علیزے نجف
ڈجیٹل میڈیا یا ٹکنالوجی یہ ایسا لفظ ہے جس نے اس اکیسویں صدی میں دنیا میں واقع ہو رہی تبدیلیوں کو برق رفتار بنا دیا ہے، ہم ڈیجیٹل انفارمیشن کے دور میں رہ رہے ہیں ہماری سوچ کے بننے اور بگڑنے میں اس کا بہت بڑا دخل ہے، نوجوان نسل اس ڈجیٹل سکرین کی ہی دنیا کے باسی بن چکے ہیں اس لئے ان کے فکر و عمل پہ اس کی گہری چھاپ دیکھی جا سکتی ہے، اس کے ذریعے باقاعدہ ایک مائنڈ سیٹ کو فروغ دیا جا رہا ہے، بےشک اس کے بہت سارے فائدے بھی ہیں وہیں صحیح ذہنی رویوں کی عدم موجودگی میں منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے فرد، خاندان، معاشرہ سبھی متاثر ہو رہے ہیں۔ آج کے دور میں انفارمیشن کا ایک سیلاب ہے جو کہ ہر طرف سے امنڈا چلا آرہا ہے اس سیلاب میں لوگوں کا ذہنی سکون منتشر ہو رہا ہے،آج کے دور میں جہاں مس انفارمیشن کے ذریعے سیاہ کو سفید، سفید کو سیاہ کرنا آسان ہو گیا ہے۔ جو کہ لمحہء فکریہ ہے اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی دنیا میں ڈجیٹل دنیا کی بڑھتی شمولیت ایک رحمت بھی ہے اور زحمت ںھی۔ بعض لوگ بےبنیاد خیالات میں ہی جینے کے عادی ہو رہے ہیں اور بعض ایسے لوگوں کے ساتھ نباہ کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں جو کہ ٹاکسک رویوں کے عادی ہیں، ایسے ٹاکسک لوگ ارد گرد کے واقعات سے خود کو ویلیڈیٹ کر کے اس پہ قائم رہنے پہ مصر ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ ڈیل کرنا کسی سر درد سے کم نہیں ہوتا ایسے رویوں کو فروغ دینے میں ڈجیٹل دنیا کا ایک بڑا ہاتھ ہے ڈجیٹل سکرین اپنے آپ میں بہت انقلابی دریافت ہے اس نے ہمیں بہت ساری آسانیاں و آسائشیں عطا کی ہیں، اس سے جڑے منفی مضمرات کی ذمےداری بےشک انسانوں کے طریقہء استعمال پہ ہی عائد ہوتی ہے۔
علم ایک نعمت ہے جو ذہنوں کو زرخیز بنانے میں معاون ہوتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم اس علمی فروغ کے باوجود عام عوامی معاشرے کو بے سمت ہوتے دیکھ رہے ہیں ایسے میں یہ سوال تو پیدا ہونا فطری ہے کہ علم و انفارمیشن کے ہوتے ہوئے یہ تنزلی کیوں؟ اس کا سب سے واضح اور سادہ جواب یہ ہے کہ وہ ٹکنالوجی جو انفارمیشن کے فروغ دینے کا سب سے بڑا ریسورس ہے وہیں سے مس انفارمیشن کو بھی انفارمیشن کے نام پہ تیزی سے شیئر کیا جا رہا ہے یہ دونوں اس قدر خلط ملط ہو گئی ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ رکھنا مشکل ہو گیا ہے، لوگ مس انفارمیشن کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کسی کا بھی اخلاقی گریبان پکڑ لیتے ہیں، اور کوئی بھی شعبہ اس سے آزاد نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انفارمیشن کی بہتات نے لوگوں کو کنفیوز غیر حقیقت پسندانہ نظریات کا اسیر بنا دیا ہے پھر بھی وہ خود کو عالم مطلق سمجھ رہا ہے تحمل اور رواداری کا گراف کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے اس کی وجہ سے شدت پسندانہ ذہنیت کو بڑھتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ محض ایک کلک سے شیئر اور ایکسس کے آپشن کا بہت تیزی کے ساتھ مس یوز کیا جا رہا ہے، سیاست اور مذہب کے نام پہ سب سے زیادہ لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔
مس انفارمیشن کو فروغ پانے کے پیچھے سب سے زیادہ ذمےدار ہمارا مقلدانہ رویہ ہے، ہمارے نزدیک سچائی کے معیار اکثر لوگ ہوتے ہیں مثلا یہ کہ اگر فلاں شخص یہ بات کہہ رہا ہے تو پھر وہ صد فیصد درست ہی ہے اس کے علاوہ کوئی اور یہ بات کہے تو شک کی بنیاد پہ تردید لازم ہے۔ اس کی دوسری بڑی وجہ ہمارا جذباتی انداز فکر ہے، ہم بہت جلدی اپنے جذبات کو چیزوں اور مخصوص حقائق سے جوڑ دیتے ہیں پھر اس کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کسی بھی حد کو پار کرنے میں تامل نہیں کرتے اس طرح بعض اوقات ہم خود جانے انجانے میں مس انفارمیشن کو فروغ دیتے ہیں۔ واٹساپ یونیورسٹی نے اس میں مزید تیزی و آسانی پیدا کر دی ہے ہم بنا سوچے سمجھے ہر طرح کے میسجز کو فارورڈ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں ہماری اس عادت نے بہت کم عرصے میں جھوٹ اور سچ کے درمیان موجود تفریق کو دھندلا کر دیا یے۔
اس مشکل سے نمٹنے کے لئے ہمیں باہری دنیا پہ کام کرنے سے پہلے خود کے رویے پہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلی چیز ہمیں اپنے جذبات کو ٹرین کرنا چاہئے مطلب یہ کہ جب تک کوئی حقیقت عقلی پیمانے پہ صحیح ثابت نہیں ہوتی اس کو قبول کرنے سے گریز کریں کسی بھی حقیقت کا دفاع کرتے ہوئے جذبات سے زیادہ دلیل اور اصول پہ توجہ دیں ہم بھی غلط ہو سکتے ہیں اس امکان کو کبھی رد نہ کریں، اختلاف رکھتے ہوئے بھی دوسرے نظریوں کا احترام کرنا سیکھیں کیوں کہ جب ہم اختلاف کرتے ہوئے سامنے والے کے جذبات کو ہرٹ کرتے ہیں تو وہ ماننے کے بجائے منوانے پہ اڑ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ غلط انفارمیشن کو صحیح سمجھ کر اس کو مزید سختی کے ساتھ نہ صرف اڈاپٹ کر لیتے ہیں بلکہ دوسروں کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
غلط انفارمیشن کو روکنے لئے ہمیں اپنے فارورڈ کے آپشن کو سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کی ضرورت ہے خاص طور مذہب سیاست اور کسی کے کردار سے متعلق میسیجز کو فارورڈ کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچیں کیوں کہ غلط ہونے کی صورت میں کئی طرح کے مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے اس سے معاشرتی اقدار پہ گہری ضرب پڑتی ہے۔ اختلاف کے باوجود متحد رہنے کی کوشش سے ہم اخلاقی رویوں کو پامال ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ خیالات و نظریات سے اختلاف کریں خود انسان کی شخصیت سے نہیں اس سے علمی تحقیقی رویہ پیدا ہوگا۔ اختلاف کرتے ہوئے لفظوں کے انتخاب پہ خصوصی توجہ دینی چاہئے کیوں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم صحیح تو ہوتے ہیں لیکن اپنے تلخ رویوں اور غیر مناسب الفاظ کی وجہ سے سامنے والے کو حقیقت کا معترف بنانے کے بجائے اس کو مزید بدظن کر دیتے ہیں۔
