سیف و قلم کے مجاہد مفتی ظفیر الدین مفتاحیؒ

فاروق اعظم قاسمی
1999 کے اواخر میں دارالعلوم دیوبند میں میرا داخلہ ہوا ۔فضلیت کا پہلا سال تھا ۔ اپنے علاقے کے ایک گاؤں مبارک پور ،ضلع سہرسہ سے حفظ قرآن مکمل کرنے کے بعد ہاپوڑ،ضلع غازی آباد کے ایک معروف و مقبول مدرسہ جامعہ عربیہ خادم الاسلام سے تجوید قرأت اور ابتدائی فارسی کی تکمیل کی اور دیوبند آگیا۔خادم الاسلام میں مشہور تھا کہ تجوید یعنی تفریح۔عربی درجات والے یہ جملہ کہہ کر تجوید والوں کو چڑھاتے اور تجوید والے’’علم تجوید،تمام علوم سے افضل‘‘کی دُہائی دے کر اپنی فضیلت جتاتے۔درحقیقت مدرسے کے طالب علم کا دماغ تو عربی درجات میں ہی جا کر کھلتا ہے ۔
ایک قصباتی مدرسے سے ڈائریکٹ اللہ تعالیٰ نے مجھے دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم دینی ادارے میں پہنچا دیا تھا۔یہاں کا ماحول میرے لیے اجنبی تو نہیں تاہم نیا ضرور تھا۔اب تک ہوسٹل اور کلاس روم کا فرق مجھے معلوم نہیں تھا،یہاں آکر معلوم ہوا کہ درسگاہیں الگ ہوتی ہیں اور دارالاقامے الگ ۔پھر دارالعلوم ایک عظیم ادارہ بھی تھا ۔یہاں کے شب و روز،رفتار و گفتار،قیام و طعام، پڑھائی، لکھائی کا طرزو انداز،اساتذہ کا رکھ رکھاؤ،طلبہ کی وضعداری،عمارتوں کی کشش،مساجد اور منبرو محراب کی تجلیات۔الگ الگ شعبے ،الگ الگ دفاتر ،غرضیکہ ہر ایک چیز کا ایک نظام ہے اور ایک وقت ہے جس کے دائرے میں رہ کر یہ ادارہ جاری و ساری ہے۔
اس ادارے کے سب سے پہلے طالب علم ؛بقول مولانا محمد سلمان بجنوری : تاریخ دارالعلوم کی سب سے عظیم شخصیت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی،فرمایا کر تے تھے کہ دارالعلوم دیوبند محض لکھائی پڑھائی کے لیے نہیں بنایا گیا بلکہ ایک آفاقی دستور(قرآن و حدیث)کے تحت اپنی زندگی کو منظم کرنا ، ایک عظیم انسان اور ایک اچھا شہری بنانا اس کا اصل ہدف ہے۔چناں چہ یہاں تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ شخصیت سازی کے کئی شعبے ہیں جن سے منسلک ہو کر یہاں کے طلبا اپنے اندر کا فن اجاگر کرتے ہیں اور اس میں نکھار پیداکرتے ہیں ۔اس سلسلے میں زبان و بیان اور قلم و کاغذ کی بڑی اہمیت ہے۔ان ہی دونوں کی تربیت کے لیے دارالعلوم دیوبند میں سینکڑوں صوبائی و ضلعی انجمنیں قائم ہوئیں اور اول روز سے ان انجمنوں کا سفر جاری ہے ،ان انجمنوں کے بڑے دوررس نتائج بر آمد ہو ئے اور ہو رہے ہیں۔
عربی درجات کے ابتدائی دوسالوں میں انجمن میں شرکت پر پابندی رہتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ درسیات کا اتنا بوجھ رہتا ہے کہ طلبا ان میں شرکت کے متحمل نہیں رہتے۔ہاں عا لمیت کے تیسرے سال سے طلبا کی یہ سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں۔پھر طلبا دھیرے دھیرے تقریری پروگراموں میں حصہ لینے لگتے ہیں اورقلم و کاغذسے بھی ان کی آشنائی ہونے لگتی ہے۔اب طلبا اپنی درس گاہ سے نکل کر کل دارالعلوم سطح پر چیزوں سے واقف ہونے لگتے ہیں ۔ بہت سے سینیر طلبا سے بات و ملاقات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔اساتذہ سے بھی قربتیں بڑھتی ہیں اور مختلف النوع علمی و ادبی سرگرمیوں میں ایک طالب علم اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے۔
