جی ڈی چندن گنگا جمنی تہذیب کی ایک جیتی جاگتی مثال تھے غالب اکیڈمی میں جی ڈی چندن میموریل لیکچر دیتے ہوئے یامین انصاری کا اظہار خیال

گزشتہ روز غالب اکیڈمی نئی دہلی میں گروبچن داس چندن کے ایک سو ایک برس پورے ہونے پر ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر یامین انصاری ریزیڈنٹ ایڈیٹر انقلاب نے ”جی ڈی چندن: کچھ باتیں کچھ یادیں“ کے عنوان سے ایک لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ جی ڈی چندن8/ اکتوبر1922کو باغباں پورہ لاہور میں پیدا ہوئے تھے انھوں نے تقسیم سے قبل انگریزی روز نامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ میں سب ایڈیٹر اور ساگر میں ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں تھیں۔انھوں نے”باغباں پورہ کی آواز“ نامی ایک ہفت روزہ اخبار بھی جاری کیا تھا۔تقسیم ہند کے بعد وہ دہلی آگئے۔1948سے1980تک پریس انفارمیشن بیوروسے وابستہ رہے۔سبکدوشی کے بعد منصف حیدر آباد میں دہلی کے نمائندہ رہے۔جی ڈی چندن برصغیر میں اردو صحافت اور اس کی تاریخ کے لحاظ سے ایک مستند نام ہے جن کی تصانیف کو آج بھی حوالے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔اردو صحافت کی ابتدا اور ارتقا کے حوالے سے انھیں سند سمجھا جاتا ہے۔ 1992میں شائع ان کی کتاب جام جہاں نما کا فی اہمیت کی حامل ہے۔اس میں اردو صحافت کی ابتدا، اردو سماج کے ارتقا اور ان کے سیاق میں پیدا ہونے والے جدید ہندوستان کے کئی اہم مسائل کی مبادیات کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔اس کتاب میں چندن صاحب نے اردو کا سب سے پہلا اخبار پس منظر، ہری ہردت اور سدا سکھ لعل، جام جہاں نما پر چیف سکریٹری ڈبلیو بی بیلی کا تبصرہ،خبروں کے نمونے،حکومت سے تعلقات،اخبار کا نیا دور اردو صحافت کانقش اول وغیرہ پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ یامین انصاری نے اپنے لیکچر میں کہا کہ جی ڈی چندن نے اپنی پوری زندگی نہ صرف اردو زبان و ادب بلکہ اردو صحافت میں نمایاں خدمات انجام دیں اس کے ساتھ ہی وہ گنگا جمنی تہذیب کی ایک جیتی جاگتی مثال تھے۔ انھوں نے اردو صحافت کی خامیوں اور خوبیوں دونوں کو مثبت انداز میں پیش کیا۔ وہ ایک سیکولر ذہن کے انسان تھے اور کسی بھی تعصب سے دور تھے۔

 اس موقع پر ڈاکٹر گلشن رائے کنول نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ یامین انصاری کے لیکچر میں دو شہروں کا ذکر ہوا لاہور اور دہلی۔تقسیم سے پہلے لاہور میں اردو سرکاری زبان تھی۔ اسکول اور دفاتر میں عرضی اردو میں لکھی جاتی تھی۔ بہت سے اخبار وہاں سے نکلتے تھے جو بعد میں دہلی سے نکلنے لگے۔لاہور میں دن میں دوبار اردو اخبار نکلتا تھا۔اس میں کام کرنے والے بڑی تعداد میں ہندو ہوتے تھے۔

 اس موقع پر ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ چندن صاحب کاغالب اکیڈمی سے گہرا رشتہ تھا انھوں نے اپنی صحافت سے متعلق اردو کتابیں غالب اکیڈمی لائبریری میں رکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی جس کی تکمیل ان کے فرزند جناب انل کمار لکھینا نے پوری کی۔غالب اکیڈمی ان کی یاد میں ہر سال میموریل لیکچر کا اہتمام کرتی ہے۔لیکچر کے بعد اس موقع پر ایک شعری نشست کا بھی اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں ادیب وشاعر موجود تھے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com