شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
نبی کے معنی سچی خبر دینے کے ہیں،اسی لئے ہر نبی نے انسانیت کو عالم آخرت کی سچی خبروں سے مطلع کیا ہے، جنت و دوزخ کے بارے میں بتایا ہے، جزاء وسزا کے خدائی نظام سے واقف کرایا ہے اور بعض ان دیکھی مخلوقات جیسے فرشتوں کے بارے میں بھی مطلع کیا ہے، سچی خبروں کی دوسری جہت مستقبل کی پیشن گوئیوں سے متعلق ہے، اللہ تعالی کی ذات ازل سے ابد تک پیش آنے والے تمام واقعات کا خالق ہے اور انبیاء کرام اس کائنات ارضی میں اس کے قاصد وسفیر ہیں، اس لئے اللہ تعالی کی طرف سے حاصل ہونے والی مستقبل کی بعض معلومات کو وہ انسانیت کے سامنے پیش کرتے ہیں، ان میں بعض پیشن گوئیاں تو بطور معجزہ کے ہوتی ہیں، جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ بدر سے پہلے ایک ایک حملہ آور مشرک کے بارے میں بتا دیا تھا کہ جنگ میں کون کہاں قتل کیا جائے گا؟ اور یہ پیشن گوئی بعینہ پوری ہوئی، اور بعض پیشن گوئیاں تنبیہ اور انذار کے طورپر ہوتی ہیں، جس میں عمل کی دعوت بھی ہوتی ہے، جیسے امام مہدی کا ظہور، دجال کا خروج، حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول، مشرق کی بجائے مغرب کی طرف سے سورج کا طلوع وغیرہ۔
اسی دوسری طرح کی پیشن گوئیوںمیں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کے مختلف علاقوں میں اسلامی فتوحات کی طر ف اشارہ بھی فرمایا، جیسے روم، قسطنطنیہ، ایران وغیرہ، ایسے ہی پیشن گوئیوں میں ایک ہندوستان کی فتح اور یہاں اسلام کی اشاعت بھی ہے، اس سلسلہ میں چند روایتیں نقل کی گئی ہیں، جن میں بعض تو محدثین کے نزدیک معتبر نہیں ہیں اور بعض کسی حد تک درجہ اعتبار کو پہنچتی ہیں، یہ واقعہ کب ظہور میں آئے گا ؟ متعین طور پر حدیث میںیہ بات نہیں بتائی گئی ہے، بعض روایتوںمیں ہے کہ جب دجال ظاہر ہوگا تو بیت المقدس کا ایک حکمران ہندوستان کو فوج بھیجے گا (اخرجہ نعیم بن حماد فی الفتن، حدیث نمبر:۴۱۲۱)، اوربعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ عہد صحابہ یااس کے قریب ہوگی؛ کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ تمنا کرتے تھے کہ ان کو اس میں شہادت حاصل ہوجائے، اس روایت کوحدیث کی دو مستند کتابوں میں نقل کیاگیا ہے(مسند احمد۲؍۹۲۲، سنن نسائی، حدیث نمبر:۳۷۱۳، ۴۷۱۳، باب غزوۃ الہند)، اگرچہ یہ روایت ضعیف ہے؛ لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ارشاد نبوی کے اولین مخاطب سمجھتے تھے کہ یہ واقعہ قریبی وقت میں پیش آنے والا ہے۔
اس دور کے بعد قریب ترین وقت میں ہندوستان کے حکمرانوں سے عرب حکمرانوں کی معرکہ آرائی کا جو واقعہ پیش آیا، وہ وہی ہے جو محمد بن قاسم کے ذریعہ سند ھ کی فتح کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اور اسی نسبت سے سندھ کو ’’باب الاسلام ‘‘کہا جاتا ہے،محمد بن قاسم کا تعلق طائف کے قبیلہ بنوثقف سے تھا، جو بنی امیہ کے حکمرانوں میں ظلم و جبر میں مشہور تھا، یہاں تک کہ حضرت حسن بصریؒ فرماتے تھے کہ تمام امتوں کے ظلم کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور حجاج کے ظلم کو دوسرے پلڑے میں تو حجاج والا پلڑا جھک جائے گا؛ لیکن اس نے زندگی میںبعض اچھے کام بھی انجام دیئے، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے چچازاد بھائی اور داماد محمد بن قاسم کو فارس کے اس وقت کے دارالحکومت ’شیراز‘ کا گورنر