محمد علم اللہ، نئی دہلی
گذشتہ کالم میں ہم نے جدید دور میں فلسطین پر اسرائلیوں کے قبضے کی ایک افواہ اور اس کی حقیقت پر گفتگو کی تھی اور یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ فلسطینیوں کے ذریعہ اسرائلیوں کو زمین بیچے جانے کی اصل روداد کیا ہے۔ کس طرح کچھ ہندوستانی میڈیا اور کچھ مغربی میڈیا نے تاریخ کو توڑ مروڑ کر ایک نیا بیانیہ گھڑنے اور پروپیگنڈا پھیلانے کی کوشش کی ہے۔
آج کے اس کالم میں ہم ایسے ہی ایک اور دعوے کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں گے۔ دراصل یہ کالم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں ہمارے امریکی استاذکی اہلیہ محترمہ نے ایک بحث کے دوران تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے اس جھوٹ کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دراصل اسرائیلی مجبور و مقہور ہیں اور آج سے تقریبا دو ہزار سال قبل فلسطین کے ایک حصے میں تقریبا ستر برس تک اسرائلیوں کی مملکت قائم تھی، اس لیے انھیں اپنی مملکت کے قیام اور اس کی دفاع کا مکمل حق ہے۔
اس سلسلے میں قابل غور بات یہ ہے کہ یہودی خود غیر ملکیوں کے طور پر فلسطین میں داخل ہوئے تھے اور ان کی حیثیت کسی بھی دوسرے حملہ آور سے مختلف نہیں تھی۔اس زمانے میں بیسیوں حملہ آور یونان، عراق، ایران، روم اور کئی دوسرے ممالک سے فلسطین آئے اور کچھ عرصہ حکومت کرکے نابود ہو گئے۔ اگر کسی کو اپنے علاقے کی واپسی کا حق نہیں ہے تو وہ یہودیوں کو کیسے مل گیا؟ اس مسئلہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جس علاقے پر دو ہزار سال پہلے یہ مملکت قائم تھی، اس کا بڑا حصہ فلسطین میں تھا ہی نہیں، یہ علاقہ موجودہ شام اور اردن میں ہے۔اس کے کچھ حصے پر اسرائیل نے قبضہ ضرور کیا ہے مگر بنیادی طور پر اسرائیل جس علاقے میں قائم کیا گیا وہ پرانی یہودی سلطنت سے بالکل مختلف تھا، شاید اسی بہانے اسرائیلی سامراج اپنی حدود کو لگاتار بڑھانے کی کوشش میں رہتا ہے اور جب بھی کوئی نیا علاقہ ہڑپتا ہے تو اسے قدیم یہودی سلطنت کا حصہ بتا کر اپنا بنا لیتا ہے۔
بیت المقدس یایروشلم کے ساتھ انھوں نے ایسا ہی کیا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج کی دنیا میں اگر ایسے دعوے تسلیم کئے گئے تو تقریبا ًہر ملک کی آزادی خطرے میں پڑ جائے گی۔ کوئی نہ کوئی ملک اپنے کسی نہ کسی پڑوسی کے بارے میں یہ ضرور کہہ سکتا ہے کہ وہاں پر کبھی اس کی حکومت تھی۔اس لیے اب اسی کا قبضہ ہونا چاہیے۔ ایسے دعووں کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ ہم مان لیں کہ دنیا کے ہر حصے میں بسنے والا ہر یہودی خواہ اس کا رنگ کچھ بھی کیوں نہ ہو، خواہ وہ کوئی بھی زبان کیوں نہ بولتا ہو اور خواہ یہودی مذہب کے بارے میں وہ کوئی عقیدہ بھی کیوں نہ رکھتا ہو، اُسی ایک نسل سے تعلق رکھتا ہے جو ہزار سال پہلے فلسطین کے کچھ حصے میں آباد تھی۔ اس قسم کے اوٹ پٹانگ دعووں کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نسلی برتری کے ایسے تمام دعووں کو تسلیم کر لیں جو ہٹلر اور دوسرے فسطائی لیڈر ہمیشہ کرتے رہے ہیں۔
میرے استاذ کی اہلیہ محترمہ جب میرے پے درپے سوالات کی تاب نہ لا سکیں تو انھوں نے انجیل مقدس کا سہارا لیا جس کا لب لباب یہ ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ وہ کنعان کی سرزمین کو ان کی اولاد کے لیے وقف کردے گا۔ ان کے مطابق اسرائیل کا قیام اسی وعدے کی تکمیل ہے۔
