جانشین امام اہل سنت مناظر اسلام نائب صدر جمعیۃ ، رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند و ندوۃ العلماء امیر تحریک مدح صحابہ حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ اور ملت اسلامیہ ہندیہ کا ناقابل تلافی نقصان ہے!

دوحہ: (رپورٹ : شمس الرحمٰن صدیقی) غم کے اس موقع پر دوحہ قطر میں 27 اپریل 2024 بمطابق 18 شوال المکرم 1445 کو تعزیتی نشست کا اہتمام مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمٰن صدیقی ندوی کے گھر پر ہوا جہاں قطر کی تمام اہم تنظمیوں کے ذمہ دار اور سرکردہ افراد نے شرکت کی اور مولانا سے اپنے گہرے تعلق کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ گزرے قیمتی اور یاد گار لمحات کو حاضرین کے سامنے بیان کیا

نشست کی نظامت کے فرائض مولانا شہویز قاسمی نے بخوبی ادا کیے انہوں نے مولانا کا مختصر اور جامع تعارف پیش کرتے ہوئے تمام شرکاء کا استقبال کیا اسکے بعد ایک چھوٹے سے بچے محمد جاسم کی تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوا ۔ بعد ازاں مولانا نور محمد نے ہدیہ نعت پیش کیا۔ اس کے بعد مولانا عبدالعلیم فاروقی رحمہ اللہ کے داماد مفتی ارتضاء الحسن صاحب جو قطر ہی میں مقیم ہیں لیکن فی الوقت لکھنؤ جنازہ میں شرکت کے لیے گئے ہوئے ہیں انہوں نے وہاں سے اپنا تعزیتی پیغام ارسال کیا جسے مولانا کے قطر اسفار مسلسل ساتھ رھنے والے اور کئی بار میزبانی کرنے والے مولانا عبدالواحد راجستھانی نے پڑھ کر سنایا مفتی ارتضاء الحسن نے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا کہ مولانا فاروقی نے اپنے لیے جس میدان کا انتخاب کیا وہ بہت کٹھن میدان تھا جہاں پھولوں سے استقبال کم اور مخالفتوں سے زیادہ ہوتا ہے خاردار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے مولانا نے مدح صحابہ کو اپنا میدان بنایا اور اپنے والد اور دادا کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے تحفظ ناموس صحابہ کے میدان کو مضبوط کیا اور اس میدان میں تاریخی خدمات سر انجام دیں مولانا نے سر پر کفن باندھ کر ملک کے طول و عرض کے ساتھ ساتھ ملک و بیرون ملک اسفار کیے اور عظمت صحابہ اور تحفظ ختم نبوت کے اہم ترین موضوعات پر دروس دیے تقریریں کیں کتابیں لکھیں اور عامۃ المسلمین کے عقائد ونظریات کی درستگی کے لیے اور مضبوطی کے ساتھ ان نظریات پر کار بند رکھنے کے لیے کوششیں کیں مولانا کی پوری زندگی جہد مسلسل عمل پیہم کا نمونہ تھی ۔

مفتی ارتضاء الحسن کے بعد فضلائے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی قطری یونٹ کے ذمہ دار اور یہاں کی مرکزی شخصیات میں سے ایک مولانا شیخ حفیظ الرحمن صاحب کی طرف سے قاضی حسین احمد صاحب نے مولانا کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا کی زندگی مختلف جہتوں میں ہمارے لیے مشعل راہ ہے مولانا ایک طویل عرصے تک پاکستان کا سفر کرتے رہے جہاں ان کو امام اہل سنت کے شاگرد مناظر اسلام مولانا عبد الستار تونسوی رحمہ اللہ بلایا کرتے تھے اور ملک کے مختلف علاقوں میں ان کے دروس منعقد ہوتے تھے جہاں بڑے بڑے علماء استفادہ کرتے تھے مولانا کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے ملک میں بھی موجود ہے مولانا نے جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فام سے بھی قوم کی خدمت کی اور یہ ان کی زندگی کا روشن باب ہے میں اپنی اور تمام فضلائے وفاق قطر کی طرف سے تعزیت پیش کرتا ہوں ۔