بنادیا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کو صرف پندرہ سال کی عمر میں کردوں کی بغاوت فروکرنے کے لئے ۸۰۷ء میں سپہ سالاری کی ذمہ داری سونپی گئی اور انہوں نے حیران کن کامیابی حاصل کی، چنانچہ جب سندھ کے بعض راجاؤں سے معرکہ کے لئے انہیں سندھ کی مہم کا ذمہ دار بنایا گیا، اس وقت ان کی عمر ۷۱ سال تھی ، ۱۱۷ء سے ۳۱۷ء تک انہوں نے اپنی مہم جاری رکھی اور سندھ کے اکثر علاقے یہاں تک کہ ’’ملتان ‘‘ (جو اس وقت سندھ کا حصہ تھا) تک کو فتح کرلیا ، چار سال سندھ میں رہ کر وہاں کے نظم و نسق کو درست کیا اور انصاف پر مبنی حکومت قائم کی۔
سندھ کی مہم کیوں پیش آئی؟ اس سے بھی واقف ہونا ضروری ہے، تاکہ معلوم ہو کہ کیا یہ کوئی ظالمانہ واقعہ تھا؟ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کئی اسباب پیش آئے، اس وقت سندھ پر راجہ داہر کی حکومت تھی، مکران مسلمانوں کے قبضہ میں تھا، ۳۰۷ء میں کچھ لوگوں نے مکران کے گورنر سعید بن اسلم کو قتل کردیا اور راجہ داہر کی پناہ حاصل کرلی، -حجاج بن یوسف جو عراق کا گورنر تھا- نے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا، داہر نے صاف انکا ر کردیا، دوسرے:لنکا کے راجہ نے حجاج کو کچھ بیش قیمت تحائف بھیجے جو کشتی سے آرہے تھے، اس کشتی میں کچھ عرب مسلمان عورتیں بھی تھیں، یہ ساحل کے ساتھ ساتھ آرہے تھے، دیبل جو موجودہ کراچی کے قریب واقع تھا میں سمندری ڈاکوؤں نے اس قافلہ کولوٹ لیا، یہ علاقہ داہر کے زیر قبضہ تھا، کچھ لوگ بچ کر حجاج کے پاس پہنچے اور اس نے راجہ داہر سے لڑکیوں کی رہائی اور سامان کی واپسی کا مطالبہ کیا، مگر داہر نے اس پر توجہ نہیں دی اور یہ بہانہ کرکے مدد سے انکار کردیا کہ میرا ان پر کوئی اختیار نہیں ہے۔
تیسری بات یہ پیش آئی کہ راجہ داہر سے پہلے یہاں چندر اور چچ حکمراں رہے جو بدھ دھرم کے ماننے والے تھے، مگر راجہ داہر شدت پسند ہندو تھا، اس نے بودھوں پر بڑے مظالم ڈھائے، اس کا حال یہ تھا کہ اس کے خاندان کے علاوہ کسی کو پگڑی باندھنے کی اجازت نہیں تھی، رعایا کو گھوڑے پر سواری کرنے کی ممانعت تھی، اخلاقی حالت یہ تھی کہ اس نے اپنی سگی بہن کو نکاح میں لے لیا تھا، عوام اس کے ظلم سے عاجز تھی؛ اس لئے سندھ کے مظلوم عوام کے ایک وفد نے بھی حجاج بن یوسف سے راجہ داہر کی شکایت کی اور سندھ پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔
چنانچہ حجاج نے سندھ پر حملہ کرنے کی اجازت دے دی، اس نے ایک فوجی لشکر عبید اللہ کی قیادت میں بھیجا ،وہ شہید ہوگئے، پھر تین ہزار پر مشتمل ایک دوسرا فوجی دستہ بدیل کی قیادت میں بھیجا، اس نے بھی شکست کھائی، اب اس کی نظر انتخاب محمد بن قاسم پر پڑی اور اس مہم کے لئے بارہ ہزار مجاہدین جس میں چھ ہزار شامی اور چھ ہزار عراقی فوجی تھے اور اس لشکر کے ساتھ پتھر برسانے والی ایک منجنیق جس کا نام ’’عروس‘‘ تھا بھیجا، پھرمقامی مظلوم عوام بھی اس میں شریک ہوگئے، یہاں تک کہ یہ فوج دیبل کی بندرگاہ پر پہنچی تو اس کی تعداد اٹھارہ ہزار ہوچکی تھی، دیبل فتح ہوگیا اور داہر اپنی فوج کے ساتھ آگے بھاگتا گیا، اس کے ساتھ دس ہزار سوار اور تیس ہزار پیدل سپاہی تھے اور اسے اپنے ہاتھیوں کے دستے پر بہت ناز تھا، محمد بن قاسم نے آگے بڑھکر برہمن آباد، پھر اروڑ کو فتح کیا ، یہاں تک کہ ملتان جو اس وقت سندھ کا مرکز تھا اور یہاں بڑے بڑے بت خانے تھے، وہ بھی فتح ہوگیا، محمد بن قاسم نے راجہ داہر کے قائم کئے ہوئے اونچ نیچ کے ہندوانہ نظام کو ختم کیا، سب کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک کیا، ہندو عبادت گاہوں اور پجاریوں کو عطایا دیئے، مقامی عوام اس کی رحم دلی سے بہت متاثر ہوئی، مورخین نے بیان کیا ہے کہ جب محمد بن قاسم سندھ سے واپس روانہ ہوئے تو وہاں کے غیر مسلم عوام رو رہے تھے اور لوگوں کے تاثر کا حال یہ تھا کہ موجودہ ’’کچھ‘‘ جس کا نام اس وقت ’’کیرچ‘‘ تھا میں اسکی مورتی بنا کر عرصہ دراز تک اس کی پوجا کی گئی۔