اس سلسلے میں کئی باتیں قابل غور ہیں ۔اولاً تو بے شمار عیسائی عالم یہ ثابت کر چکے ہیں کہ بائبل میں کیا گیا وعدہ خاصا مشروط تھا، یہودیوں نے اسی سرزمین پر حضرت موسیٰ کے بعد جو بد اعمالیاں کیں اور خدا نے ان کی جو سزا دی اس کے بعد اس مشروط وعدے کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ خود پوپ اعظم پال کا خیال یہ ہے کہ اس وعدے کی مذہبی حیثیت اگر بالکل ہی بے بنیاد نہیں تو بے حد مشکوک ضرور ہے۔ عیسائی مورخوں ہی نے یہ بھی کہا ہے کہ جس سرزمین کنعان کا ذکر بائبل میں موجود ہے اس کا معمولی حصہ ہی اسرائیل میں شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو علاقہ خدائی وعدہ میں شامل ہی نہیں تھا اس پر اسرائیلی تسلط سے اس وعدے کی تکمیل کیسے ہو گئی؟
ایک اسرائیلی مور خ شلومو سینڈ نے اپنی کتاب ”دی انونشن آف دی جیوش پیپل“ (یہودی لوگوں کی ایجاد) میں یہودی شناخت اور تاریخ کے روایتی تصورات کو چیلنج کیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ بائبل کے زمانے سے تعلق رکھنے والے مشترکہ نسب کے حامل ایک مستقل اور منفرد یہودی لوگوں کا تصور محض ایک افسانہ ہے۔ وسیع پیمانے پر تاریخی اور بشریاتی تحقیق کے ذریعے وہ جلاوطنی اور واپسی کے تصورات پر بھی سوال اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کہانیاں تاریخی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ سینڈ کے اہم دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ بہت سے یہودیوں کی ابتدا اسرائیل کی قدیم سرزمین سے نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے بجائے وہ مختلف مذہب تبدیل کرنے والوں کی نسل سے آئے تھے، جن میں خضر جیسے گروہ شامل ہیں۔ وہ اس عقیدے کو بھی چیلنج کرتے ہیں کہ یہودیوں کو 70 عیسوی میں دوسرے ہیکل کی تباہی کے بعد قدیم اسرائیل سے اجتماعی طور پر نکال دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ بھی دیگر مورخین اور اسکالرز ہیں جنہوں نے یہودی تاریخ اور شناخت کے بارے میں روایتی بیانیوں کو چیلنج کرتے ہوئے اسی طرح کے خیالات کی تلاش کی ہے۔ ان میں ایک قابل ذکر شخصیت آرتھر کوسٹلر ہیں، جن کی کتاب ”دی تھرٹینتھ ٹرائب: دی خضر امپائر اینڈ اٹس ہیریٹیج“ (تیرہواں قبیلہ: خضر سلطنت اور اس کا ورثہ) میں استدلال کیا گیا ہے کہ اشکنازی یہودی زیادہ تر خضر کی نسل سے ہیں، ایک ترک قوم جس نے قرون وسطی میں یہودیت قبول کی تھی۔ کوسٹلر کے کام سے پتہ چلتا ہے کہ اشکنازی یہودی آبادی کی جڑیں اسرائیل کی قدیم سرزمین کے بجائے مشرقی یورپ میں ہیں۔
اس کے علاوہ، اسرائیل شہاک اور نورٹن میزونسکی جیسے اسکالرز نے بھی اپنی تحریروں میں یہودی شناخت اور صہیونیت کے تاریخی پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے، انھوں نے قائم شدہ بیانیوں کو چیلنج کیا ہے اور قارئین کو یہودی تاریخ کی پیچیدگیوں اور اسرائیل کے قیام کے ساتھ اس کے تعلقات پر دوبارہ غور کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس بابت میکسم روڈنسن اور ارنسٹ رینن جیسے اسکالرز کی تحقیق بھی اہم چیز ہے، جنہوں نے یہودی شناخت اور یہودی لوگوں کی ابتدا سے متعلق روایتی تاریخی بیانیوں پر سوال اٹھایا ہے۔
یہاں اس دلچسپ حقیقت کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ یہودیوں کا انتہائی مذہبی فرقہ ناتورای کارتا سیکولر اقدار اور یہودی ریاست کے قیام کو حرام سمجھتا ہے۔ یہ فرقہ دنیا میں ہر جگہ اسرائیل کی مخالفت کرتا ہے اور اسرائیل مخالف مظاہروں میں شرکت کرتا ہے۔ اسرائیل میں اس فرقے کو مستقل ہراساں کیا جانا عام بات ہے۔
