مدارس کا نیا تعلیمی سال

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

(نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ)

ہندوستان کے مدارس اسلامیہ میں رمضان المبارک کی تعطیل کے بعد نئے داخلے کی کارروائی مکمل ہو گئی ہے، اور نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوگیا ہے ، اساتذہ نئے حوصلے اور جذبے کے ساتھ تدریس میں لگ گئے ہیں اور طلبہ نے بھی اپنے کامیاب مستقبل کے لیے جد وجہد اور محنت کی راہ اپنائی ہے ۔

 مدارس اسلامیہ دینیہ کی اہمیت کو غیروں نے زیادہ سمجھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ امت مسلمہ میں اسلامی اقدار اور اسلامی تہذیب وثقافت کی سپلائی یہیں سے ہوتی ہے ، اسی لیے وہ ہمارے مدارس کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلاتے رہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کے ذہن سے اس کی اہمیت و افادیت نکال دی جائے اور سماج کو باور کرادیا جائے کہ یہ ادارے از کار رفتہ اورآؤٹ آف ڈیٹ (Out of Dait) ہو چکے ہیں، ان میں اساسی اور بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، بد قسمتی سے ہمارے دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہو گیا ہے، اور وہ تعلیم سے متعلق ہر سمینار ، سمپوزیم اور مجلسی گفتگو میں ٹیپ کے بند کی طرح اسے دہراتا رہتا ہے؛ حالانکہ ہمارے مدارس اسلامیہ نے ماضی سے لیکر تا حال ملک وملت کی جو خدمت انجام دی ہیں، اس کی نظیر کسی اور قسم کے تعلیمی اداروں میں مشکل سے مل پائے گی، ہمارے اساتذہ نے اس تعلیمی نظام کو’’ اجرت‘‘ کے بجائے ’’اجر خدا وندی‘‘ کے حصول کے جذبہ سے پروان چڑھایا ،اپنی زندگیاں کھپادیں ، دنیا وی آسائش اور حصولیابیوں کی طرف سے منہ پھیر لیا ، مقصد رضائے الٰہی کا حصول تھا، یہ مقصد کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔

ہمارے مدارس کے طلبہ نے بھی اپنے اساتذہ کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کیا ، وہ خوب جانتے ہیں کہ یہاں مادی منفعت کے مواقع کم ہیں، سرکاری مراعات کا گذر نہیں ہے ،اور جہاں گذر ہواہے وہاں کار طفلاں تمام ہوتا جارہا ہے ،اور رشوت کی گرم بازاری نے ان اقدار سے انہیں منحرف کردیا ہے، جو ہمارے مدارس کا طرہ امتیاز رہا ہے ، میں یہاں بات آزاد مدارس کی کر رہا ہوں ، ملحقہ مدارس کی نہیں، ملحقہ مدارس میں بھی جن مدارس نے عزم کر لیا ہے کہ ہم بزرگوں کے نقش قدم پر چلیں گے، ا ن کے یہاں اس مادی نظام کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے ، البتہ ایسے مدارس انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور ان کی ہمارے دل میں بڑی وقعت اور قدروقیمت ہے ۔

بات مدارس کے تعلیمی سال سے شروع ہو ئی تھی ، آگے نکلتی چلی گئی ، کہنا یہ تھا کہ نئے تعلیمی سال کو مزید معیاری اور تربیت کے اعتبار سے مزید مثالی بنانے کے لیے ہمیں اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ ، طلبہ اور انتظامیہ کی نیتوں میں خلوص ہو ، کیونکہ ہمارے اعمال کی کیاری کو سر سبز و شاداب اور سدا بہار رکھنے میں اخلاص کے چشمۂ صافی سے ہی توانائی ملتی ہے ، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒفرمایا کرتے تھے کہ خلوص وللہیت کے جذبے سے جو کام کیا جاتا ہے اس میں اللہ کی نصرت ضرور آتی ہے ، اعمال کا مدار نیتوں پر ہی ہے ۔

مدارس اسلامیہ اصلاً قرآن کریم اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے لئے ہیں، بقیہ علوم وفنون انہیں دونوں نصوص کی افہام وتفہیم کے طور پر پڑھا ئے جاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ان دونوں چیزوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے، یقیناً قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے پڑھانے کا مزاج بڑھا ہے ،لیکن اب بھی بہت سارے گاؤں اور دیہات ایسے ہیں ، جہاں اس معاملے میں کافی کمی پائی جاتی ہے کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ قرب وجوار کے ان گاؤں کی بھی فکر کریں ، جو بنیادی دینی تعلیم سے آج بھی دور ہیں، اس پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہمارے وسائل اس کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم چند ایسے گاؤں کو گود لے لیں، جو اب تک بنیادی دینی تعلیم سے محروم اور بے بہرہ ہیں، اس کی وجہ سے مدرسہ کو ہر قسم کا فائدہ پہونچے گا ۔

