پرجول ’جنسی اسکینڈل‘ سے اٹھتے سوال سہیل انجم

سہیل انجم

اس وقت ملکی سیاست میں تہلکہ مچا ہوا ہے۔ جنتا دل (ایس) اور بی جے پی شدید تنقیدوں کی زد پر ہیں۔ اس کی وجہ ایک ایسا واقعہ ہے جسے دنیا کا سب سے بڑا جنسی اسکینڈل کہا جا رہا ہے۔ قارئین ذرا سوچیے کہ اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ ایک شخص نے، جو کہ رکن پارلیمنٹ ہے جو ایک سابق وزیر اعظم کا پوتا اور ایک سابق وزیر اعلیٰ کا بھتیجہ ہے، کم عمر بچیوں سے لے کر معمر خواتین تک کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا ہے اور اس کی ان کرتوتوں کی تین ہزار ویڈیوز پبلک میں وائرل ہیں تو آپ پر کیا گزرے گی۔ آپ پر جو بھی گزرے لیکن یہ کوئی فلمی کہانی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی ایک سچائی بلکہ کڑوی سچائی ہے۔ حالانکہ یہ ابھی الزامات ہیں اور جب تک ان کی غیرجانبدارانہ اور ایماندارانہ جانچ نہ ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن بہرحال دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ ہوتی ہے۔ اس ایم پی کا نام پرجّول ریونّا ہے۔ وہ سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کا پوتا اور کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمارا سوامی کا بھتیجہ ہے۔ وہ کرناٹک میں ہاسن لوک سبھا حلقے سے جے ڈی ایس کا ایم پی ہے اور اس الیکشن میں امیدوار بھی ہے۔ ریاست کی سدھار میا حکومت نے اس اسکینڈل کی جانچ کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے اور جس روز ایس آئی ٹی کی تشکیل کا اعلان کیا گیا اس کے اگلے روز پرجول جرمنی فرار ہو گیا ہے۔ کمارا سوامی نے اس واقعے سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ حالانکہ جے ڈی ایس اور بی جے پی کی جانب سے ان ویڈیوز کو فرضی یا فیک بتایا جا رہا ہے لیکن وہ اتنی بڑی تعدادمیں ہیں کہ انھیں کوئی بھی شخص فیک تسلیم نہیں کر پائے گا۔ پرجول کے والد اور دیوے گوڑا کے بڑے بیٹے ایچ ڈی ریونا نے کہا ہے کہ یہ ویڈیوز پانچ سال پرانی ہیں۔ واضح رہے کہ جو ویڈیوز وائرل ہیں وہ 2019 سے 2023 کے درمیان بنگلور میں پرجول کے گھر میں خود اسی کے ہاتھوں شوٹ کی گئی ہیں۔ کرناٹک میں اس اسکینڈل سے متعلق ہزاروں پین ڈرائیو مختلف مقامات پر پائے گئے ہیں۔ پرجول ریونا کی مبینہ جنسی ہوس کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں وہ انتہائی چونکانے والی ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق متاثرین میں خود اس کے گھر کی 63 سالہ خادمہ بھی شامل ہے جس نے خود کو بخش دینے کی دست بستہ درخواست کی جسے سنی ان سنی کر دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ متاثرین میں ایک پولیس افسر، ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، چار پانچ میڈیا اینکرس، سیاست داں اور پنچایت ممبران تک شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جو لوگ بھی اس سے کوئی کام کرانے آتے تھے ان کا بھی جنسی استحصال ہوتا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ جنسی اسکینڈل اچانک سامنے آگیا ہے بلکہ اس سلسلے میں بہت پہلے سے افواہیں تھیں۔ سب سے پہلے پرجول ریونّا نے ہی اس معاملے کو اٹھایا تھا۔ اس نے گزشتہ سال جون میں عدالت سے ایک انجکشن آرڈر حاصل کیا کہ چونکہ وہ ایک باوقار سیاسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور وہ ایک سیاست داں ہیں لہٰذا ان ویڈیوز کو نہ تو نیوز چینلوں پر دکھایا جائے اور نہ ہی اخباروں میں چھاپا جائے کیونکہ بقول اس کے یہ سب فرضی ویڈیوز ہیں اور اسے بدنام کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ پولیس نے وائرل ویڈیوز پر پہلے کوئی کارروائی نہیں کی لیکن جب ایک متاثرہ خاتون نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی تب پولیس نے مقدمہ درج کیا اور حکومت نے ایس آئی ٹی بنائی۔