کئی یورپین دانش وروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم کی اولاد کو سر زمین کنعان دینے کا اگر وعدہ کیا تھا تو حضرت ابراہیم یہودیوں ہی کے نہیں عربوں یعنی مسلمانوں اور عیسائیوں کے جد امجد بھی تھے۔ بلکہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یہ وعدہ حضرت اسماعیل کی طہارت اور پاکیزگی کے وقت کیا گیا تھا۔ یہودی حضرت اسماعیل سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہیں اور حضرت اسحاق کو اپنا جد امجد سمجھتے ہیں۔ جس وقت یہ مبینہ خدائی وعدہ کیا گیا اس وقت حضرت اسحاق پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ توریت کے مطابق پہلے حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش ہوئی اور پھر ۱۴سال بعد حضرت اسحاقؑ کی پیدائش ہوئی۔مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر ”الرای الصحیح فی من ھو الذبیح“ کے عنوان سے ایک معرکہ آرا کتاب لکھی ہے اور مدلل انداز میں حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ اس میں انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ حضرت ذبیح اللہ اسحاق نہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے۔ مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کی اصل کتاب عربی میں ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس کا اردو ترجمہ کیا تھا ‘ جو ”ذبیح کون ؟“ کے نام سے دستیاب ہے۔
ان سب حقائق سے بھی اہم بات یہ ہے کہ فلسطین میں بسنے والے نوے فیصد عوام یعنی مسلمان اس وعدے کی اصلیت میں کوئی یقین نہیں رکھتے کیوں کہ ان کے عقیدے اور قرآن پاک کے مطابق یہودیوں نے اللہ کو ناراض کیا اور اپنے کیے کی سزا پائی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک مذہبی کتاب یعنی بائبل میں موجود ایک خاصے مشکوک دعوے کو ایک سیاسی دعوے کی بنیاد مانا جا سکتا ہے تو ایک دوسری اتنی ہی اہم اور قابل احترام مذہبی کتاب قرآن پاک کے واضح ترین الفاظ کو اس دعوے کی نفی کے طور پر اہمیت کیوں نہیں دی جا سکتی؟
سچ تو یہ ہے کہ آج کے دور میں ایسے دعووں میں الجھنا ایک ایسی بحث کو دعوت دینا ہے جس کا کوئی حل نہیں نکل سکتا لیکن اس سے کئی آزاد ملکوں کی آزادی خطرے میں پڑ جائے گی اور ایک زبردست عالمی انارکی کا اندیشہ پیدا ہو جائے گا۔ اسرائیل-فلسطین تنازع کے گرد گھومنے والی بھول بھلیوں کی بحث میں ایسا لگتا ہے کہ ہم تاریخی تحریفات میں پھنس چکے ہیں، جہاں فلسطین پر اسرائیلی قبضہ پروپیگنڈے اور میڈیا کے بیانیے میں الجھا ہوا ہے جس سے پیچیدگی مزید گہری ہوتی جاتی ہے۔
یہ تصور کہ دنیا بھر میں ہر یہودی فطری طور پر اس سرزمین سے جڑا ہوا ہے جہاں سے ان کے آباو اجداد ہزاروں سال پہلے آباد تھے۔ وہ رنگ، زبان یا عقیدے سے قطع نظر، شناخت اور حق کے بارے میں گہرے سوالات اٹھاتے ہیں۔ جب مذہبی متون کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، تو عقائد، ثقافتوں اور تاریخی تشریحات کے درمیان تصادم پانی کو مزید گدلا کر دیتا ہے۔ اس لیے ان دعووں کے حال اور مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس پر غور کیا جانا ضروری ہے۔ جب متنازعہ علاقوں کو قدیم سلطنتوں اور مقدس سرزمینوں کا نام دیا جاتا ہے، تو قوموں کی آزادی میزان میں لٹک جاتی ہے اور ایک قوم کا تاریخی حق دوسری قوم پر تجاوز کرتا ہے، دنیا کے افراتفری میں پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جہاں ہر ملک قدیم متون اور منتخب تشریحات پر مبنی دعووں کو داؤ پر لگا سکتا ہے اس لیے ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم ان معاملات کو انتہائی حساسیت، سوجھ بوجھ، عقائد اور شناختوں کے پیچیدہ جال کے احترام کے ساتھ صحیح تاریخی تناظر میں بھی دیکھیں۔ مکالمے، ہمدردی اور پرامن حل کے عزم کو فروغ دے کر، ہم ان چیلنجوں سے کسی حد تک نمٹ سکتے ہیں اور عالمی سطح پر بقائے باہمی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