غزہ میں اسرائیل کا بھاری جانی نقصان، 24 فوجی ہلاک

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے جنوبی غزہ میں واقع خان یونس کے علاقے کو مکمل محاصرے میں لے لیا ہے۔ دوسری جانب حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 25,490 ہو گئی ہے۔اسرائیل کو غزہ میں جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک کے سب سے بھاری جانی نقصان کا اس وقت سامنا کرنا پڑا، جب حماس کے ساتھ لڑائی میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر 24 اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائی کے دوران کسی ایک دن میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد تھی۔

اس واقع کے بعد اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ میں خان یونس کے علاقے کو مکمل محاصرے میں لینے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی فوجی ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے کہا کہ عسکریت پسندوں نے ایک ٹینک پر راکٹ سے حملہ کیا، جو ان اسرائیلی فوجیوں کے قریب کھڑا تھا، جو دو عمارتوں کو منہدم کرنے کے لیے دھماکہ خیز مواد تیار کر رہے تھے۔ ترجمان کے مطابق عین اسی وقت اس دو منزلہ عمارت میں ایک دھماکہ ہوا، جس سے عمارت اسرائیلی فوجیوں پر گر گئی۔

ہگاری نے آج منگل کی صبح ایک پریس بریفنگ میں بتایا، ”ہم ابھی تک واقعے کی تفصیلات اور دھماکے کی وجوہات کا مطالعہ اور تحقیقات کر رہے ہیں۔” اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے فوجیوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے عہد کیا کہ وہ حماس کے خلاف ”حتمی فتح” تک اپنی جارحانہ کارروائی جاری رکھیں گے۔

انہوں نے غزہ میں یرغمال بنائے گئے 100 سے زائد یرغمالیوں کی واپسی کا وعدہ بھی کیا ۔ لیکن اسرائیلی اس سوال پر تیزی سے تقسیم ہو رہے ہیں کہ کیا وزیر اعظم کے لیے ان دونوں میں سے ایک کام کرنا ممکن ہے، اور بڑی تعداد میں اسرائیلی ہلاکتوں نے نیتن یاہو حکومت پر غزہ میں فوجی کارروائیوں کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔ دوسری جانب غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 25,490 ہو گئی ہے، جبکہ 63 ہزار سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

امریکہ اور برطانیہ کے حوثی باغیوں پر تازہ حملے

امریکہ اور برطانیہ نے یمن میں حوثی باغیوں کے اہداف کے خلاف مشترکہ حملے کیے ہیں۔ دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا مقصد حوثی عسکریت پسندوں کی بحیرہ احمر میں جہاز رانی پر حملہ کرنے کی صلاحیت کو کم کرنا تھا۔ حوثی میزائلوں کے ذخیرہ کرنے والے مقامات اور لانچروں کو نشانہ بنانے کے لیے جنگی جہازوں اور آبدوزوں کے ساتھ ساتھ لڑاکا طیاروں سے میزائل داغے گئے۔

حالیہ ہفتوں کے دوران یہ دوسرا موقع تھا، جب برطانیہ نے یمن کے خلاف حملے شروع کرنے میں امریکہ کا ساتھ دیا ہے۔ حوثیوں کے زیر کنٹرول میڈیا کا کہنا ہے کہ حملوں میں دارالحکومت صنعا اور کئی دوسرے صوبوں کو نشانہ بنایا گیا۔ غزہ میں اسرائیل کے فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد سے ایران کے حمایت یافتہ باغی حوثی گروپ نے بارہا تجارتی جہازوں پر حملے کیے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان جہازوں کا تعلق اسرائیل کے ساتھ ہے۔ پینٹاگون نے ایک مشترکہ بیان میں کہا، ”ان حملوں کا مقصد حوثیوں کی عالمی تجارت اور بحری جہازوں کے معصوم عملے کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے لیے استعمال کی جانے والی صلاحیتوں میں خلل ڈالنا اور ان میں کمی لانا ہے۔”

یہ ایران کے حمایت یافتہ باغی گروپ کے خلاف امریکہ کی طرف سے کیے گئے حملوں کا آٹھواں دور اور برطانیہ کے ساتھ دوسرا مشترکہ آپریشن تھا۔برطانیہ کے وزیر دفاع گرانٹ شیپس نے کہا کہ اس کارروائی سے حوثیوں کے” محدود اسلحے کے ذخیرے اور عالمی تجارت کو خطرہ بنانے کی صلاحیت کو ایک اور دھچکا لگا۔” امریکہ نے کہا کہ آسٹریلیا، بحرین، کینیڈا اور ہالینڈ نے تازہ ترین فوجی کارروائی کی حمایت کی۔ گزشتہ ماہ کے دوران کیے گئے متعدد حملے اب تک بحیرہ احمر میں جہاز رانی کے خلاف حوثیوں کے حملوں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com