٭ خورشید عالم داؤد قاسمی
عرب لیگ بائیس عرب ممالک کا اتحاد ہے۔ یہ لیگ بنیادی طور پر رکن ممالک کے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے سن 1945ء میں قائم کی گئی تھی۔ “اسلامی تعاون تنظیم” ایک بین الاقوامی تنظیم ہے، جس کے ارکان دنیا بھر کے ستاون مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔ اس تنظیم کا قیام 25/ ستمبر 1969 کو، شمالی افریقہ کے ملک مراکش کے دار الحکومت “رباط” میں، ایک کانفرنس کے بعد عمل میں آیا۔ اس کانفرنس کے محرک بیت المقدس کے مفتی اعظم جناب مفتی محمد امین الحسینی (1897 – 1974) رحمہ اللہ تھے۔ صہیونیوں نے مسلمانوں کے قبلۂ اول یعنی مسجد اقصی پر، 21/ اگست سن 1969 کو حملہ کیا اور جلانے کی کوشش کی۔ پھر یہ تنظیم اسی حملے کے نتیجے میں قائم کی گئی۔ اس تنظیم کا مقصد پورے عالم میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرنا ہے۔ “عرب لیگ” یا پھر “اسلامی تعاون تنظیم” اپنے مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہے، یہ اتنا ظاہر ہے کہ اسے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ۔
صہیونی ریاست اسرائیل کی قابض فوج نے غزہ کے خلاف حالیہ جنگ میں، فضائی حملے کے ساتھ ساتھ زمینی حملے بھی شروع کردیا، اس کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں بڑی تباہی پھیلنے لگی اور حالات بد سے بدتر ہونے لگے؛ تو کچھ مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ، فلسطین اتھارٹی کے صدر ابو مازن محمود عباس نے بھی 28/ اکتوبر کو، عرب سربراہی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔ عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کا مشترکہ ہنگامی اجلاس، بروز: سنیچر، 11/ نومبر 2023 کو ریاض میں منعقد ہوا۔ صہیونی ریاست کی طرف سے بغیر کسی تفریق کے غزہ کے بوڑھے، بچے، خواتین کے خلاف بدترین دہشت گردانہ کاروائی اور نسل کشی کے ہفتوں بعد، یہ اجلاس منعقد ہوا۔ اس کے باوجود، یہ دو تنظیمیں اس اجلاس میں، اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی سیاسی یا معاشی کاروائی کے حوالے سے کوئی اعلامیہ جاری کرنے کی ہمت نہیں جٹا سکیں۔
کچھ ممالک نے متعدد ایسی تجاویز پیش کیں، جو اگر اس اجلاس کے اعلامیے کے طور پر جاری ہوتیں؛ تو صہیونی ریاست کو کچھ سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا۔ وہ تجاویز یہ تھیں: تمام رکن ممالک اسرائیلی فوج کو دہشت گرد قرار دیں، اسرائیل کے ساتھ جن ممالک کے سفارتی تعلقات ہیں، وہ اپنے تعلقات منقطع کرلیں۔ الجزائر نے یہ تجویز پیش کی کہ اسرائیل کو تیل کی فراہمی روک دی جائے؛ مگر صہیونی قابض ریاست کے ساتھ “اَبراہم اکورڈ” کے تحت سفارتی تعلقات قائم کرنے والے ممالک: بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ مذکورہ بالا تجاویز میں سے کوئی بھی تجویز پاس نہ ہوسکی۔ اتنے بڑے اجلاس سے کوئی ایسا اعلامیہ جاری نہیں کیا جاسکا جس سےیہ واضح پیغام جاتا کہ یہ ستاون ممالک ایک پلیٹ فارم پر ہیں، وہ اسرائیل کی جارحیت، بلکہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے کمر بستہ ہیں اور اس کی وحشیانہ کاروائی کے خلاف ردّ عمل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم ستاون ممالک کا اتحاد ہے۔ اس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ یہ اسرائیل پر دباؤ ڈال سکے۔ اس کے پاس اسرائیل کے خلاف معاشی و سیاسی کاروائی کرنے کی طاقت ہے؛ مگر اس عظیم تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان آپسی عدم مفاہمت، گہری خلیج اور ان کے ملکی مفاد، کوئی اہم فیصلہ نہیں لینے دیتے۔ اتنے بڑے اجتماعی پلیٹ فارم سے جو فائدہ حاصل کیا جانا چاہیے تھا، اب تک مسلم ممالک وہ فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔ اس سربراہی اجلاس میں جو اعلامیے جاری کیے گئے، ان میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کی گئی۔ ان اعلامیے میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ “عالمی برادری جنگ بندی کے لیے فوری کاروائی کرے، اسرائیل غزہ کی ناکہ بندی ختم کرے اور انسانی امداد کی ترسیل کی فوری اجازت دے۔” اس اجلاس میں جاری کیے گئے ان ہیچ اور بے معنی اعلامیے کے بعد،صہیونی قابض فوج جو غزہ کے نہتے شہریوں پر شب و روز فضائی و بری حملے کر رہی تھی، اس میں مزید سختی آئی۔ کسی جوابدہی کے خوف کے بغیر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ بہت سے اسپتالوں اور طبی مراکز کو بالقصد نشانہ بنایا گیا۔ الشفا اسپتال، القدس اسپتال، انڈونیشین اسپتال، بچوں کے لیے خاص ڈاکٹر رینتیسی اسپتال اور النصر اسپتال، سب پر صہیونی فوج نے حملہ کیا، مریضوں ، طبی عملے، بدنصیب اور خانما برباد لوگ جو وہاں پناہ گزیں تھے، ان کو نشانہ بنایا گیا۔
وہ بدترین دن بھی آیا کہ صہیونی بری فوج نے اپنے ٹینکوں کی گھن گرج کے ساتھ، الشفا اسپتال کا محاصرہ کرلیا اور اسپتال انتظامیہ کو مجبور کیا کہ اسپتال سے مریض کو باہر کا راستہ دکھائے۔ بہت سے مریضوں کو اسپتال چھوڑنا پڑا۔ درجنوں قبل از وقت پیدا ہوئے والے بچے، انکیوبیٹر کی بجلی بند ہونے کی وجہہ سے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ سینکڑوں مریض بستر علالت پر دم توڑ گئے۔ پھر قابض فوج نے اسپتال میں داخل ہوکر، سرچ آپریشن شروع کیا۔ بغیر کسی پختہ ثبوت کے یہ منوانے کی کوشش کی کہ یہ اسپتال مزاحمتی تنظیم”حماس” کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ اسپتال کے نیچے سرنگ میں جنگی ساز وسامان ہیں۔ “حماس” والے اس اسپتال سے اپنی مزاحمتی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ الشفا اسپتال کا محاصرہ کرکے، قابض فوج اپنی کاروائی انجام دیتی رہی اور اسپتال میں درجنوں مریض اور پناہ گزیں جاں بحق ہوتے رہے۔ حالات اتنے خطرناک تھے کہ جب قبرستان میں ان لاشوں کے تدفین کی کوئی صورت نہیں نکل سکی؛ تو اسپتال انتظامیہ نے 15/ نومبر کو الشفا اسپتال کے احاطے میں ہی اجتماعی قبر کھودوائی اور 179 لاشیں وہاں دفن کی گئیں۔ قابض فوج اس اجتماعی قبر سے کچھ لاشیں نکال کر لے گئی۔ صہیونی فوج نے 23/ نومبر کو الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر جناب محمد ابو سلمیہ اور ان کے کئی دیگر سینئر ڈاکٹر ساتھیوں کو گرفتار کیا، جو تاہنوز قید میں ہیں۔