بظاہر یہی وہ معرکہ ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشین گوئی میں’’ غزوہ ہند ‘‘ کہا گیا ہے، یہی سندھ و ہند کی پہلی فوج کشی تھی، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت جس علاقہ کو ہم بھارت کہتے ہیں اس وقت کا ہند اس سے بہت مختلف تھا؛ بلکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے جب آریہ اس ملک میں آئے تو انہوں نے اس خط کا نام ’’سندھ‘‘رکھا؛کیونکہ وہ اپنی زبان میں دریا کو ’’سندھو‘‘ کہتے تھے، ابتداء ًوہ اس ملک کو سندھو کہتے رہے، مگر آہستہ آہستہ وہ اسے سندھ کہنے لگے، ایرانیوں نے اپنے لہجے میں سندھ کو ’’ہند‘‘ کر ڈالا اور یونانیوں نے ’’ھ‘‘کو اس کے قریب المخرج حرف ہمزہ سے بدل کر ’’اند‘‘کردیا، رومن میں یہ لفظ ’’اند‘‘سے ’’اندیا‘‘ ہوگیا، اور انگریزی زبان میں چونکہ ’’دال‘‘ نہیں؛اس لئے وہ ’’انڈیا‘‘ بن گیا (تاریخ سندھ؛ ۴۲، تالیف:اعجاز الحق قدوسی، طبع لاہور،۶۷۹۱ء) وہ ’’ہند‘‘موجودہ پاکستان کا علاقہ تھا، دریائے سندھ کے ایک طرف کا علاقہ سندھ اور دوسری طرف کا ہند کہلاتا تھا؛ لہذا حدیث میں جس ہند کا ذکر آیا ہے وہ موجودہ ہندوستان نہیں ہے، جس میں اس وقت ہم لوگ رہتے ہیں، اور جس کی راجدھانی دہلی ہے، بلکہ یہ علاقہ اس وقت پاکستان کی شکل میں موجود ہے، جہاں صدیوں سے مسلمان آباد ہیں اور جہاں ایسی ہندو آبادی نہیں ہے، جس کو زیر کرنے کے لئے کسی فوجی کاروائی کی ضرورت ہو اور نہ اس خطہ میں ہندو راجاؤں کی حکومت ہے۔
غرض کہ غزوہ ہند کی پیشن گوئی بعض روایات میں آئی ہے اور ان میں بعض ایک حد تک درجہ اعتبار کو پہنچی ہوئی ہیں؛ لیکن یہ غزوہ ہندوستان میں ہوچکا ہے؛ اس لئے جو لوگ اس پیشین گوئی کو اس انداز پر پیش کر رہے ہیں کہ مسلمان ہندوستان پر حملہ کرنے والے ہیں ،وہ خلاف واقعہ ہے اور یہ صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے اور اس نفرت سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے، غزوہ ہند وہی فوج کشی تھی جو سندھ کو فتح کرنے کے لئے کی گئی تھی ،نیزیہ فوج کشی پوری طرح مبنی برانصاف تھی اور مظلوم عوام کو نجات دلانے کے لئے تھی۔
غزوہ ہند کا تو اس قدر شور کیا جارہا ہے ؛ لیکن برادران وطن کی کتابوں میں کورووں اور پانڈووں کی جنگ سوائے خاندانی برتری کی لڑائی کے اور کیا تھی اورہندو مذہبی کتابوں کے بیان کے مطابق اس میں مارے جانے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ دنیا کی موجودہ آبادی سے بھی بڑھی ہوئی تھی، پھر ان کتابوں میں ذات پات کی بنیاد پر اونچ نیچ کا جو تصور پیش کیاگیا ہے اور جس پر ہندو سماج عمل کرتا رہا ہے،نیز عورتوں کے بارے میں جو حقارت آمیز باتیں لکھی گئی ہیں، کاش میڈیا والے اس کو بھی موضو ع بحث بناتے، جوموجودہ ہندوستان کا اصل مسئلہ ہے اور جس کا نتیجہ ہے کہ ملک کا صدر جمہوریہ بھی بعض مندروں میں داخل نہیں ہوسکتا ہے ، اس کا تعلق اسی خود ساختہ طبقاتی نظام سے ہے، اصل بحث اس موضوع پر ہونی چاہئے۔