اسرائیل پر حماس کا حملہ (۲)

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

ظاہر ہے حماس ایک ایسی تنظیم ہے کہ نہ اس کے پاس خلیج کا پٹرول ہے نہ دنیا کی کوئی اور دولت ہے، نہ یہودی اور عیسائی حکمرانوں کی محبت کا سرمایہ ہے ، جس پر اِن دنوں عالم اسلام فدا ہے؛ البتہ وہ باہر کی طرح اندر سے بھی مسلمان ہیں اور انہوں نے اسلامی غیرت اور دینی حمیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے، انہوں نے ترکی اور قطر -جن کو اس وقت عالم اسلام کا سرمایۂ آبرو کہا جاسکتا ہے ۔ میں اپنے سیاسی دفتر کے لئے پناہ گاہ حاصل کرلی ہے؛ لیکن انہوں نے فلسطین کی بودوباش کو نہیں چھوڑا، انہوں نے ایک معاہدہ کے تحت فلسطین میں جو مجبور و بے بس حکومت قائم ہوئی، اس میں بھی شامل ہوئے، اور ۲۰۰۶ء کے انتخاب میں شاندار کامیابی حاصل کی؛ مگر امریکہ و اسرائیل کے غلام فلسطینی صدر محمود عباس نے تمام قانون کو بالائے طاق رکھ کر اس کو ماننے سے انکار کردیا، اور مغربی طاقتوں نے اس کی بھرپور تائید کی، اس طرح مغربی کنارہ میں فتح کی اور غزہ پٹی میں حماس کی حکومتیں قائم ہوئیں، حماس نے سخت حصار کے باوجود اپنے شہریوں کیلئے تعلیمی اور ترقیاتی کام بھی کئے، اور بہت ہی دور اندیشی کے ساتھ اپنے تحفظ کا انتظام بھی کیا، جس کی مثال اس وقت ہمارے سامنے ہے کہ اسرائیل جیسی طاقتور حکومت کو جس کی پشت پر امریکہ، برطانیہ اور یوروپ کے ممالک کھڑے ہوئے ہیں، ناکوں چنے چبوارہا ہے، ان ہی کوششوں کا حصہ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ کو اپنے دفاع میں ہونے والا حملہ بھی ہے۔

اس میں دو رائے ہوسکتی ہیں کہ کیا حملہ کیلئے یہ وقت مناسب تھا ؟ یا ابھی اپنی فوجی طاقت کو بڑھانے اور دنیا کے مختلف ممالک سے اپنے لیے سیاسی تائید حاصل کرنے کی ضرورت تھی ؛لیکن اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ حماس کا حملہ دہشت گردی نہیں ہے ؛بلکہ یہ ظالم کے خلاف مظلوم کی جدوجہد ہے، یہ پوری طرح جائز قدم ہے، اور ’’تنگ آمدبہ جنگ آمد ‘‘ کا مصداق ہے، ان کے لئے کوئی راستہ باقی نہیں رہاتھا، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے فیصلوں اورمختلف معاہدات کے باوجود فلسطینی ریاست کے قیام کی بات آگے نہیں بڑھ رہی تھی، اورجومسلمان عرب حکومتیں ہیں، وہ پوری نیازمندی کے ساتھ غلامانہ اوربزدلانہ امریکہ واسرائیل کے دربار میں حاضر ہوتی تھیں، اور جی ہاں جی ہاں کہہ کر واپس آجاتی تھیں، اقتدار کی ہوس نے غیرت وحمیت سے ان کو اس طرح محروم کردیا تھا جیسے سخت گرمی میں بارش کا پانی خشک ہوجاتا ہے؛ اس لیے انھوں نے مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے اوراس کی طرف پوری دنیا کو متوجہ کرنے کیلئے یہ قدم اٹھایا ہے، اس میں بہت سے فلسطینی بچے، بوڑھے اور عورتوں کی مظلومانہ شہادت ہوئی ہیں؛ لیکن اس کے بہت سے فائدے بھی ہوئے۔

سب سے بڑا فائدہ یہ ہواکہ اس کی وجہ سے فلسطین کا مسئلہ دوبارہ زندہ ہوگیا، اس پر اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اوراوآئی سی کی متعدد میٹنگیں ہوئیں، اورامریکہ وبرطانیہ کی ہزار کوششوں کے باوجود حماس کو دہشت گرد قرار دینے کی سازش کامیاب نہیں ہوسکی، دوسرے : روس اور چین جیسی مشرق کی بڑی طاقتوں نے کھل کر فلسطین کی تائید کی اور فلسطین کے موقف کو صحیح ٹھہرایا، تیسرے: ایشیا، افریقہ، یوروپ، اور مغرب کے زیادہ تر ملکوں نے اسرائیل کو ظالم قرار دیا، اور مسئلہ فلسطین کے حل پر زور دیا، چوتھے:یہ تصور قائم کیا گیا تھا کہ اسرائیل دنیا کی چوتھی سب سے بڑی دفاعی طاقت ہے اس پروپیگنڈہ کا شیش محل چور چور ہوگیا ؛ کیونکہ حماس نے فضائی طاقت ، بحری طاقت اورمنظم فوج سے محروم ہونے کے باوجود اسرائیل کو ناکوں چنے چبوادیئے اور غزہ سے نکل کر اسرائیل کے کونے کونے میں مؤثر حملہ کرنے میں کامیاب ہوگئے، پانچویں: کم وبیش ۳؍ ہزار اسرائیلی فوج کو واصل جہنم کیا، ۳۰۰؍ سے زیادہ فوجیوں اور پولیس والوں کو قیدی بنایا، جن میں کئی اعلیٰ درجہ کے کمانڈر شامل تھے، چھٹے: بہت بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے جدید ٹکنالوجی کے نظام کو منجمد کردیا اوراس کے بدنام زمانہ جاسوسی کے ادارہ’’ موسا د‘‘کی خفیہ معلومات اور کمپیوٹر کے راز حاصل کرلیے ، ساتویں:۵۰؍ سے زیادہ ٹینکوں کو نذرآتش کیا،جن میں ایسے ٹینک بھی شامل تھے جن کودنیا کا سب سے طاقتور ٹینک کہا جاتا ہے۔

حماس نے اپنی ٹیکنالوجی کے ذریعہ ایسے میزائل تیار کیے کہ ان کے پرخچے اڑ گئے ،آٹھویں:مشرق وسطی میں موساد کیلئے جو کام کرنے والے تھے، ان کی فہرست حاصل کرلی ، نویں:اسرائیل کے ۴؍ فوجی بیس پرحملہ کرکے وہاں سے ہلکے اور اوسط درجہ کےہتھیار اپنے قبضہ میں لے لیا، دسویں:اسرائیل کے کئی راڈر تباہ کردیئے اور امریکہ کا دیا ہوا میزائل شکن نظام آئرن ڈوم کی ناکامی کو ثابت کردیا، گیارہویں: کئی ملکوں نے اسرائیل کے سفیروں کو نکال دیا اور اس طرح عالمی سطح پر اسرائیل کی تائید وتقویت کو نقصان پہنچایا، بارہویں: اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ مسلمانوں پر جو آزمائش آتی ہے ، وہ مسلمانوں کی صف میں چھپے ہوئے منافقین کے چہرہ سے پردہ ہٹادیتی ہے، اس جنگ نے ثابت کردیا کہ عالمِ اسلام میں قطر ، ترکی ،ایران کے علاوہ کوئی ملک ایسا نہیں جس کا چہرہ نفاق کے داغ سے پاک ہو، حد تویہ ہے کہ ایک طرف فلسطین میں معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل ناحق ہورہا ہے اور دوسری طرف بعض مسلم ممالک محفل طرب وعیش سجارہے ہیں؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پوری دنیا کے عام مسلمانوں کا دل تحریک فلسطین کے ساتھ ہے، شاید ان ہی کی وجہ سے حکمرانوں کے بدبخت ٹولے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل مل رہی ہے، عجب نہیں کہ ہم لوگ اپنی آنکھوں سے ان کا حشر دیکھ لیں، مگر ڈر یہی ہے کہ خدا نخواستہ عذاب الہی کے عام اصول کے مطابق گیہوں کے ساتھ گھن بھی نہ پس جائے، تیرھواں: عالم عرب کو مغرب نے کچھ اس طرح غفلت اور بزدلی کا انجکشن دیا ہے کہ وہ روح جہاد سے محروم ہوگئے ہیں، اب تو یہ بزدلی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ان کو اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف بددعاکرنے سے بھی خوف محسوس ہوتا ہے ، چودہواں: جیسے افغانستان کے جہاد نے پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے دل میں جذبۂ جہاد کی حرارت بڑھادی تھی اور ان کے اندر اس یقین کو مستحضر کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طاقت امریکہ اور مغرب کی طاقت سے بڑھ کر ہے، اسی طرح حماس نےبھی مسلمانوں میں اس تصور کو فروغ دیا اور عالم اسلام کو سمجھایا ہے کہ کوئی طاقت ناقابل تسخیر نہیں ہے، یہ صرف مسلمانوں کو مرعوب کرنے کیلئے پھیلایا ہوا ایک پروپیگنڈہ ہے، ایمان ویقین کی تلوار بڑی بڑی طاقتوں کے غرور کو پاش پاش کرسکتی ہے۔

لوگوں نے اہل غزہ کا یہ منظر بھی سوشل میڈیا پر دیکھا کہ ایک شخص کے پورے خاندان نے جام شہادت نوش کر لیا اور اس نے اعلان کیا کہ کوئی شخص مجھے پُرسہ نہ دے؛ بلکہ مجھے مبارکباد دے کہ میرے خاندان کے اتنے لوگ شہادت سے مشرف ہوئے ہیں، میں تعزیت کا نہیں مبارکبار کا مستحق ہوں، یہ منظر بھی دیکھا گیا کہ ایک شخص مٹھائی اس خوشی میں تقسیم کر رہا ہے کہ اس کا پورا خاندان شہید ہوگیا ہے، غزہ کے رہنے والے جو شعب ابی طالب کے بائیکاٹ کی سنت بھی ادا کر رہے ہیں، اس وقت ان کا حال یہ ہے کہ اگر کسی کو ایک لقمہ بھی ملتا ہے تو وہ اس کو اپنے ساتھیوں میں بانٹ کر کھاتا ہے اور اگر کسی کو ایک گلاس پانی ملتا ہے تو وہ اس میں بھی اپنے ساتھیوں کو شریک کرتا ہے، یہ واقعات عہد نبوی کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی مقام رفقاء کی یاد تازہ کرتے ہیں اور اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلمان مر تو سکتا ہے ، مذہب اسلام پر موت نہیں آسکتی۔

موجودہ دور میں ملکوں اور قوموں کی بڑی طاقت معاشی طاقت ہوتی ہے، یہودیوں نے بھی معاشی طاقت ہی کے واسطہ سے سیاسی اور فوجی طاقت حاصل کی ہے؛ اس لئے جو کچھ بن پڑے ان کو معاشی نقصان پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے، اور اس کی ایک اہم صورت یہ ہے کہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور جو مصنوعات مارکیٹ میں مقبول ہیں، ان کا متبادل لانے کی کوشش کی جائے، سوشل میڈیا پر اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں کی کثیر الاستعمال مصنوعات اور ان کے متبادل ہندوستانی مصنوعات کی فہرست آچکی ہے، یہ بہت اہم ہے، اگر اس سے مسلمان فائدہ اُٹھائیں اور اسرائیل اور اسرائیل نواز مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور ہندوستانی مصنوعات کا استعمال کریں یا خود بائیکاٹ کی جانے والی اشیاء کا متبادل مارکیٹ میں لائیں تو اس سے دوہرا فائدہ ہوگا، ظالم طاقتوں کو اپنی طاقت کی مطابق نقصان پہنچا کر ایک شرعی فریضہ کی ادائیگی ہوگی، دوسرے: اپنے ملک اور سماج میں صنعت کو فروغ ہوگا اور مسلمان بھی صنعت و حرفت کے میدان میں آگے بڑھ سکیں گے۔

اس صورت حال کا ملت اسلامیہ کیلئے جو سبق ہے ،وہ یہ ہے کہ مسلمان کسی بھی صورت میں مسئلہ فلسطین کو فراموش نہ کریں، جیسے یہودیوں نے میڈیا کے ذریعہ اپنی مظلومیت کا جھوٹ گڑھ گڑھ کر پوری دنیا کو سنایا ہے، اور ان کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی ہے، اسی طرح ہمیں چاہئے کہ اپنے دستیاب وسائل کے ذریعہ مسئلہ فلسطین کو زیادہ سے زیادہ ملکی و عالمی سطح پر نمایاں کریں، اسرائیل کے مظالم اور فلسطینیوں کی مظلومیت کو دنیا پر واضح کریں، اور اس طرح مسجد اقصی کی اہمیت اور اس کے حصول کے جذبہ کو مسلمانوں کے دلوں میں تازہ رکھا جائے۔

بارالہا! مسلمانان فلسطین کی مدد فرما،ملت اسلامیہ کو مسجد اقصیٰ واپس دلا، اور مسلمان حکمرانوں کو ایسی غیرت عطا فرما کہ مسجد اقصیٰ کا زخم ان کی کروٹوں کو بے سکون کردے، ان کو ہمت وحوصلہ عطا فرما، اور اے اللہ! ہم سب کو اپنی اپنی طاقت وصلاحیت کے مطابق فلسطینی کاز کو مدد پہونچانے کا جذبہ اوراس کی صلاحیت وطاقت عطافرما۔

۰ ۰ ۰

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com