بندہ بھی کچھ اسی طرح کے مراحل سے گزرکر مختلف چھوٹے بڑے پروگراموں میں حصہ لینے لگا ۔جب اپنی ضلعی انجمن ’’تہذیب البیان‘‘(مونگیر،بیگو سرائے،کھگڑیا)سے وابستہ ہواتومفتی ظفیر الدین مفتاحی مرحوم کے نام سے بھی واقفیت ہوئی کیوں کہ وہ ہماری انجمن کے نگراں تھے ۔مفتی صاحب اپنی پیرانہ سالی کے باوجود انجمن کے پروگرموں میں بطور خاص افتتاحی و اختتامی پروگراموں میں ضرور تشریف لاتے اور اپنی قیمتی نصیحتوں اور مشوروں سے نوازتے ۔آخری بار مفتی صاحب اس انجمن کے اختتامی جلسے میں 15 جمادی الثانی 1429 ھ مطابق 29 مئی2008بروز جمعرات تشریف لائے تھے ۔ طلبا کی اچھی کارکردگی رہی ۔ کامیاب طلبا کو انعامات سے بھی نوازا گیا اور مٹھائیاں بھی تقسیم ہوئیں ۔ پروگرام کے اخیر میں سر پرستِ انجمن حضرت مفتی صاحب کی تقریر و دعا پر جلسے کا اختتام ہوا۔ انتہائی ضعف اور کبر سنی کے با وجود مفتی صاحب کی تقریر میں جوانوں کا سا تیور دکھائی دے رہا تھا ۔ مفتی صاحب نے فرمایا :
’’ دارالعلوم قلب ہے ، یہ ٹھیک رہا تو سارا جسم ٹھیک رہے گا ۔ اسی طرح آپ علما بننے جا رہے ہیں ، آپ ٹھیک رہیں گے تو پوری دنیا ٹھیک رہے گی ورنہ پوری قوم بگڑے گی ۔میں کبھی نا امید یا مایوس نہیں ہوں ، اپنے طلبا سے میں ہمیشہ پر امید رہتا ہوں ۔ مجھے امید ہے کہ تم ترقی کروگے ، آگے بڑھو گے اور بڑھتے ہی جاؤگے ، چمکو گے اور پوری دنیا کو چمکاؤگے ۔ تمہارا مستقبل روشن ہوگا ، تابناک ہوگا لیکن شرط ہے کہ کچھ کرو ۔ بغیر محنت کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ۔
میں تو اب بوڑھا ہو گیا ہوں اور مرنے کے قریب ہوں اس لیے اب اس کی تیاری اور حساب کتاب کی تیاری ہمارا کام رہ گیا ہے۔ خدا اس انجمن کو ہمیشہ قائم رکھے اور اس سے استفادہ کرنے والے بھی ہمیشہ رہیں ۔ ‘‘ پھر مفتی صاحب کو میں ننگے پاؤں ان کی رہائش گاہ تک پہنچا کر آیا ۔
اب مفتی صاحب سے سلام و کلام کا سلسلہ باضابطہ شروع ہو گیا،چند دنوں کے بعدمفتی صاحب کی رہائش گاہ پر بھی میں حاضر ہو نے لگا۔کبھی دارالافتا کی شمالی جانب خالی حصے میں ایک چار پائی پر مفتی صاحب تشریف فرما ہوتے،وہاں ملاقات کا شرف حاصل ہوجاتا۔کبھی مسجد میں نماز کے وقت۔