دوحہ کی معروف ومتحرک اور بزرگ شخصیت مولانا طلحہ صاحب حفظہ اللہ نے اپنے تعزیتی کلمات پیش کرتے ہوئے مولانا کی شفقتوں کا ذکر کیا 2003 میں جب سے مولانا کا یہاں سفر شروع ہوا اس وقت سے اب تک انکے ساتھ مولانا کا گہرا تعلق تھا اکثر وہ خود قطر فون کرکے کہتے کہ بات کرلیا کرو خیر خیریت لیتے رہا کرو انہوں نے مزید فرمایا کہ مولانا کیسے اپنے چھوٹوں کو بڑا بناتے تھے اور کیسے انکے ساتھ پیش آتے تھے یہ ان کا وصف خاص تھا۔ مولانا طلحہ نے مزید بتایا کہ احقر نے ان کو اپنے چھوٹے سے گاؤں ککروری اعظم گڑھ میں مدعو کیا مولانا بے تکلف میری بیٹی کے نکاح میں تشریف لائے اور ایک مختصر تقریر فرمائی یہ مولانا کے اخلاص کی دلیل ہے مولانا کی یادیں اتنی ہیں کہ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں بس دعاء کرتا ہوں کہ اللہ مولانا کی مغفرت فرمائے درجات بلند فرمائے ۔

مولانا کے بعد اس نشست کے کلیدی خطاب کے لیے مشہور و معروف شاعر مولانا ندیم ماہر قاسمی صاحب کو دعوت دی گئی یاد رہے مولانا ندیم ماہر ہی مولانا عبدالعلیم فاروقی کو پہلی بار قطر بلانے والے اور میزبانی کرنے والے شخص ہیں مولانا ندیم ماہر نے مولانا کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم اسی مجلس میں مولانا کے ساتھ شریک ہوتے تھے آج ان کی یاد میں شریک ہیں اور چند اشعار سناکر اپنی بات شروع کی :

ایک عجب سوگ ہے اور غم ہے جہاں پر ہم ہیں

ہم ہیں محزون بھی مغموم بھی اور افسردہ بھی

اک جلو ہوگا صحابہ کا جہاں وہ ہوں گے

رحمت فخر دوعالم کی معیت ہوگی

 قدسی انفاس کی ایک بھیڑ وہاں پر ہوگی

وہ جہاں پر ہیں وہاں جشن کا ساماں ہوگا

 مولانا کی شخصیت پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے تحریک مدح صحابہ کے متعلق قدرے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح یہ تحریک شروع ہوئی اور حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی نے فتویٰ صادر فرمایا حضرت شیخ الاسلام کی موجود گی میں جلسہ عام منعقد ہوا جہاں یہ فتویٰ پڑھ کر سنایا گیا کہ لکھنؤ کی سرمزین پر اہل سنت کو مدح صحابہ کی تحریک سے جڑنا فرض ہے ان کے جلوس میں شریک ہونا لازم ہے اور جب مولانا عبدالعلیم فاروقی صاحب نے 19 سال کی عمر میں اکابر کی موجودگی میں دارالمبلغلین میں پہلی تقریر فرمائی تو وہ اتنی جوشیلی اور دلائل سے بھرپور تھی کہ اس کی گرج باطل کے ایوانوں اور آج تک لوگوں کے ذہنوں میں ہے ۔ مولانا دارالعلوم دیوبند مظاہر العلوم سہارنپور ندوہ اور لکھنؤ کی تہذیبوں کے عطر مجموعہ تھے مولانا سے اپنے تعلقات کا اظہار کرتے ہوئے مولانا ندیم ماہر آبدیدہ ہوگئے اور ان کے پہلی بار قطر آنے کا عجیب واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ کس طرح بالکل غیر متوقع مولانا کی قطر آمد ہوئ تھی اور اسکے بعد سے یہ سلسلہ شروع ہوا تو انتقال سے چند ماہ پہلے تک جاری رہا مولانا دسمبر میں قطر سے واپس تشریف لے گئے اور یہ ان کا بیرون ملک کا آخری سفر ثابت ہوا مولانا ماہر اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے اور دعائیہ کلمات پر اپنی گفتگو ختم کی۔

 بعد ازاں ناظم جلسہ نے مولانا قاری احمداللہ صاحب کو تعزیتی کلام پیش کرنے کے لیے دعوت دی قاری احمد اللہ نے اپنی مسحور کن آواز میں مولانا پر لکھا گیا اپنا مرثیہ کلام پڑھا جس سے محفل کافی مغموم ہوگئی ۔

