ممبئی کی عظیم علمی شخصیت حضرت مولانا مفتی مظفر عالم قاسمی کی رحلت ایک بڑا علمی خسارہ

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے ۔

ممبئی : (پریس ریلیز) آفس پہنچا تو فیس بک پر موجود ایک غمناک خبر پر نظر پڑی۔ آجکل اسی خوف سے کم ہی فیس بک دیکھتا ہوں کہ اس پر رنج وغم کی خبریں کچھ زیادہ ہی دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔۔۔آج بھی ایسا ہی ہوا جیسے ہی فیس بک کھلا۔سامنے برادر محترم مولانا نور اللہ جاوید قاسمی کے مختصر پوسٹ پر نگاہ پڑ گئی کہ ،،مشہور عالم دین مفتی مظفر عالم قاسمی طویل علالت کے بعد ممبئی میں انتقال کرگئے ۔۔۔ انا للہ واناالیہ راجعون ۔ نوراللہ جاوید

در اصل حضرت مفتی صاحب مرحوم کے چھوٹے داماد ہیں ۔مگر ہمارا رشتہ حضرت مفتی صاحب سے دو ڈھائی دہائی پرانا ہے۔ آج (۱۴؍جنوری ۲۰۲۴ء) بعد نماز عشاء ممبرا قبرستان میں تدفین عمل میں آئےگی۔

حضرت مفتی مظفر عالم قاسمی کا ممبئی کے مشاہیر و جید عالم دین میں شمار ہوتا تھا۔آپ بہترین خطیب تھے ۔ایک طویل مدت تک آپ نے ناگپاڑہ ممبئی کے قریب ایک بڑی مسجد میں خطابت کے فرائض انجام دیے ۔ان کے وعظ کو لوگ سونے کے لیے دو ر دراز سے بھی اس مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے آتے تھے۔ وہیں ایک اسکول میں آپ تدریسی خدمات انجام ینے کے ساتھ ساتھ تجارت کے پیشہ سے بھی وابستہ رہے ۔۔۔۔ سادگی عجز و انکساری شرافت صداقت کی مثال نیچی جھکی ہوئی نظر مسکراتا مگر سنجیدہ چہرہ اب دیکھنے سے محروم ہوگئے ۔۔۔

۔یہ میرے طالب علمی کا زمانہ تھا۔اس وقت میں ان کی رہائش گاہ سے کچھ ایکاک میل کی دوری پر واقع عروس البلاد ممبئی کی مشہور دینی درسگاہ دارلعلوم امدادیہ (چونا بھٹی محمد علی روڈ ) میں زیر تعلیم تھا۔حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کا اس ادارہ

 سے بھی قدیم رشتہ تھا۔ان کے ہی خاندان کے بزرگ اور بہار کے مشہور عالم دین مولانا مفتی عبد العزیز براروی رحمۃ اللہ علیہ جو مفتی اعظم مہاراشٹر بھی کہلائے نے دارالعلوم امدادیہ کو قائم کیا تھا۔شروع میں یہ مدرسہ بھی مفتی مظفر عالم قاسمی صاحب کے گھر کے بالکل قریب دوٹانکی پر چل رہا تھا بعد میں جب مدرسہ کی شہرت بڑھی اور طلبہ کثیر تعداد میں دارالعلوم امدادیہ آنے لگے تو پھر اسے محمد علی روڈ واقع چونا بھٹی مسجد جو تبلیغی جماعت کا مرکز بھی ہے اسی کے احاطہ میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں پر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں،کیوںکہ بہت کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہوگی کہ ممبئی کی دو تاریخی اور دینی درسگاہ کا قیام مفتی مظفر عالم صاحب ؒ کے خاندان کے فرد کی کاوشوں کے مرہون منت ہے۔ دارالعلوم امدادیہ کے قیام کے کافی برسوں کے بعد میرا روڈ ممبئی میں دارالعلوم عزیزیہ کے نام سے مفتی صاحب کے برادرخررد مولانا قاری مظہر عالم قاسمی ؒ نےایک مدرسہ قائم کیاتھا جو اس وقت ممبئی کے مشہور مدرسوں میں ایک ہے۔گویا ممبئی میں دینی و علمی خدمات میں اس خاندان کے علماء کی قربانیاں و جدوجہد ناقابل فراموش ہیں۔رب ذولجلال قبول فرمائے۔

