دینے کیلئے تیار تھے کہ وہ مزید یہودی آبادکاروں کو فلسطینی زمینوں پر آباد نہیں کرینگے۔

 جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ حماس کی کارروائیوں سے کس کو فائدہ ہوا، بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انھوں نے بہت سے اسٹیک ہولڈرز کے لیے طمانیت کا ساما ن فراہم کیا ہے۔ ایران، چین اور روس اسلئے بغلیں بجا رہے ہیں کیونکہ امریکی ثالثی میں ہونے والے ابراہیمی معاہدے کو شدید دھچکا لگا ہے۔ خطے میں متوقع استحکام کی آس میںامریکہ اس خطے سے خرو ج کرکے اپنے وسائل ایشیا پیسیفک کے علاقے میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ چین کا مقابلہ کیا جا سکے۔ روس کے لیے یوکرین سے مغربی دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے یہ ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اگرچہ ایران نے حماس کی براہ راست مدد نہ کی ہو، لیکن مزاحمتی گروپ پر اس کا اثر و رسوخ اور لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ اس کی قربت اسرائیل کے لیے ایک کشیدہ صورتحال بناتی ہے۔اسرائیل جو ایران پر حملہ کرنے کیلئے پر تول رہا تھا اب اس خطے میں ہی محدود ہو کر مزاحمتی گروپوں سے لڑنے میں مصروف رہیگا۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے پر مجبور مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی اب تل ابیب کے ساتھ مضبوط بنیادوں پر بات چیت کر سکتے ہیں کیونکہ اب اسرائیل چاہے کچھ بھی کرے وہ اپنا مضبوط اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔

ابراہیمی معاہدہ پر ثالثی کے دوران، امریکہ نے بھی ازحد کوشش کی تھی کہ کسی طرح اسرائیل کو فلسطینیوں کو کوئی رعایت دینے پر تیار کیا جائے، مگر اسرائیل نے امریکی کوششوں کو کئی بار سبو تاژ کیا، جس سے امریکی صدور بھی نالاں تھے۔

چند سال قبل نئی دہلی کے دورے پر آئے یہودی مذہبی لیڈر اور امریکن جیوش کمیٹی کے ایک عہدیدار ڈیوڈ شلومو روزن نے راقم کو بتایا کہ مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ 1973 کی جنگ کے بعد ہی ممکن ہوسکا۔ ان کا کہنا تھا اس جنگ نے ہمارے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم توڑ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ کے بعد عمومی طور پر اسرائیلی معاشرے میں احساس پیدا ہو گیا تھاکہ ان کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا گیا۔ 1967 کی چھ روزہ جنگ میں مصر، شام اور اردن کو مکمل طور پر شکست دینے کے بعد اسرائیل حد سے زیادہ پر اعتماد ہو گیا تھا۔ دستاویزات کے مطابق اسرائیل امن مذاکرات شروع کرنے یا اپنے عرب پڑوسیوں کو کچھ رعایتیں دینے کے لیے امریکی دباؤ کو بار بار مسترد کر رہا تھا۔

حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ” ماسٹر آف دی گیم: ہنری کسنجر اینڈ دی آرٹ آف مڈل ایسٹ ڈپلومیسی ” کے مصنف مارٹن انڈک کے مطابق ہنری کسنجر نے امریکی انتظامیہ کو مشورہ تھا کہ وہ فور ی طور پر اسرائیل کی مددکو نہ آئے۔ وہ اسرائیل کو ایک دھچکادیکر باور کروانا چاہتے تھے کہ اس کا وجود اور سلامتی بس امریکہ کے دم سے ہے۔ اسی جنگ کے بعد ہی 1979 میں اسرائیل نے مصر کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے، بعد میں اردن اور پھر فلسطینیوں کے ساتھ اوسلو معاہدے عمل میں آئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اسرائیل کے بھرم کا ٹوٹنا تھا۔

