سہیل انجم
جوں جوں پارلیمانی انتخابات قریب آ رہے ہیں، حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے خلاف کارروائیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ کارروائیاں کئی قسم کی ہیں۔ خاص طور پر کانگریس کے رہنماؤں کو توڑ کر بی جے پی میں شامل کروانا اور کانگریس اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف ای ڈی اور سی بی آئی کی جانچ کا دائرہ بڑھانا قابل ذکر ہے۔ اب تو ایسے ایسے لوگوں کو بھی بی جے پی میں شامل کیا جا رہا ہے جو اب تک کی پوری سیاسی زندگی میں بی جے پی کو گالیاں دیتے رہے ہیں۔ اسے بی جے کی اعلیٰ کمان کی بے شرمی و بے غیرتی قرار دیا جا رہا ہے کہ جن لیڈروں کی گالیاں کھائی جاتی رہی ہیں ان کو اپنے پالے میں لا کر نہ صرف ان کی عزت افزائی کی جا رہی ہے بلکہ ان میں سے بعض کو الیکشن لڑنے کا ٹکٹ بھی دیا جا رہا ہے۔
خیر اس حکومت نے سیاسی غیرت کا جنازہ تو پہلے ہی نکال دیا تھا اب اس نے اس کو ایک ادارہ جاتی شکل دے دی ہے۔ لیکن اس سے بھی تشویش ناک بات یہ ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے اور اپوزیشن پارٹیوں کے بینک اکاؤنٹ منجمد کیے جا رہے ہیں۔ محکمہ انکم ٹیکس نے کانگریس کو 3567 کروڑ روپے کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کروڑوں کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اب سی پی ایم کا بینک اکاؤنٹ بھی منجمد کر دیا گیا ہے۔ اگلا نمبر کس کا ہے کہا نہیں جا سکتا۔ گویا ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں الیکشن ہی نہ لڑ سکیں۔
جب اس معاملے پر کانگریس کی جانب سے سخت اعتراض کیا گیا اور یہ پوچھا گیا کہ جن بنیادوں پر اس کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں انہی بنیادوں پر بی جے پی کو کیوں نہیں جاری کیے گئے تو انکم ٹیکس محکمے نے کہہ دیا کہ جولائی تک کانگریس سے ٹیکس جمع کرنے کو نہیں کہا جائے گا اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ دراصل اگر انکم ٹیکس محکمہ اس پر اصرار کرتا تو وہ بی جے پی کے معاملے میں نرمی برتنے کے سلسلے میں پھنس سکتا تھا۔ اسی لیے اس نے فی الحال کانگریس کے خلاف کارروائی کو روک دیا۔ لیکن اس نے بی جے پی کے بنک اکاؤنٹس کے سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا یا کوئی رائے نہیں دی۔
ادھر جھارکھنڈ کے وزیر اعلی ہیمنت سورین کے بعد دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو گرفتار کر لیا گیا۔ سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا ایک سال سے جیل میں ہیں ہی۔ سابق وزیر صحت ستیندر جین بھی جیل میں ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ کو بھی جیل بھیج دیا گیا تھا۔ وہ تو عدالت نے چھ ماہ کے بعد ان کی ضمانت منظور کر لی۔ عدالت نے اس سلسلے میں ای ڈی کی زبردست سرزنش کی اور سوال پوچھا کہ جب ان لیڈروں کے خلاف ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ملا ہے تو پھر انھیں کیوں جیل میں رکھا جا رہا ہے۔ لیکن بہرحال عدالت کو بھی دیکھنا چاہیے کہ جب ثبوت نہیں مل رہے ہیں تو پھر ضمانت کیوں نہ دی جائے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ پی ایم ایل اے قانون کو حکومت نے اتنا سخت بنا دیا ہے کہ اس میں گرفتار کیے جانے والے شخص کی جلد ضمانت نہیں ہو سکتی۔