مفتی صاحب کی سادگی مثالی اور قابل تقلید تھی ۔ان کے لباس و پوشاک اور انداز زندگی سے ان کی شخصیت کی عظمت کو آنکنا بہت مشکل تھا۔وہ انتہائی سادہ لباس و سادہ مزاج تھے۔درازئ عمرکی بنا پر قدرے ٹیڑھے ٹیڑھے سے چلتے تھے ۔ہاتھ میں عصائے پیری،پاؤں میں معمولی جوتے ،کرتا پاجامہ بھی متوسط درجے کا۔آنکھوں پر موٹا چشمہ ،گر میوں میں سر پر دوپلی ٹوپی اور سردیوں میں منکی ٹوپی،معمولی سوئٹر،اوپر سے چادر اور کبھی کسی خاص موقع پر شیروانی زیب تن کر لیتے۔ دیوبند میں اپنی چون سالہ زندگی میں کبھی فیملی کے ساتھ نہیں رہے۔شاید انھیں اپنے بچوں کی تربیت کے پیش نظر ایسا کرنا پڑا تھا ۔وجہ جو بھی ہو۔میرے مشاہدات کے دوران (1999۔2008) مفتی صاحب دارالعلوم کے مطبخ ہی کاعام کھانا کھایا کرتے تھے ۔ہاں ایک خادم کی حیثیت سے کوئی نہ کوئی طالب علم ان کی خدمت میں ضرور رہتا۔میرے زمانے میں میرے ایک ہم نشیں شاکر بانکوی مفتی صاحب کی خدمت کیا کرتے تھے ۔مفتی صاحب کے کمرے،دالان ، بستر اور دالان میں بچھی چار پائی ہر ایک سے مفتی صاحب کی شان بے نیازی کا اظہار ہوتا تھا۔دالان والی چارپائی کو میں نے ہمیشہ کھریری(بے بستر)دیکھا۔
میں نے بہ مشکل ہی مفتی صاحب کو اپنے کمرے میں نماز پڑھتے دیکھا ہوگا۔ہمیشہ وہ اذان ہوتے ہی مسجد قدیم کی پہلی منزل پر اول صف میں حاضر جماعت رہتے ۔دارجدیدکا شمال مشرق کا گوشہ جس نے دیکھا ہوگا وہ زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے ۔وہ اپنی رہائش گاہ سے چار پانچ زینہ اتر کر جنوب کی طرف چلتے ہوئے تفسیر کی درس گاہ سے دفتر تعلیمات اور دفتر دارالاقامہ سے ہوتے ہوئے پھر آٹھ دس سیڑھیوں کو عبور کر کے مسجد پہنچتے ۔ہر نماز میں ان کا یہی معمول ہوتا ۔
مفتی صاحب زیادہ تر خاموش رہتے ۔ عمو ماً بعد عصر ہم لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے ۔ کبھی ان سے کچھ معلوم کرتے تو یا تو وہ بہت مختصر جواب دیتے یا پھر ڈانٹ کر ٹال دیتے۔ لیکن کبھی کبھی خود ہی جوش میں آتے اور کچھ پتے کی بات بتا ڈالتے ۔ ایک بار لیٹے لیٹے اچانک اٹھ بیٹھے اور فرمایا : ’’میاں ! میں علی میاں سے بھی بڑا مصنف ہوتا اگر میرے پاس پیسے ہوتے ‘‘ ۔کبھی فرماتے کہ مجھے اللہ کے فضل سے کوئی بیماری نہیں ہے ۔ بس ایک بیماری ’’بوڑھاپی‘‘ ہے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ دارالعلوم وقف کے معروف استاذ مفتی انوار الحق کا اچانک انتقال ہو گیا ، وہ دربھنگہ کے رہنے والے تھے اور مفتی صاحب کے بیٹے کی عمر کے تھے ۔ ان کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہو کر جب مفتی صاحب اپنی قیام گاہ پرواپس تشریف لائے تو بڑے افسردہ اور بے چین سے نظر آرہے تھے اور بار بار یہ کہتے جاتے کہ نمبر میرا تھا اور وہ بے چارہ چلا گیا ۔
ایک بار اپنے چھوٹے صاحبزادے ڈاکٹر ابوبکر عباد (پروفیسر دہلی یونیورسٹی ،دہلی)کے بارے میں فرمایا کہ جب اس کی فضیلت کو ایک سال رہ گیاتو دارالعلوم دیوبند میں ایک ناخوشگوار سانحہ پیش آیا جس سے میں اور میرے بچے بھی متاثر ہوئے ۔عبادنے یہاں کے نظام سے بددل ہو کر دیوبند چھوڑنے کا ارادہ کر لیا ، مفتی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے اس سے کہا بیٹا اب ایک سال رہ گیا ہے ،کسی طرح اس کو پورا کرلوپھر چلے جانا لیکن وہ کہتا کہ نہیں اب ہم مدرسے میں نہیں پڑھیں گے،یہ مولوی لوگ صرف جھگڑ تے ہیں۔بالآخر بڑی مشکل سے اسی کی شرطوں پر جامعہ رحمانی میں داخلہ کراکے اس کو عا لمیت کی تکمیل کر ائی ۔
مفتی صاحب نے اپنی طالب علمی کا ایک عبرت آموز واقعہ سنایا جب وہ 1942 میں مؤ ( یوپی )میں زیرِ تعلیم تھے کہ’’ میں نے جب انگریزوں کے خلاف دھواں دھار تقریر کی اور پورے شہر مؤ میں کھلبلی مچادی تو میرے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری ہو گیا ، میں ٹھہرا سولہ سترہ سال کا جذباتی نو جوان ،چھپا چھپا پھرتا تھا ،بھوکا پیاسا کبھی اس مسجد میں کبھی اُس مسجد میں، وطن پرستوں نے بجلی کے کھمبے اور ریل کی پٹریوں کو بھی اجاڑ دیا تھا جس کی وجہ سے ترسیل و ابلاغ کے سارے ذرائع بالکل منقطع ہو چکے تھے۔ میرے ابا کہا کرتے تھے کہ اسے تو اس کی تقریر نے مار ڈالا، لیکن جب میں گیارہ دنوں کی سخت جد و جہد کے بعد پیدل زندہ گھر پہنچا تو میرے ابا نے گاؤں بھر کی دعوت کی تھی۔‘‘
طلبا سے انھیں بے حد محبت تھی ، طلبا کی ہمت شکنی کی کوئی بات کردے تو وہ بپھر اٹھتے تھے ۔ ایک مرتبہ دارالعلوم دیوبند کی دارالحدیث میں کوئی بڑا پروگرام ہو رہاتھا ، مولانا اسرالحق قاسمی صاحب تقریر فرما رہے تھے ، بولتے بولتے طلبا کے مستقبل سے مایوسی کا اظہار کر نے لگے ۔ جب مفتی صاحب کے اظہار خیال کا وقت آیا تو انھوں نے سختی سے مولانا اسرالحق قاسمی صاحب ( رکن پارلیامنٹ)کی بات کی تردید کی اور فرمایا کہ مایوسی کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے ، ان کا مستقبل انتہائی روشن و تابناک ہے ۔مفتی صاحب کے دعائیہ خطاب یا خطابی دعا کا بھی اپنا ایک الگ لطف ہوا کرتا تھا ۔
قاری محمد طیب قاسمی ؒ سے ان کا رشتہ اصلاحی تھا اور مفتی صاحب کے دل میں قاری صاحب کی بڑی عظمت تھی ،برابر وہ اس کا ذکر کرتے،اسی توسط سے مولانا سالم قاسمی کی بھی بڑی عزت کرتے تھے ۔
جب مفتی صاحب کے دارالعلوم دیوبند میں پچاس سال مکمل ہو ئے تو ہم’’بزم سجاد‘‘سے منسلک طلبا کا خیال ہوا کہ اس مناسب سے مفتی صاحب کی ذات و صفات پر کوئی سیمینار یا سمپوزیم کا انعقاد ہونا چاہیے۔اس سے قبل خاکسار کو سب سے پہلے دو قسطوں میں’’مفتی ظفیر الدین مفتاحی اور دارالعلوم دیوبند میں ان کے پچاس سال‘‘کے عنوان سے ایک مضمون لکھنے کا شرف حاصل ہوچکا تھا۔اس سلسلے میں اس مضمون کا بھی اہم رول رہا۔بہر کیف مشورے میں یہ طے پایا کہ ایک سیمینار ہوگا۔مختلف اساتذہ اور طلبا سے مفتی صاحب کے مختلف علمی و قلمی جہات پر مضامین لکھوائے جائیں گے ۔بزم سجاد کے تحت تمام ضلعی انجمنوں کے دیواری رسائل کا’’آفتاب فقہ نمبر‘‘ ایک متعینہ دن وتاریخ میں شائع کیا جائے گااور بزم سجاد کے سالانہ تحریری مسابقہ کے دوموضوعات میں ایک عنوان’’مفتی صاحب کی دارالعلوم میں پچاس سالہ خدمات‘‘ہوگا۔