مفتی مظفر عالم قاسمی اور ممبئی کی ہر مشہور و معروف علمی شخصیات اس ادارہ سے کسی نہ کسی شکل میں وابستہ رہی ہیں۔خود مفتی صاحب کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر منور عالم قاسمی بھی اس ادارہ کے فیض یافتہ ہیں ۔اسی نسبت نے مجھ جیسے بہت سے طلبہ کو اس خاندان سے جوڑے رکھا ۔ڈاکٹر مظفر عالم دیوبند تک ہماری سرپرستی کرتے رہے ہیں جزاک اللہ خیرا ۔

مفتی مظفر عالم قاسمی دارالعلوم دیوبند کے قدیم باصلاحیت فارغین میں تھے۔اور زندگی میں جب تک صحت نے ساتھ دیا اپنے اسلاف کے نقش و قدم پر چلتے ہوئے شریعت مطہرہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور اپنے بچوں کی تربیت بھی اسی انداز میں کی۔آپ نے کبھی بھی اپنے دین و اصول سے سمجھوتہ نہیں کیا ۔پوری زندگی اس کی پاسداری کی یہی وجہ ہے کہ ممبئی میں آپ کی منفرد علمی شخصیت کی حیثیت سے شناخت تھی۔بہار کے ضلع سیتا مڑھی کی قدیم بستی برار جو آپ کا آبائی گاؤں تھا اس کی مسجد میں ایک مدرسہ کی سرپرستی بھی کافی دنوں تک فرمائی اوراسے دور دور تک متعارف کرایا ۔

اس وجہ سے حضرتِ مفتی صاحب کی شخصیت بہار اور ممبئی دونوں جگہوں پر یکساں مقبول و محبوب رہی۔۔۔

میری اس خاندان سے قربت بھی ان کی گاؤں سے محبت کے طفیل تھی۔اصل میں میرے گاؤں ہر پور بیشی اوارئی مظفر پور سے بھی ان کا رشتہ تھا۔آپ کی اہلیہ محترمہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے کا میرے گاؤں میں باضاطہ مانیکا تو نہیں تھا مگر ان کی پرورش و پرداخت اسی گاؤں میں ہوئی تھیں۔ہرپور بیشی کے نامور فرد حاجی نیاز علی ان کے نانا ہوتے تھے ۔ممبی میں حضرت مفتی صاحب سے میری قربت کا راستہ بھی اسی طرح سے نکلا تھا۔میں ہفتہ دس دن میں ان کی اہلیہ محترمہ سے ملاقات کی غرض سے جاتا تھا جو مجھ پر شفقت فرماتی تھیں ۔۔۔بعد میں مشیت ایزدی سےاس گھر سے رشتہ مزید گہراتا چلا گیا۔۔۔

حضرت مفتی صاحب سے علمی استفادہ کا باقاعدہ شرف نہیں حاصل ہوسکا تاہم ان کے پند و نصائح وارشادات سے مستفید ہوتا رہا ہوں ۔

پچھلے کئ سالوں سے ان سے ملاقات سے قاصر رہا اس کی وجہ یہ تھی کہ روزگار نے ممبئی سے دور کردیا اور دلی کو مسکن بنا دیا ۔میں اپنے کھر خاندان کا واحد فرد ہوں جو دہلی میں روزگار سے جڑ ا۔ ورنہ میرے سارے عزیز ممبئی میں ہی اپنا ٹھکانہ بنائے ہوئے ہیں ۔

مگر دہلی میں بھی حضرت مفتی صاحب کی بازگشت سنائی دیتی تھی کیونکہ آپ کے چھوٹے داماد نور اللہ جاوید صاحب ۔کافی سالوں تک ہم لوگ ایک ساتھ رہے۔اس لیے ان کے تذکروں سے ہماری علمی مجلس منور رہی۔۔۔

ابھی گزشتہ سال کے نومبر میں ممبئی جانا ہوا تو آپ کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر منور عالم سے ملاقات ہوئی انہوں نے آپ کی صحت کے تعلق سے کافی کچھ بتایا۔مگر وقت کی کمی کے سبب حضرت مفتی صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی۔حالانکہ دہلی سے ارادہ کر کے گیا تھا مگر وہاں جانے کے بعد مصروفیت نے بالکل باندھے رکھا۔ڈاکٹر منور صاحب سے بھی شب کے دو بجے بائیکلہ ریلوے اسٹیشن پر جاکر ملاقات کی۔ان دنوں ان کی ڈیوٹی وہیں پر ہے۔بہر حال مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات نہ ہونے قلق رہےگا۔

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ان ہے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین، رنج وغم کی اس گھڑی میں ہمارا خاندان ان کے ساتھ ہے ۔۔۔۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com