اے آئی یعنی آرٹیفیشیل انٹلیجنس (مصنوعی ذہانت) کے بے شمار فوائد ہیں، لیکن اس کے مضر اثرات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ ڈیپ فیک کے بڑھتے معاملوں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر جمہوریہ دروپدی مرمو تک کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ اب اے آئی سے متعلق چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کا انتہائی اہم بیان سامنے آیا ہے۔ چیف جسٹس چندرچوڑ نے ہفتہ کے روز بنگلورو میں منعقد 36ویں لواسیا تقریب میں شرکت کے دوران اے آئی کے اخلاقی استعمال کو لے کر کچھ اہم باتیں لوگوں کے سامنے رکھیں۔ انھوں نے کہا کہ ان دنوں ہم اے آئی کے اخلاقی استعمال کے بنیادی سوالات کا لگاتار سامنا کر رہے ہیں۔
لواسیا تقریب میں چیف جسٹس چندرچوڑ کی تقریر کا عنوان تھا ‘شناخت، شخص اور ریاست: آزادی کے نئے راستے’۔ دراصل لواسیا ایشیا پیسفک علاقوں کے وکلا، ججوں، جیورسٹ اور آئینی اداروں کا ایک ایسو سی ایشن ہے۔ اسی نے ہفتہ کے روز ایک تقریب کا انعقاد کیا جس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ آزادی کچھ اور نہیں بلکہ اپنے لیے فیصلے لینے کی اہلیت ہے جس سے ہماری زندگی بدل جائے۔ کسی شخص کی پہچان اس کی زندگی میں لیے گئے اس کے فیصلوں سے جڑی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ڈی وائی چندچوڑ نے یہ بھی کہا کہ لوگ اپنی ذات، مذہب، جنس یا جنسی رجحان کے سبب تفریق کا سامنا کرتے ہیں۔ انھیں ہمیشہ استحصال کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ یہ سماجی طور سے اثرانداز ہے۔
آرٹیفیشیل انٹلیجنس سے متعلق بات کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے بتایا کہ ڈیجیٹل دور میں آرٹیفیشیل انٹلیجنس کے کئی پرکشش پہلوؤں کا سامنا کس طرح کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آرٹیفیشیل انٹلیجنس یعنی اے آئی اور شخصیت کے درمیان ایک پیچیدہ رشتہ ہے۔