قابض صہیونی فوج نے بروز: سوموار، 20/ نومبر کو انڈونیشین اسپتال کا بھی ٹینکوں سے چاروں طرف سے محاصرہ کیا اور گولہ باری شروع کردی۔ فوج نے اسپتال کے محاصرہ کے حوالے سے یہ بیان جاری کیا کہ یہاں سے دہشت گرد فائرنگ کر رہے تھے۔ پھر جوابی کاروائی کے نام پر بمباری شروع کردی گئی۔ قابض فوج کے حملے میں، اسپتال کا “سرجری روم” مکمل طور پر تباہ ہوگیا اورتقریبا بارہ لوگ شہید ہوئے جن میں کچھ ڈاکٹر بھی تھے۔ صہیونی قابض فوج غزہ کے لوگوں کی جس طرح نسل کشی اور قتل عام کر رہی ہے، وہاں کے اسپتالوں کا محاصرہ کرکے، جس طرح ان پر بمباری اورگولہ باری کر رہی ہے، مریضوں اور اور طبی عملے کو جس طرح نشانہ بنا رہی ہے، جس طرح ڈاکٹروں کو گرفتار کر رہی ہے کہ مستقبل کا مورخ اس کی اس وحشیانہ کاروائیوں کو انسانی تاریخ کے سیاہ ترین ادوار میں شمار کرے گا۔
مسلم ممالک کے وزراء وصدور، جنھوں نے “عرب لیگ” اور “اسلامی تعاون تنظیم” کے اجلاس میں شرکت کی، کو ذار سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ ایک طرف درجنوں ممالک ہیں اور دوسری طرف ایک چھوٹا سا غاصب ملک، پھر بھی ان کو اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ایسے اعلامیے جاری کرتے، جن سے صہیونی ریاست کو سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا کہ اس سرزمین پر کچھ ایسے بہادر انسان موجود ہیں جو اس سے باز پرس کی طاقت رکھتے ہیں۔ انھوں نے ایسے بے معنی اعلامیے جاری کیے، جو کوئی بھی عام آدمی کرسکتا ہے۔ ان ستاون ممالک کے حکمرانوں کو ایک بار ضرور غور کرنا چاہیے کہ آخر انھوں نے جمع ہوکر، غزہ کے معصوم لوگوں کی نسل کشی کو رکوانے کے لیے کیا کیا؟ یہ حکمراں اس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں، جنھوں نے “مومنوں” کے بارے فرمایا تھا: «مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ، تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى.» (صحیح مسلم: 2586) ترجمہ: “مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے، ایک دوسرے کے ساتھ رحم کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کرنے کے حوالے سے جسم کی طرح ہے۔ جب اس کا کوئی ایک عضو درد محسوس کرتا ہے؛ تو اس کا باقی جسم اس کی وجہہ سے بیداری اور بخار میں مبتلا رہتا ہے۔” ان حکمرانوں کو غور کرنا چاہیے کہ اس حدیث میں جو کچھ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، کیا وہ بھی اس کے مصداق ہیں؟
یہ ستاون ممالک اس ایک چھوٹے سے قابض صہیونی ریاست سے خائف ہیں۔ اس کی وجہہ بدیہی ہے۔ اس چھوٹے سے قابض ملک نے مقبوضہ سرزمین پر بڑے بڑے ٹاور نہیں بنوائے ہیں، بلکہ خود کومعاشی طور پر مضبوط اور مستحکم کیا ہے۔ اس نے طرح طرح کے ہتھیار بنائے ہیں۔ اس چھوٹی سی صہیونی ریاست کے پاس ایٹم بم جیسے عام تباہی کے مہلک ہتھیار ہیں، جسے غزہ پر گرانے کی بات موجودہ صہیونی حکومت کے ایک انتہا پسند وزیر: امیچے الیاہو نے 5/نومبر کو کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سارے پڑوس عرب ممالک اس صہیونی ریاست سے ہر وقت خوف زدہ رہتے ہیں اور اس کے خلاف زبان کھولنے کی بھی ہمت نہیں کرتے۔
ان ستاون ممالک میں کئی ایسے ممالک ہیں جن کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہے۔ مگر انھوں نے اپنی دولت کو اچھے تعلیمی ادارے کے قیام پر خرچ نہیں کیے، انھوں نے اپنے ملکوں میں اچھے اسپتال نہیں بنوائے اورانھوں نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اچھے اسلحے بھی تیار نہیں کیے۔ وہ اس حوالے سےبالکل غافل ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے پاس جو بھی اسلحے ہیں، وہ انھوں نے دوسرے ممالک سے خریدے ہیں اور ان کی معاشی طور پر مضبوط کیا ہے۔ اس کے باوجود بھی وہ ان اسلحے کے استعمال میں، خود مختار اور آزاد نہیں ہیں۔ انھوں نے کچھ بلند و بالا ٹاور اور عمارتیں اپنے ممالک میں ضرور کھڑی کی ہیں؛ مگر ضرورت کے وقت یہ عمارتیں یا ٹاور ان کی مدد نہیں کریں گے۔انھیں اپنی حفاظت کے لیے اسلحے بنانے چاہیے تھے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ عصر حاضر میں، ہتھیار امن اور حفاظت کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔
اس دوران، قطر اور مصر کی ثالثی میں، اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی کا معاہدہ 22/ نومبر 2023 کو ہوا۔ یہ جنگ بندی کا معاہدہ صرف چار دنوں کے لیے ہے۔ یہ معاہدہ بروز: جمعرات، 23/ نومبر، مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے سے نافذ ہونا تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ بعد میں، یہ معاہدہ بروز: جمعہ 24/ نومبر کو مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے نافذ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت، اسرائیل کی جیل میں بغیر کسی جرم کے قید، ایک سو پچاس فلسطینی خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے گا اور حماس سات اکتوبر کو یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں میں سے پچاس خواتین اور بچوں کو رہا کرے گی۔ مزید یہ کہ اس عارضی جنگ بندی کے دوران، مصر سے روزانہ دو سو امدادی ٹرکوں اور ایندھن کے ٹرکوں کو شمالی اور جنوبی غزہ کے تمام علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ واضح رہے کہ 23/ نومبر تک اس جنگ میں، پندرہ ہزار کے قریب لوگ شہید ہوچکے ہیں، جن میں تقریبا چھ ہزار بچے اور چار ہزار خواتین شامل ہیں؛ جب کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد تقریبا چھتیس ہزار ہے۔ تقریبا سترہ لاکھ شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔
فلسطین اور غزہ ایک سرحد ہے۔ مسلم ممالک کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ یہ عام حدود وثغور کی طرح کوئی علامتی سرحد نہیں ہے جو ایک ملک کو دوسرے سے علاحدہ کرنے کے لیے اس دنیا کے سیاسی لوگوں نے مقرر کیا ہے؛ بلکہ یہ ایک معنی خیز سرحد ہے جسے آپ واضح لفظ میں”ریڈ لائن” اور “سرخ لکیر” کہہ سکتے ہیں۔ اگر دشمن اس “سرخ لکیر” کو عبور کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور غزہ کا سقوط ہوجاتا ہے؛ تو آپ کی حفاظت کے لیے کوئی حصار باقی نہیں رہے گا۔ وہ دشمن آپ کی گردن پر حملہ کرے گا۔ پھر وہ دن دور نہیں کہ صہیونی ریاست اپنے “گریٹر اسرائیل” کے خاکے میں، آسانی سے رنگ بھرنے کے لیے آپ کی طرف پیش قدمی کرے گی۔ اس وقت آپ کو سمجھ میں آئے گا کہ آپ نے غلطی کی ہے؛ جب کہ اس وقت بہت تاخیر ہوچکی ہوگی اور آپ خود کو ملامت کریں گے۔ خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا ہو! اللہ عالم اسلام کی حفاظت فرمائے!
٭ مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