اس وقت بات مس انفارمیشن کی ہو رہی تھی اس مس انفارمیشن کے بہاؤ کو روکنا اور اسے صحیح رخ دینا ازحد ضروری ہی اس کے لئے اپنے اندر صبر و تحمل اور تحقیقی رویہ پیدا کرنے ضروری ہے، ایسا نہیں ہے کہ صرف ناخواندہ لوگ اس شکنجے میں پھنس رہے ہیں آج کے ڈیجیٹل طور میں تعلیم یافتہ لوگ بھی اس کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں اس لئے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے افراد کو قابل اعتماد ذرائع کی تحقیق اور معلومات کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی چھان بین کرنے میں ماہر ہونا ضروری ہے۔ رائے کو حقیقت سے الگ کر کے دیکھنے کا رویہ بھی ہونا چاہئے۔ تعلیمی اداروں کو بھی اس حوالے سے پیش رفت کرنا چاہئے کہ وہ طلبہ کو ڈجیٹل دنیا کی حقیقت سے نہ صرف آشنا کریں بلکہ ان میں تحقیق و تنقید کا جذبہ بھی پیدا کریں اس کے ذریعے وہ حقیقت کو زیادہ بہتر طریقے سے دیکھنے کے قابل ہو سکیں گے،
ڈجیٹل میڈیا پہ مس انفارمیشن کے خاتمہ کے لئے خود میڈیا انڈسٹری کو اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے یہ بھی سچ ہے کہ اس کو بڑھاوا دینے والے یہی لوگ ہیں اس لئے ایسے لوگوں کا اب ڈجیٹل میڈیا میں آنا بہت ضروری ہے جو کہ مس انفارمیشن کے خلاف ہیں اور اس کو ختم کرنے کے درپے ہیں، محض باتیں اور چند موقعے پہ ظاہر کئے جانے والے ردعمل سے اس سیلاب کو روکا نہیں جا سکتا، ڈجیٹل میڈیا کی برق رفتاری ہی اس کی سب سے بڑی خصوصیت ہے میڈیا ٹیم کے آپسی وسائل میں اشتراک کر کے بھی کئی مؤثر اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔
مس انفارمیشن کے بڑھتے ہوئے اثرات کو کم کرنے کے لئے حکومت کو بھی اصول و قوانین بنانے کی اشد ضرورت ہے، غلط انفارمیشن کو پھیلانے والے افراد اور گروہوں کے خلاف سخت قوانین بنا کر اس کو نافذ العمل کرے تاکہ لوگوں کے اندر خوف پیدا ہو اور وہ اصولوں کو سمجھ سکیں، بےشک یہ بھی سچ ہے کہ ہم اس حوالے سے مکمل طور سے حکومت پہ انحصار نہیں کر سکتے اور نہ ہی ناکامی کی صورت میں اسے معتوب قرار دے کر خود کو بری کر سکتے ہیں، ہمیں ہر سطح پہ اس کے لئے خود بیدار ہونا ہوگا، اس لئے سب سے پہلے ذاتی سطح پہ خود ایسے پیغامات کو شیئر کرنے سے گریز کریں جس سے نقض امن یا کسی فرد یا قوم کی دلآزاری کا اندیشہ ہو۔ محض وقتی خوشی کے لئے دوسروں پہ کیچڑ اچھالنے سے گریز کریں، اگر خود کے لئے عزت چاہتے ہیں تو دوسروں کو بھی عزت دینا سیکھیں، معاشرتی اور عالمی سطح پہ افراد، میڈیا، ماہرین تعلیم ، ٹیک کمپنیوں حکومت اور بین الاقوامی تنظیموں کے باہمی اشتراک سے اس مسئلے کو قابو میں کیا جا سکتا ہے۔ قبل اس کے کہ یہ مس انفارمیشن کا سیلاب انسانی تہذیبوں اور معاشرتی اقدار اور انسانی فطرت کی صالحیت کو تہہ تیغ کرے اس کے سد باب کے لئے مؤثر اقدام کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