مولانا محمود احمد خاں دریابادی
آج کے پُر آشوب دور میں امت مسلمہ جس ابتلاء وآزمائش سے گزر رہی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، افسوس ہوتا ہے کہ ایسے ہولناک حالات میں بھی کچھ احمق عوامی طور پر آپسی اختلافات کو ابھارتے ہیں، کہیں تقریریں ہورہی ہے جن میں کھلے عام کسی مسلک کی تکفیر و تفسیق کی جارہی ہے، آج ہی ناسک کا ایک ویڈیو دیکھاجس میں کچھ لفنگے ایک شخص کو گھیر کر زبردستی ایک مسلکی نعرہ لگانے پر مجبور کررہے ہیں، ……. یہی کام تو ہندوتوا وادی بھی کرتے ہیں آخر اُن میں اور ہم میں کیا فرق رہ گیا؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام کلمہ گو اپنے اپنے مسلک و مذہب پر عمل کرتے، کسی دوسرے کی دل آزاری نہ کرتے اور ملی وملکی معاملات میں سب ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوجاتے ـ ہمارے نادانوں کی ایسی ہی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے حکومت کو حوصلہ ملتا ہے کہ ہمارے ساتھ کھل کر ناانصافی کرے، بلا کسی وجہ کے ہمارے علماء و خواص کو گرفتار کرے، ہمارے مکانوں پر بلڈوزر چلائے، لاٹھیوں اور گولیوں سے ہمارے جوانوں کو موت کے گھاٹ اتارے ۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو حکومت کی ہمت نہیں تھی کہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے مفتی سلمان ازہری کو گرفتار کرتی، پولیس تھانے کے اندر مہاراشٹرا کے کئی سابق وزیر، کئی بڑے وکلاء، اور کئی نامور سماجی کارکنان تھے، تھانے کے باہر سینکڑوں افراد کا مجمع تھا، بہت دیر تک بحث ومباحثہ ہوا مگر گجرات پولیس ٹس سے مس نہ ہوئی، تھانے کے اندر موجود نمائندہ افراد کو یقین دلایا کہ ہم بس ابھی مجسٹریٹ کے سامنے حاضر کرکے فورا چھوڑ دیں گے، خواص اور خود مفتی سلمان کا استعمال کرکے عوام کو بھی گھر جانے کے لئے مجبور کیا گیا جو لوگ نہیں جارہے تھے اُن کے لئے لاٹھیوں کا استعمال ہوا، ……. نتیجہ یہ نکلا کہ رات ہی میں مجسٹریٹ کے یہاں حاضری ہوئی اور رات ہی میں وہاں موجود اُن کے متعلقین کو بتائے بغیر درجنوں پولیس گاڑیوں کے ساتھ مفتی سلمان کو لے کر انتہائی تیزی سے روانہ ہوگئے،وہاں موجود حامیوں کو اُس وقت تک روک کر رکھا گیا جب تک پولیس کویہ یقین نہیں ہوگیا کہ اب یہ لوگ سلمان صاحب تک نہیں پہونچ سکیں گے ـ بعد میں پتہ چلا کہ پولیس اُنھیں گجرات لے گئی ہے ـ
دیکھا جائے تو مفتی سلمان نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا جس کی وجہ سے اتنا بڑا ایکشن لینا پڑا، اس سے کہیں زیادہ ٹی راجہ اور مہاراشٹرا کے ایم ایل اے نتیش رانے آج کل بول رہے ہیں، اس سے پہلے بھی نہ جانے کتنے لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف بدزبانی کی ہے، پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر مسلمانوں کو گالی دینے والا آج بھی پارلیمنٹ کا ممبر ہے ۔ ……… مسلمان چونکہ کمزور اور منتشر ہے اس لئے ایسے حالات کا سامنا کررہا ہے، ضرورت ہے کہ تمام مسلکوں کے ذمہ دار اپنے لونڈے لپاڑیوں کو سمجائیں، اگر نہ سمجھیں تو کھل کر ایسے عناصر سے بیزاری کا اظہار کریں، ان کے بائیکاٹ کا اعلان کریں ۔
جب مجھے معلوم ہوا کہ مفتی سلمان صاحب کو گجرات کی ایک تقریر کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا ہے، میں نے تقریر کا وہ حصہ بھی سنا جس پر اعتراض ہوا تھا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ گرفتاری بالکل غلط اور انصاف کے خلاف ہے، نیز یہ گرفتاری محض مسلمانوں کا مورال ڈاؤن کرنے اور اُن کے اندر خوف کا احساس پیدا کرنے کے لئے کی جارہی ہے، ……… چنانچہ حراست کی اطلاع کے بعد ہی سے میں اس کوشش میں تھا کہ کسی طرح مفتی سلمان یا اُن کے کسی قریبی کا فون نمبر مل جاتا تو ان سے بات کرکے اظہار یکجہتی کرتا اور حسب خواہش اپنے تعاون کا یقین دلاتا ـ آج معلوم ہوا کہ بڑی مسجد مدنپورہ کے امام مفتی زبیر مفتاحی صاحب اُن کے بھائی ہیں، مفتی زبیر صاحب نستعلیق شخصیت ہیں، میری اچھی واقفیت ہے، ہمارے ساتھ حکومت مہاراشٹرا کی قاضی کمیٹی کے رکن ہیں، اُن کو میں نے فون کیا اور حالات معلوم کئے اور اُنھیں یقین دلایا کہ آپ لوگ تنہا نہیں ہیں، ہر مرحلے پر ہمارا تعاون آپ حضرات کے ساتھ رہے گا، قانونی لڑائی ہو، حکومتی ذمہ داران سے ملاقات ہو یا عوامی جدو جہد ہر موقع پر آپ ہمیں اپنے ساتھ کھڑا پائیں گے۔
یاد رکھئے ایسی کارروائیوں کا منشاء محض ایک فرد یا ایک مسلک نہیں کو نشانہ بنانا نہیں ہے بلکہ پوری مسلم قوم نشانے پر ہے، اس لئے اپنے آپسی مسائل کو سڑکوں پر مت لائیے، حالات پر نظر رکھئے اور ملت کے کسی بھی حلقے پر ہونےوالے ظلم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیے ورنہ …….. ؎
میں آج زد پہ ہوں تم خوش گمان مت ہونا
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں