شاہنواز بدر قاسمی
سہارا گروپ کے بانی و چیرمین سہارا شری سبرت رائے کا دیر رات طویل علالت کے بعد 75سال کی عمر میں ممبئی کے ایک پرائیوٹ ہاسپٹل میں انتقال ہوگیا۔ وہ کینسر کے مریض تھے۔ ان کی موت پر سہارا گروپ سمیت پورے ملک میں غم کا ماحول پایا جارہا ہے۔ سہارا شری 10جون 1948کو بہار کے ضلع ارریہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بہار اور کلکتہ میں حاصل کی اس کے بعد وہ مزید تعلیم کیلئے اترپردیش چلے گئے۔ جہاں تعلیم کے ساتھ تجارت شروع کردیا۔ ایک معمولی فیملی کے تعلق رکھنے والے سبرت رائے نے اپنی محنت، جدوجہد اور اعلی دماغ سے وہ مقام حاصل جس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے فرش سے عرش تک پہنچ گئے۔
سہارا شری بھارت کے ان کامیاب بزنس مین میں تھے جن کی محفلوں میں ملک کے وزیراعظم سے لیکر بڑی بڑی شخصیات موجود رہتے تھے، ان کے ایک اشارے پر بڑے بڑے لیڈران اور اسٹار گھومنے لگتے تھے، انہوں نے تجارت سے لیکر سیاست تک اور کرکٹ سے لیکر فلم تک دنیا کے ہر میدان میں اپنی کامیابی کے جھنڈے لہرائے اور ایک مثال قائم کرگئے۔ انہوں نے ایک زمانے میں جو چاہا وہ کیا۔
محبانِ اردو میں میں سبرت رائے کی مقبولیت اور قدردانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے آزادی کے بعد اردو صحافت کو ایک نئی زندگی دی، راشٹریہ سہارا اخبار کے ذریعہ عالمی سطح پر انہوں نے اردو صحافت کو متعارف کرانے اور اردو اخبار کے معیار کو بلند کیا۔ اردو صحافت سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو روزی روٹی کے ساتھ خوب لکھنے کا موقع ملا۔ ایک زمانے میں اس اخبار کی مقبولیت کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ ملک کے کئی شہرو ں سے ایک ساتھ شائع ہونے والا یہ اردو کا پہلا اخبار تھا جس کیلئے سبرت رائے نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا اور کھل کر اردو صحافت کو آگے بڑھانے میں بھرپور تعاون کیا۔ وہ چاہتے تھے راشٹریہ سہارا دنیا کا سب سے بڑا اردو اخبار بن جائے لیکن ڈاکٹر عزیز برنی کے بعد یہ اخبار عروج کے بجائے زوال کا شکار ہوتا چلا گیا۔
سہارا سری سبرت رائے نے جو مقام حاصل کیا تھا و ہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا چلا گیا، عروج کا وہ دور ختم ہوگیا اور ایک مرتبہ پھر عرش سے فرش پر پہنچ گئے، سہارا سری قرض میں اس قدر ڈوب گئے جس سے نکلنا بظاہر مشکل ہوگیا۔ انہوں نے لکھنو کو اپنا شہر بنالیا اور وہی شہر ان کی شناخت اور پہچان کا ذریعہ بن گیا۔ سہارا سری نے زندگی میں بہت سے اچھے کام بھی کئے جس کیلئے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