طے شدہ منصوبوں کے مطابق دیواری رسائل کا ’’آفتاب فقہ نمبر‘‘بیک وقت شائع ہوا ۔شاید دارالعلوم کی تاریخ کا یہ پہلا انوکھا قدم تھا کہایک ساتھ ایک شخص پر اتنے سارے رسائل کے خاص نمبر نکلے ہوں ۔مسابقہ بھی اسی موضوع پر ہوا۔سیمینار اپنی اصلی صورت پربرقرار نہ رہ سکا۔توقع کے خلاف مضمون نگاروں کے مضامین بھی نہیں آپائے ،البتہ پروگرام منعقد ہوا ۔مولانا محمد ولی رحمانی صاحب اور ڈاکٹر کلیم احمد عاجز مرحوم بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔اسی پروگرام میں آٹھ نو طلبا نے مفتی صاحب کی شان میں منظوم خراج عقیدت بھی پیش کیا۔ان میں سب سے مقبول و ممتاز سپاس نامہ اس وقت (2005)کے سجاد لائبریری کے صدرمولانا آفتاب غازی کا تخلیق کردہ تھا ۔اس تخلیق کی خوبی یہ تھی کہ ’’مفتی ظفیرالدین مفتاحی‘‘کے ہر ہر حرف سے اس نظم کا مصرع شروع ہوتاہے۔
مفتی صاحب کی محبت میں جملہ احباب کی دل چسپی ،بھاگا دوڑی،شب و روزکی تگ ودو،پروگرام کا انعقاد ،اس کی جملہ سرگرمیاں،مہمانوں کی آمد،عام طلبا کی دیدنی دل چسپیاں،یہ سارے مناظر آج بھی نگاہوں میں پیہم رقص کناں ہیں ۔
میں جب’’ مدنی دارالمطالعہ‘‘ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے کل دارالعلوم مسابقۂ تحریرمیں حصہ لینے کے لیے مضمون لکھ رہا تھاتو یہ میرے لیے پہلا موقع تھا۔بہت ہاتھ پیر مارے،کئی حضرات سے فون پر مشورے لیے،مباحثے کیے،وسعت بھر مطالعہ بھی کیا۔مظفر نگر جا کر اپنے کر م فرمامفتی سعد مشتاق حصیری سے اس کی اصلاح بھی کر ا ئی،بہت سے احباب نے حوصلہ افزائی کی اور کچھ دوستو ں نے ہمت شکنی بھی لیکن میرا اپنا خیال یہ تھا کہ پوزیشن آئے یا نہ آئے اگر میرا قلم مضبوط ہوجاتا ہے تو اسے مجھ سے کون چھین سکتا ہے۔خیر پوزیشن وغیرہ تو نہیں آئی لیکن میرا یہ مضمون میرے قلمی سفر کے لیے میل کا پتھر ثابت ہوا۔پوزیشن حاصل نہ ہونے کا الحمدللہ مجھے کوئی افسوس نہ ہوااور میں نے یہ مضمون ماہنامہ’’دارالعلوم‘‘دیوبند کے حوالے کر دیا۔اللہ کا کرم ایسا ہوا کہ نومبر 2002میں اداریے کے بعد وہ پہلے نمبر پر شائع ہوا۔پھر اسی مضمون کو پاکستان کے تین رسائل،ہفت روزہ’’ختم نبوت‘‘،ماہنامہ ’’الفاروق‘‘اور ’’القاسم‘‘نے اسے شائع کیا۔اس کے بعد میرے اندر لکھنے کا جو حوصلہ پیدا ہوا اس سے میرے شناسا اور احباب واقف ہیں ۔اس مضمون کا عنوان تھا۔’’مذہب اسلام امن عالم کا علمبردار‘‘مضمون تو اپنے علم اور معلومات کے بہ قدر لکھ لیالیکن اس کی تمہید میں ذہن بری طرح الجھ کر رہ گیا تھا،کوئی صورت سوجھ نہیں رہی تھی،بالآخر مفتی صاحب کی کتاب’’اسلام کا نظام امن‘‘سے ایک پورا پیرا گراف لیا اور اسے اپنے مضمون کی پیشانی پر چسپاں کر دیا،پھر تو وہ مضمون مستند ہو گیا،گویا وہ اقتباس نہیں ،سورۃ الفاتحہ ہو۔آج تک میری اس چوری کی نشان دہی کسی نے نہیں کی لیکن آج میں اپنے اس جرم کا اعتراف خود ہی کر تا ہوں اور مفتی صاحب کی روح سے معافی کا طلب گار ہوں۔بفضل الٰہی اس کے بعد سے آج تک میر اقلم اس طرح کی حرکتوں سے محفوظ ہے۔میں نے اس قدر تفصیل اس لیے بگھاری کہ مفتی صاحب کی ذات و صفات اور تصنیفات سے میرے استفادے کی کیفیت کیا تھی ۔