اس جنسی اسکینڈل نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور ان سوالات کے گھیرے میں بی جے پی، جے ڈی ایس، کانگریس اور میڈیا سبھی آگئے ہیں۔ یاد رہے کہ ابھی کچھ دنوں قبل ہبلی میں کانگریس کے ایک کارپوریٹر کی بیٹی کے اس کے پرانے مسلم شناسا کے ہاتھوں قتل کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ بی جے پی نے اس پر خوب ہنگامہ کیا اور اسے لو جہاد قرار دیا۔ خود وزیر اعظم مودی نے اپنی کئی ریلیوں میں اس کا ذکر کیا۔ اس سے قبل مغربی بنگال کے سندیش کھالی میں ہونے والے عصمت دری کے واقعہ کو بھی بی جے پی نے خوب اچھالا تھا۔ جہاں تک پرجول اسکینڈل کا معاملہ ہے تو بی جے پی کے رہنماؤں کو پہلے سے ہی اس کے بارے میں معلوم تھا اور بتایا جاتا ہے کہ اس نے پرجول کو امیدوار نہ بنانے کی بات کہی تھی۔ لیکن جب دیوے گوڑا نے کہا کہ اس سیٹ پر کامیابی ملے گی تو بی جے پی چپ ہو گئی۔ حالانکہ جے ڈی ایس سے انتخابی اتحاد سے قبل بھی اس نے یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ لیکن اتحاد کے بعد خاموش رہی اور یہاں تک کہ وزیر اعظم مودی نے اس کے لیے ووٹ بھی مانگے تھے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر خدا نخواستہ جے ڈی ایس نے اپوزیشن کے اتحاد ’انڈیا‘ سے معاہدہ کیا ہوتا تو اب تک وزیر اعظم سمیت بی جے پی کے دیگر تمام لیڈر آسمان سر پر اٹھا چکے ہوتے اور وزیر اعظم یہاں تک کہہ چکے ہوتے کہ دیکھو کانگریس کی نظر ماؤں بہنوں کے منگل سوتر پر ہی نہیں ہے بلکہ ان کی عزت و ناموس پر بھی ہے۔ لیکن چونکہ اب جے ڈی ایس بی جے پی کی حلیف پارٹی ہے لہٰذا کوئی خطرہ نہیں۔ سوال کانگریس کے اوپر بھی ہے۔ وہ جے ڈی ایس کے ساتھ مل کر حکومت چلا چکی ہے۔ کیا اسے پرجول کی کرتوتوں کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ سدھا رمیا کی حکومت کیوں خاموش تھی۔ اس نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔ پولیس نے بھی ویڈیوز وائرل ہونے پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔ کیوں اس نے اس وقت کارروائی کی جب ایک متاثرہ نے رپورٹ درج کرائی۔ پولیس پر سوال یہ بھی ہے کہ اس نے پرجول کو ملک سے فرار ہونے کی اجازت کیوں دی۔ اس کے خلاف لُک آؤٹ نوٹس کیوں نہیں جاری کیا۔ پرینکا گاندھی کا الزام ہے کہ پرجول بی جے پی کی مرضی سے فرار ہوا ہے۔ میڈیا پر بھی سوال ہے کہ اس نے اس معاملے کی رپورٹنگ کیوں نہیں کی۔ اس سلسلے کی ویڈیوز تو پہلے سے ہی وائرل تھیں اور انجکشن آرڈر گزشتہ سال جون میں حاصل کیا گیا، اس سے پہلے اس نے اس معاملے کو کیوں نہیں اٹھایا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ جب یہ حرکتیں پانچ سال سے جاری تھیں تو کسی خاتون نے اس سے قبل اپنی زبان کیوں نہیں کھولی؟ اس بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ پرجول نے 2019 میں ہاسن لوک سبھا حلقے سے الیکشن جیتا تھا۔ ہاسن 1960 سے ہی دیوے گوڑاخاندان کا سیاسی گڑھ ہے۔ دیوے گوڑا سابق وزیر اعظم ہیں۔ ان کے بیٹے کمارا سوامی وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ پرجول کے والد ایم ایل اے ہیں، ریاست میں وزیر رہے ہیں اور اپنے حلقے میں غریبوں کے مسیحا سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے میں کوئی عورت کس طرح اپنی زبان کھولتی۔ لیکن یہ انکشاف کیسے ہوا؟ یہ ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ایک شخص چودہ سال سے پرجول کا ڈرائیور تھا۔ اس نے تیرہ ایکڑ زمین خریدی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس زمین پر دیوے گوڑا خاندان کی نظر پڑ گئی اور اس نے اسے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ڈرائیور نے انکار کر دیا۔ بنگلور کی ایک سماجی کارکن بانو مشتاق نے ایک یو ٹیوب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اس تنازع کے بعد ڈرائیور نے پرجول کی نوکری چھوڑ دی۔ اس کے بعد اس کی بیوی کو اغوا کر لیا گیا اور اسے اس قدر زدو کوب کیا گیا کہ اس کا حمل ضائع ہو گیا۔لیکن نوکری چھوڑنے سے قبل اس نے پرجول کے موبائل سے تمام ویڈیوز کو اپنے موبائل میں ڈاؤن لوڈ کر لیا اور پھر انھیں پین ڈرائیو میں سیو کرکے جگہ جگہ پھیلا دیا گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ تمام ویڈیوز ایک ساتھ عام کی گئیں بلکہ جستہ جستہ کی گئیں۔ بانو ممتاز کے مطابق جس نے ایک پین ڈرائیو دیکھا اس نے سیکڑوں کو فارورڈ کر دیا۔ لیکن اس واقعے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ متاثرین کی عزت خاک میں مل گئی۔ جب تک ویڈیوز عام نہیں ہوئی تھیں پردہ پڑا ہوا تھا۔ لیکن ذرا سوچیے کہ متاثرہ خواتین کے اہل خانہ نے جب ان ویڈیوز کو دیکھا ہوگا تو ان پر کیا گزری ہوگی۔ یہ جو کچھ سامنے آیا ہے وہ ہندوستانی سیاست اور بااثر سیاسی خاندانوں کا بھیانک چہرہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ کیا ہمارا معاشرہ ایسے بوالہوسوں سے نجات پا سکتا ہے؟

موبائل: 9818195929

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com