ان واقعات کی روشنی میں اب یہ سوال زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ کیا عام انتخابات صاف ستھرے اور غیر جانبدارانہ ہوں گے۔ یہ سوال صرف ہندوستان کے اندر ہی نہیں پوچھا جا رہا ہے بلکہ بیرون ملک میں بھی پوچھا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے نے اشاروں کنایوں میں انتخابات کے صاف شفاف نہ ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ اروند کیجریوال کی گرفتاری کے بعد اقوام متحدہ نے کہا کہ اسے امید ہے کہ بھارت میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اینٹونیو گوتریز کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے ایک بیان میں کہا کہ ہم یہ امید کرتے ہیں کہ جس طرح دنیا کے دیگر ملکوں میں صاف ستھرے اور آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں اسی طرح بھارت میں بھی ہوں گے۔ سیاسی اور سول کارکنوں سمیت سب کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور ہر شخص کو آزادانہ ماحول میں ووٹ ڈالنے کا موقع ملے گا۔
دوجارک سے ایک روز قبل امریکہ نے بھی ا س امید کا اظہار کیا تھا کہ ہندوستان میں آزادانہ انتخابات ہوں گے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھو ملر نے کیجریوال کی گرفتاری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ہمیں اس کا علم ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں کانگریس کے اس الزام کا بھی علم ہے کہ اس کے بینک اکاؤنٹ کو منجمد کر دیا گیا ہے اور اسے انکم ٹیکس محکمے کا نوٹس ملا ہے۔ حالانکہ ہندوستان نے ان بیانات کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بیانات غیر ضروری ہیں۔ جبکہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ ہندوستان کوکثیر رکنی تنظیموں کی جانب سے ہندوستان میں صاف ستھرے انتخابات سے متعلق بیانات کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں کے عوام انتخابات کو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ بنائیں گے۔ ہمیں اس کی امید ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جو حالات پیدا کیے جا رہے ہیں ان میں اس بات کی گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوں گے۔ اگر سیاسی پارٹیوں کو الیکشن لڑنے کے لیے سازگار ماحول فراہم نہ کیا جائے۔ سب کو اپنی انتخابی مہم چلانے کے یکساں مواقع نہ ملیں۔ خود تو ہزاروں کروڑ روپے کا چندہ کیا جائے اور دوسری پارٹیوں کے اکاؤنٹ مختلف بہانوں سے منجمد کیے جائیں اور بی جے پی لیڈروں کے خلاف کارروائی نہ کرتے ہوئے صرف اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کارروائی کی جائے تو پھر آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
اتر پردیش کے سابقہ اسمبلی انتخابات کے دوران کس طرح غیر بی جے پی ووٹروں کو ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا خاص طور پر رامپور میں مسلم ووٹروں کو مختلف بہانوں سے ڈرا دھمکا کر بھگایا گیا اور دوسرے مقامات پر بھی غیر بی جے پی ووٹروں پر ڈنڈے برسائے گئے تو پھر کیسے یقین کیا جائے کہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوں گے۔ اگر یہ بات یقینی ہوتی تو نہ تو اقوام متحدہ کو بیان دینا پڑتا اور نہ ہی امریکہ اور جرمنی کو۔ اس سے قبل بھی بعض حلقوں میں دبنگ امیدواروں کی جانب سے ووٹوں میں دھاندلی کی جاتی رہی ہے۔ لیکن حکومت کی سطح پر دھاندلی نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن اب حکومتی سطح پر ایسے حالات بنائے جا رہے ہیں کہ اپوزیشن پارٹیاں انتخابی مہم نہ چلا سکیں اور غیر بی جے پی ووٹروں میں اتنا خوف و ہراس پیدا کر دیا جائے کہ وہ ووٹ دینے ہی نہ آئیں اور اگر آئیں بھی تو انھیں بھگا دیا جائے۔ الیکشن کمیشن کی ڈیوٹی ہے کہ وہ صاف ستھرے انتخابات کرائے لیکن جس طرح کمیشن پر حکومت کی بالادستی ہے اس کے پیش نظر اس سے کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