مفتی صاحب کو علامہ سید مناظر احسن گیلانی سے بے انتہا ربط و تعلق تھا۔وہ براہ راست مولانا گیلانی کے شاگرد تو نہ تھے لیکن ملاقات و مراسلت کے ذریعے ایسی قربت پیدا کرلی تھی کہ وہ ایک مخلص و ہمدرد استاذاور ایک ہونہار شاگرد کی صورت میں تبدیل ہو گئی تھی۔مفتی صاحب کی کوئی مجلس اور کوئی علمی گفتگوان کے ذکر کے بغیر ادھوری رہتی ۔بڑے والہانہ انداز میں ان کا ذکر کر تے اور ان کے افکارو خیالات کو بیان کر تے۔ان سے اپنے ربط و تعلق اور افادۂ و استفادے کی روداد بیان کر تے ۔یہی وجہ ہے کہ علامہ گیلانی کی حیات و خدمات پر پہلی سوانحی کتاب’’حیات گیلانی‘‘ان ہی کے قلم سے منظر عام پر آئی اور مطالعۂ گیلانی کے باب میں خشت اول کی حیثیت حاصل کی۔مفتی صاحب نے اپنی آپ بیتی’’زندگی کا علمی سفر‘‘میں بھی جگہ جگہ علامہ کا حوالہ دیا ہے۔ان کے خطوط درج کیے ہیں ۔اپنے قیام دیوبند کو بھی ان کی دعاؤں کا ثمرہ بتاتے ہیں۔’’مناظر گیلانی‘‘(اشعار گیلانی)کا خیال بھی مجھے مفتی صاحب کی اسی کتاب کے مطالعے سے پیدا ہوا تھا۔یہ مجموعہ جب تیار ہو گیاتو مفتی صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔بہت خوش ہوئے ۔میں نے اپنی کتاب کے لیے تبرکاً ا ن سے چندسطروں کی خواہش ظاہر کی تو انھوں نے اسے بخوشی قبول فرمایا ۔مفتی صاحب کی اس تحریر سے چند اقتباسات پیش ہیں :
’ ’ ہندوستان کے مشہور و معروف علمائے کرام میں حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ کا نام نامی بھی آتا ہے ۔مولانا اہلِ علم اور صاحبِ فضل و کمال ہونے کے ساتھ اہلِ دل بھی تھے ۔ علم مولانا کا مستحضر تھا ۔… مولانا کو خاکسار نے بہت قریب سے دیکھا ہے ، مولانا کی زبان سے آپ کے کلام کو سنا ہے ،حضرت مولانا جب کبھی اپنی نظم سناتے تھے تو ایک وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی ، سناتے ہوئے خود بھی روتے تھے اور سننے والوں کی آنکھوں سے بھی آنسو بے ساختہ ٹپکتے جاتے تھے اور ان پر بھی ایک خاص کیفیت چھا جاتی تھی ۔ …اب ایک قاسمی مولانا فاروق اعظم نے آپ کے تمام کلام کو جمع کر دیا ہے اور ظاہر کیا ہے کہ مولانا ایک اچھے مستند شاعر بھی تھے ۔ …مولانا کو مباکباد دیتا ہوں ۔… حضرت موصوف اگر زندہ ہوتے تو خود بھی اسے دیکھ کر خوش ہوتے اور کلام جمع کرنے والے کو خوش آمدید کہتے ۔‘‘ (مناظرِ گیلانی، 2007)
یہ تحریر ’’زادِ راہ‘‘کے عنوان سے میری کتاب کی پیشانی کا جھومر بنا ہوا ہے اور میرے قلمی سفرکے لیے قیمتی سرمایہ بھی۔
مفتی صاحب کے پاس مولانا گیلانی کے بہت سارے خطوط محفوظ تھے ۔ کچھ خطوط انھوں نے شائع بھی کرائے تھے تاہم مولانا گیلانی کے خطوط کو وہ حرزِ جان بناکر رکھتے تھے ۔ بہت اصرار پر مجھے ان کے دو خطوط کی عکسی کاپی مفتی صاحب نے عنایت کی تھی ۔اب وہ میری آنکھوں کا سرمہ ہیں ۔