 اس تعزیتی مجلس کے میزبان مشہور و معروف ادبی شخصیت ابنائے ندوہ کے سرپرست مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمٰن صدیقی ندوی نے آخری خطاب کیا جس میں مولانا نے اس دور کا ذکر کیا جس وقت وہ ندوہ میں زیر تعلیم تھے یعنی 1971 سے 1981 کے ادوار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مولانا نے جب تحریک مدح صحابہ کی قیادت سنبھالی اس وقت لکھنؤ میں شیعہ سنی فسادات کا زور تھا پہلا چلینج تھا کہ شیعوں کا جلوس دارالمبلغلین کے سامنے سے گزرتا تھا جو فساد کا سبب بنتا تھا مولانا نے بڑی حکمت کے ساتھ انتظامیہ کے ساتھ مل کر اسکا روٹ تبدیل کروایا جس کے سبب فسادات کا سلسلہ تھم گیا

دوسرا بڑا کارنامہ یہ انجام دیا کہ جو امام اہلسنت نے محرم الحرام میں دس روزہ اجلاس مدح صحابہ کا سلسلہ شروع کیا تھا اسکو جاری کیا اور ہر محرم الحرام میں پورے ملک سے بڑے بڑے علماء کو لکھنؤ بلاتے اور عظمت صحابہ کے عنوانات پر تقریریں ہوتیں جسکے سبب لکھنؤ اور گرد و نواح کے تمام مسلمانوں کے عقائد ونظریات میں پختگی پیدا ہوتی گویا کہ یہ دس روزہ اجلاس پورے علاقے کے اہل سنت کے لیے سال بھر کی بیداری کے لیے کافی ہوتے یہ سلسلہ 103 سال سے تقریبا مسلسل جاری ہے اور لوگ اس قدر شوق اور جذبہ سے اس میں شریک ہوتے ہیں کہ مولانا نے خود ایک بار بتایا کہ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی کہنے لگے 50 سال سے ان اجلاسوں میں شریک ہو رہا ہوں اور ایک ہی جگہ بیٹھتا ہوں یہ عامۃ المسلمین کے لگاؤ اور دلچسپی کی دلیل ہے۔

تیسرا بڑا کام مدح صحابہ کا جلوس جسے اہل تشیع نے بند کروادیا تھا اس کو دوبارہ شروع کرایا اور اسکے لیے بہت کوششیں کیں بڑی حکمت عملی کے ساتھ یہ جلوس شروع ہوا اور آج تک بڑے تزک و احتشام کے ساتھ نکل رہا ہے یہ جلوس لکھنؤ کے اہل سنت میں نئی روح پھونکنے کے مترادف ہے اس جلوس کی اپنی افادیت ہے جسے لکھنؤ میں رہنے والے ہی زیادہ سمجھ سکتے ہیں یہ جلوس اہل سنت لکھنؤ کی زندگی کی ضمانت ہے ان کی بیداری کا ثبوت ہے مولانا پر اپنے تاثرات کے بیان کے دوران رقت طاری رہی مولانا نے تمام شرکاء کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور اللہ سے نعم البدل کی دعاء پر اپنی گفتگو ختم فرمائی ۔

آخر میں مولانا عبدالعلیم فاروقی صاحب پر ایک عمدہ نظم اسکرین پر چلائی گئی جسکے بعد مجلس مولانا طلحہ صاحب کی دعاء پر ختم ہوئی

اس تعزیتی نشست میں شریک ہونے والوں میں مختلف ممالک کے سرکردہ اور اہم ترین علماء شامل ہیں جس میں ایرانی سنی علماء کے معتمد و ذمہ دار مولانا شیخ مصطفیٰ صاحب بانی مرکز عبد اللہ ابن مسعود

مولانا شیخ حفیظ الرحمن صاحب امام و خطیب وازرت الاوقاف مرکزی ذمہ دار فضلاء وفاق المدارس العربیہ پاکستان (قطر)

 و سرپرست رابطہ مابین الأئمہ رفقاء قطر

بلوچی علماء کے معتمد

مولانا شیخ غلام حسن صاحب

انجمن محبان اردو ہند قطر کے صدر اور صدر بزم علیگ مولانا ندیم ماہر قاسمی علیگ

ابنائے ندوہ کے ذمہ دار مولانا اسلم عزیز ندوی

امام الائمہ مولانا طلحہ صاحب، امام و خطیب وزارة الاوقاف

مرکز عبداللہ بن زید آل محمود کے مرکزی مبلغ مولانا شیخ بدرالھدی قاسمی صاحب، امام و خطیب وزارة الاوقاف

مرکزی ذمہ دار فضلائے محبان دارالعلوم انکے علاوہ بڑی تعداد میں علماء و ائمہ کرام شریک ہوئے

اس تعزیتی مجلس کی مکمل ویڈیوز اس یوٹیوب اور فیس بک چینل پر موجود ہیں جسے آپ

AL WAHID CHANNEL

سرچ کرکے دیکھ سکتے ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com