حضرت مولانا ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی مدرسہ مالی بحران کا شکوہ کرتا ہے تو مجھے معاً خیال آتا ہے کہ وہاں قرآن کریم کی تعلیم صحت کے ساتھ نہیں ہو رہی ہے، وہ فرماتے تھے کہ نا ممکن ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم پر توجہ دی جائے اور ادارہ مالی بحران میں مبتلا ہو ، اس لیے کہ اللہ بڑا غیور ہے ، اس کی غیرت کس طرح گوارہ کر سکتی ہے کہ اس کے کلام پاک کا حق ادا کیا جائے اور حق ادا کرنے والے پریشان حال ہوں۔

معیاری تعلیم کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ جو کچھ پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے اس کے اچھے ہونے کا اعتماد ہو، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں اچھا وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے، اس لیے اساتذہ اور طلبہ سب کو اعتماد ہونا چاہئے کہ ہم جن کاموں میں لگے ہیں وہ دنیا کا اچھا کام ہے ، اس احساس کے نتیجے میں ہمیں نفسیاتی طور پر اطمینان نصیب ہوگا اورہم اپنی تعلیم تہذیب و ثقافت کے قدر داں ہوں گے اور دوسری تہذیبیں ہمیں متاثر نہیں کر سکیں گی ۔

 عموماً دیکھا جاتا ہے کہ طلبہ جب مدرسہ سے گھرکا رخ کرتے ہیں یا فارغ ہوکر دوسرے اداروں میں داخلہ لیتے ہیں تو ان کی وضع قطع بدل جاتی ہے، چہرے سے داڑھی تک غائب ہو جاتی ہے۔ وضع قطع اس طرح مغربی ہوجاتی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کبھی انہوں نے مدرسہ میں پڑھا ہے، یہ ہماری تربیت کی کمی ہے ، ہم نے دوران تعلیم طالب علم کے ذہن میں اپنے تہذیبی سرمایہ اور ثقافت وکلچر کی اہمیت نہیں بتائی ، وہ دوسری تہذیبوں سے متاثر ہوتے رہے اور ذرا سا ماحول بدلا تو سب کچھ بدلتا چلا گیا ، ہمیں خصوصیت سے تربیت کے اس اہم نکتہ پر توجہ مبذول رکھنی چاہیے تاکہ ہمارا سرمایہ ضائع نہ ہو۔

 حضرت مولانا الیاس صاحب ؒ ، فرمایا کرتے تھے کہ اپنی کھیتی میں کچھ نہ پیدا ہو یہ افسوس کی بات ہے ، لیکن اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ پیداوار ہماری ہو اور وہ دوسروں کے کام آئے۔

تعلیم کو معیاری بنانے کے لئے اساتذہ وطلبہ دونوں کے لیے مطالعہ کی پابندی ناگزیر ہے، اساتذہ متعلقہ کتابوں کا مطالعہ کرکے درس گاہ میں جائیں، بلکہ جدید طریقۂ تعلیم کے مطابق نقشۂ تدریس یعنی لیسن پلان رات کو ہی مرتب کرلیں ، اس سے تدریس کے کام میں سہولت بھی ہوگی اور تدریس کا حق بھی پورے طور پر ادا کرنا ممکن ہو گا، لیسن پلان کی وجہ سے ہم اپنے سوالات مرتب کر سکیں گے ، لڑکوں کی سابقہ معلومات کو سامنے رکھ کر ان کی معلومات میں تدریجاً اضافہ کرنا ہمارے لیے ممکن ہوسکے گا ، اور طلبہ بھی اساتذہ کے غیر ضروری سوالات سے بچ کر مورد عتاب نہیں ہوں گے ۔

معیاری تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے طلبہ کا ایک نشانہ اور ٹارگیٹ ہو کہ ہمیں اور مضامین میں تو کامیاب ہونا ہے،لیکن فلاں مضمون میں مہارت پیدا کرنی ہے، یہ دور اختصاص کا ہے ، اس کے بغیر دنیا میں کوئی قیمت نہیں لگتی اور عام طالب علموں کو ترقی کے مواقع نہیں ملتے؛ اس لیے کسی ایک فن میں اختصاص کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔

 چونکہ یہ سارا کام رضاء الٰہی کے لئے ہی کرنا ہے اور دوسرا کوئی مقصد نہیں ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ کے حکم پر چلیں، گناہوں سے اجتناب کریں اور ان تمام امور پر کار بند ہونے کیلئے اللہ سے توفیق طلب کر تے رہیں، سارے کام اللہ کی توفیق ہی سے بندہ کر سکتا ہے، اس لیے اللہ سے مانگیں اس کے سامنے گڑگڑائیں، آہ سحر گاہی اور دعاء نیم شبی کا اہتمام کریں، اللہ سے اس طرح لو لگائیں کہ تعلیم میں مدرسہ اور تربیت وتزکیہ میں ادارہ خانقاہ نظر آئے اور جب کوئی بندہ ادھر سے گذرے تو اعلان کرتا جائے کہ

ع در مدرسہ خانقاہ دیدم

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com