مفتی صاحب اپنی سادگی اور بے نیازی کے باوجودوقت کے ایک عظیم قلم کار و مصنف تھے،درجنوں وقیع کتابیں ان کے قلم سے نکلیں اور درجنو ں قیمتی مسودے اشاعت کا انتظارکرتے کر تے چند عالم نما بے علم مافیاؤں کے ہتھے چڑھ کر جانے اب کہاں کن صورتوں میں ہوں گے۔ایک صاحب نے مفتی صاحب کی آنکھوں کے سامنے ان کے مسودے کو اپنا سرمۂ بصارت بنا لیا لیکن وہ سرمہ کیا ،ان کے بخت کی سیاہی تھی۔اس طرح کے کارناموں سے سرخ روئی تو نہیں روسیاہی ضرور حاصل ہوتی ہے اور بصارت کے ساتھ بصیرت کی روشنی بھی چھن جاتی ہے۔اللہ رحم فرمائے۔
اس حادثۂ جانکاہ کے بعد مفتی صاحب کے قلم نے ایک طرح کی گوشہ نشینی اختیار کر لی اور مفتی صاحب کے قلم کا یہ بنواس آخری سانس تک جاری رہا۔
مفتی صاحب جتنے بڑے عالم اور قد آورقلم کار تھے،اسی قدر ان کے اندر سادگی،انکساری اور نرمی تھی ۔بادی النظر میں ان کی ذات سے ان کی صفات کااندازہ لگانا بہت دشوار تھا۔
آزادی کے بعد حکومت کے چند لوگ جب ان کے پاس آئے اورمجاہد آزادی کی سہولیات سے نوازنا چاہا تو آپ نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ میں نے جو کچھ کیا تھا وہ مادرِ وطن کی آزادی کے لیے کیا تھا ، کسی انعام و اکرام یا سہولیات کی فراہمی کے لیے نہیں ،لیکن محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اپنے آخری ایام میں انھیں ان مراعات سے انکارکا کسی حد تک افسوس تھا۔
مفتی صاحب نے سترہ سال تک ماہنامہ’’دارالعلوم‘‘کا اداریہ تحریر کیا۔انھیں جب یہ ذمے داری دی جارہی تھی تو اس شرط پر مفتی صاحب نے یہ ذمے داری قبول کی تھی کہ رسالے کے سرورق پر بطور مدیر میرا نام نہیں ہونا چاہیے،لہٰذا ایسا ہی ہوا۔اللہ اکبر!
تری سادگی پے کون نہ مرجائے اے خدا
2008 میں جب مفتی صاحب دارالعلوم دیوبند سے سبکدوش ہوکر ہمیشہ کے لیے رخصت ہو رہے تھے اس وقت میں ان کے پاس تھا۔ مفتی صاحب کی اضطرابی کیفیت کی ترجمانی کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔ وہ ا س قدر بے چین اور بد حواس تھے کہ انھیں کسی چیز کا ہوش نہیں تھا ، جب انھیں سہارا دے کر ان کے قیام گاہ سے نیچے سواری کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو ایسا محسوس ہورہا تھا گویا بہادر شاہ ظفر کو لال قلعے سے رنگون لے جایا جا رہا ہے۔ مفتی صاحب کا قافلہ دیوبند ریلوے اسٹیشن پہنچا ، میں یہاں بھی ہمراہ تھا اس وقت تو ان کی حالت قابلِ ترس تھی ، بچوں کی طرح بلبلا رہے تھے اور آنکھوں سے آنسوؤ ں کا سیلاب جاری تھا ، پورے قافلے پر رقت طاری تھی اور ایسا کیوں ن ہوتا کہ وہ 54 سال گزار کر اس سر زمین کو الوداع کہ رہے تھے ۔ٹرین دہلی کی طرف بڑی تیزی سے دوڑنے لگی اور مفتی صاحب بار بار کھڑکی سے دیوبند کی طرف جھانک رہے تھے ۔
(مضمون نگار نوجوان ادیب اور جے این یو میں ریسرچ اسکالر ہیں)