حماس کی کی کارروائی نے پوری دنیا کوحیران تو کردیا، مگر اس خطے پر نظر رکھنے والے کچھ عرصہ سے فلسطین کے حوالے سے کسی بڑی کارروائی کی پیشگوئی کر رہے تھے۔ ایک لاوا خطے میں پک رہا تھا، جس کو بس پھٹنا تھا۔ فلسطینیوں میں ابراہیمی معاہدے کی وجہ سے مایوسی پھیل گئی تھی۔ پہلا معاہدہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور اسرائیل کے درمیان 15 ستمبر 2020 کو ہوا تھا، جس کے بعد اسرائیل، مراکش اور سوڈان کے درمیان بھی اسی طرح کے معاہدے ہوئے۔ گزشتہ ماہ قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ قطر اور سعودی عرب کے ساتھ ایک بنیادی فریم ورک پر کام کیا جا رہا ہے۔ان معاہدوں نے فلسطینیوں کی زمینی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس کے برعکس صرف 2023 کے پہلے نو مہینوں میں، اسرائیل نے کم از کم 230 فلسطینیوں کو ہلاک کردیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان 2005 کے بعد سے جاری تنازع میں ہلاکتوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔صرف رواں سال کی پہلی ششماہی میں فلسطینیوں پر اسرائیلی آباد کاروں کے کم از کم 1,148 حملے ریکارڈ کیے گئے۔مزید اسرائیل کے انتہائی مذہبی شدت پسندجان بوجھ کر الاقصیٰ کمپلیکس کے اندر مارچ کرکے اس کی بے حرمتی کر کے فلسطینیوں کا اکسا رہے تھے۔ حال ہی میں انہوں نے مسیحی برادری کے مقدس مقام پر تھوک کر ان کی بھی توہین کی ۔

 مصری خفیہ ایجنسی کے ایک افسر نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے اسرائیلیوں کو خبردار کیا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں صورتحال دھماکہ خیز ہوتی جا رہی ہے۔مگر انہوں نے ان کو قابل در اعتنا ء نہیں سمجھا۔ سعودی عرب میںبھارت کے سابق سفیر اورمصنف تلمیذ احمد کے مطابق حماس نے پیغام دیا ہے کہ فلسطین کے مسائل کو حل کیے بغیر عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے سے مغربی میڈیا کو جو اسرائیل کا حامی ہے، اس مسئلہ کے حوالے سے بات کرنا بھی گوارا نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو تو اب دوریاستی فارمولہ پر بھی غور کرنے پر بھی آمادہ نہیں تھا۔وہ بس اردن سے مسجد اقصیٰ کی نگرانی چھین کر اسکو سعودی عرب کو دینے کیلئے تیار تھا ور اسکو ایک بڑی رعایت سمجھتا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں نیتن یاہو نے گریٹر اسرائیل کا نقشہ پیش کر کے معاملے کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ اس میں مغربی کنارے اور غزہ کو اسرائیل کی سرحدوں کے اندر دکھایا گیا ہے۔

 نیتن یاہو کے سابق مشیر یاکوف امیڈور نے اعتراف کیا ہے کہ حماس کی کارروائی ایک بڑی انٹیلی جنس ناکامی ظاہر کرتی ہے۔کیونکہ اس طرح کے حملوں کیلئے مہینوں کی منصوبہ بندی اور متعدد گروپوں کے درمیان محتاط تربیت اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے۔

 حماس کی کارروائی عرب ہمسائیوں اور بڑی طاقتوں کے لیے ایک سبق ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی دوڑ میں مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرکے انہوں نے ایک بڑی غلطی کی تھی۔ ہنری کسنجر نے کئی دہائی قبل خبر دار کیا تھا کہ اگر آپ فلسطین جیسے ایشو کو نظر انداز کرتے ہیں تو یہ کسی بھی وقت پلٹ وار کرکے آپ کے چہرہ کو بگاڑ دیگا۔

واقعات نے ظاہر کیا ہے کہ حالات تیزی کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔

اس لیے دیرپا امن کے مفاد میں ضروری ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو معتبر طریقوں کے ساتھ حل کرتے ہوئے عالمی سطح پر استحکام پیدا کیا جائے۔

 یہ زریں اصول نہ صرف فلسطین، بلکہ تمام متنازعہ خطوں پر صادق آتا ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com