سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز کی تقرری سے متعلق نئے قانون کے عمل پر روک لگانے سے آج انکار کر دیا۔ اس فیصلے کو مرکزی حکومت کے لیے راحت بھرا تصور کیا جا رہا ہے۔ دراصل نئے قانون کے تحت وزیر اعظم کی صدارت والا پینل چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز کی تقرری کرے گا اور اس پینل میں چیف جسٹس آف انڈیا کو شامل نہیں کیا جائے گا۔
#SupremeCourt issues notice in PIL challenging constitutional validity of Chief Election Commissioner and Other Election Commissioners Act, 2023
As per the PIL, the Act allows Executive to dominate the matter of appointment of #ElectionCommission members, threatening democracy pic.twitter.com/Ae4rcNo3Og
— Live Law (@LiveLawIndia) February 13, 2024
چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز کی تقرری سے متعلق نئے قانون کے خلاف عدالت میں اپنی بات رکھ رہے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ لوک سبھا انتخاب قریب ہے، اس لیے فی الحال اس پر عبوری روک لگائی جانی چاہیے، لیکن عدالت نے ان کی درخواست کو درکنار کر دیا۔ جسٹس سنجیو کھنہ کی ڈویژنل بنچ میں معاملے کی سماعت کے دوران پرشانت بھوشن نے اس بات پر زور دیا کہ لوک سبھا انتخاب قریب ہے اور یہ قانون غیر جانبدارانہ انتخاب کی راہ میں رخنہ بن سکتا ہے۔ اس پر جسٹس نے مداخلت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی حد جانتے ہیں۔ جب پارلیمنٹ کے ذریعہ کسی قانون کو بنایا جاتا ہے تو اس پر عبوری روک لگانے کا کیا مطلب ہوتا ہے، یہ ہمیں پتہ ہے۔ اس لیے فی الحال ہم کوئی روک نہیں لگائیں گے۔
واضح رہے کہ نئے قانون کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز کی تقرری صدر جمہوریہ کے ذریعہ ایک سلیکشن کمیٹی کی سفارش پر کی جائے گی۔ وزیر اعظم اس کمیٹی کے صدر ہوں گے۔ اس کے دیگر اراکین میں لوک سبھا کے حزب مخالف لیڈر اور وزیر اعظم کے ذریعہ نامزد مرکزی کابینہ کے ایک وزیر ہوں گے۔ پرشانت بھوشن کی دلیل تھی کہ الیکشن کمشنرز کی تقرری والے پینل سے چیف جسٹس آف انڈیا کو ہٹا کر سپریم کورٹ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ حالانکہ بنچ نے ان کی درخواست کو ناقابل قبول مانا۔






