مسلمانوں کا ووٹ چاہیے،مسلمان نہیں

سہیل انجم

اس وقت اٹھارہویں پارلیمنٹ کی تشکیل کے لیے انتخابی مہم جاری ہے۔ یکم جون کو آخری مرحلے کی پولنگ ہوگی اور چار جون کو ووٹوں کی گنتی۔ اس کے بعد نئی پارلیمنٹ تشکیل پا جائے گی۔ یوں تو مختلف پارٹیاں انتخابی میدان میں ہیں لیکن اصل مقابلہ بی جے پی اور اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان ہے۔ لیکن اگر سیاسی پارٹیوں کے رویے پر مسلمانوں کے نقطہئ نظر سے ایک جملے میں تبصرہ کرنا ہو تو اس کے علاوہ اور کوئی تبصرہ نہیں ہو سکتا کہ ”ہمیں مسلمانوں کا ووٹ تو چاہیے مگر مسلمان نہیں“۔ جی بالکل یہی تبصرہ ہوگا۔ اس ملک کی مجموعی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے اور اس میں مسلمان بیس کروڑ سے زائد ہیں۔ یعنی چودہ فیصد سے زیادہ۔ یہ تعداد کم نہیں ہوتی۔ لوک سبھا کی کل 543 نشستوں میں سے 65 نشستیں ایسی ہیں جن میں مسلمانوں کی آبادی تیس سے ساٹھ فیصد تک ہے۔ جبکہ 35 سے 40 سیٹیں ایسی ہیں جن پر مسلمان قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں۔ یعنی 65 نشستوں پر مسلمانوں کا ووٹ یکمشت جدھر جھک جائے ادھر کی کامیابی یقینی ہے۔

لیکن اگر اس کا جائزہ لیا جائے کہ کیا اس الیکشن میں مسلمانوں کے مسائل کو بھی اٹھایا جا رہا ہے یا ان کی بھی گفتگو کی جا رہی ہے تو ماسوا مایوسی کے اور کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔ بلکہ مسلمانوں کا نام لینا تو اب سیاسی گناہ ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی ان کا نام لینے سے ڈرتی ہے۔ حالانکہ ایک وقت تھا جب حکومت سازی میں مسلمان بہت اہم کردار ادا کرتے تھے۔ ان کا ووٹ جس پلڑے میں جھک جاتا تھا اس کی جیت یقینی ہو جاتی تھی۔ اسی لیے تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں ان کے ووٹ کے حصول کے لیے سرکردہ مسلم شخصیات سے رابطہ قائم کرتیں اور ان سے اپنے حق میں اعلانات کرواتی تھیں۔ لیکن اب اس ملک کی سیاست کو اس رخ پر ڈال دیا گیا ہے کہ ہر پارٹی اور ہر امیدوار مسلمانوں کا نام لیتے ہوئے ڈرتا ہے کہ مبادا اسے مسلم پرست نہ کہہ دیا جائے۔ بلکہ بی جے پی مسلمانوں کے نام پر غیر مسلموں کو ڈراتی ہے۔ اس سے قارئین واقف ہیں، کچھ زیادہ تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جس میں ”اسٹار پرچارک“ مسلمان ہوں۔ ایک بھی مسلم اسٹار پرچارک ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ یہی حال مسلم امیدواروں کا بھی ہے۔ دوسری پارٹیوں نے تو کچھ مسلمانوں کو ٹکٹ دیے ہیں لیکن بی جے پی کو زائد از بیس کروڑ مسلمانوں میں صرف ایک مسلمان ایسا ملا جسے اس نے اپنا امیدوار بنانے کے لائق سمجھا۔ ان کا نام ہے عبد السلام اور انھیں کیرالہ کے ملاپورم سے امیدوار بنایا گیا ہے۔ 71 سالہ عبد السلام بی جے پی اقلیتی شعبے کے قومی نائب صدر اور کالی کٹی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ہیں۔ لیکن بعض مبصرین کے خیال میں انھیں ملا پورم سے اس لیے کھڑا کیا گیا ہے تاکہ وہ جیت نہ سکیں۔ ان کا مقابلہ انڈین یونین مسلم لیگ کے ای ٹی محمد بشیر اور سی پی ایم کے وی آصف سے ہے۔ عبد السلام اس حلقے میں بی جے پی کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ وہ ایک زرعی سائنس داں ہیں اور 2019 سے بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران انھیں مسلمانوں کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔

لیکن اس کے باوجود کہ بی جے پی نے صرف ایک مسلم امیدوار اتارا ہے اور وزیر اعظم مسلمانوں کا نام لے کر ہندووں کو ڈرا رہے ہیں، بی جے پی کو بھی مسلم ووٹ چاہیے۔ جب وزیر اعظم نے راجستھان کے بانسواڑہ میں متنازع بیان دیا اور اس پر کافی لے دے ہوئی تو اگلے روز انھوں نے علیگڑھ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے حج کا کوٹا بڑھا دیا ہے۔ یعنی مسلمان بی جے پی کو اپنا دشمن نہ سمجھیں وہ اسے ضرور ووٹ دیں۔ قبل ازیں انھوں نے پسماندہ مسلمانوں کا معاملہ اٹھایا اور بی جے پی کے بہت سے لیڈروں نے اس محاذ پر کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کا مقصد پسماندہ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنا تھا۔ انتخابات سے قبل بی جے پی کے اقلیتی شعبے کی جانب سے ملک بھر میں مسلمانوں کے درمیان 23 ہزار پروگرام منعقد کرکے 50 لاکھ مسلمانوں سے رابطہ قائم کیا گیا۔ جبکہ مسلمانوں میں 18 لاکھ سے زیادہ ”مودی متر“ یعنی مودی دوست بنائے گئے۔ اقلیتی شعبے کی طرف سے ”نہ دوری ہے نہ کھائی ہے، مودی ہمارا بھائی ہے“ کا نعرہ بھی لگایا گیا۔ وزیر اعظم سمیت تمام بی جے پی لیڈروں کی جانب سے طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دینے کے قدم کو بھی بار بار اٹھایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس سے ہماری مسلم بہنوں کو فائدہ ہوا ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ بہت سی مسلم بہنوں نے درپردہ بی جے پی کو ووٹ دیا ہے۔

ادھر کانگریس نے بھی بہت کم مسلم امیدوار اتارے ہیں۔ ریاست مہاراشٹر میں تو اسے ایک بھی مسلم امیدوار نہیں ملا جس پر سابق ریاستی وزیر عارف نسیم خان برہم ہو گئے۔ انھو ں نے کانگریس کا پرچار کرنے سے خود کو الگ کر لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کو مسلم ووٹ تو چاہیے لیکن مسلم امیدوار کیوں نہیں چاہیے۔ دراصل عارف نسیم خان شمال مغربی ممبئی سیٹ سے ٹکٹ کے خواہشمند تھے لیکن ان کی جگہ پر ممبئی کانگریس کی سربراہ ورشا گائکواڈ کو ٹکٹ دے دیا گیا۔ ممکن ہے کہ ٹکٹ ملنے پر عارف نسیم کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے یہ کہہ کر ان کے غصے کو شانت کرنے کی کوشش کی ہے کہ غلط فہمی کی بنیاد پر وہ ایسا کہہ رہے ہیں۔ ان کو اس کا بدلہ ملے گا۔ ابھی راجیہ سبھا اور ریاستی اسمبلی کے انتخابات باقی ہیں۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ کانگریس کے ایک سابق مرکزی وزیر غلام نبی آزاد نے جو کہ اب کانگریس سے الگ ہو کر اپنی علیحدہ پارٹی بنا چکے ہیں، چند سال قبل کہا تھا کہ انھیں پارٹی کا پرچار کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ اگر وہ اسٹیج پر نظر آئیں گے تو ہندو ووٹ ناراض ہو جائے گا۔ ان حقائق کے باوجود اس الیکشن میں مسلمانوں کا جھکاؤ کانگریس کی طرف زیادہ ہے۔ اس کی وجہ راہل گاندھی کا بی جے پی اور آر ایس ایس پر شدید تنقید کرنا ہے۔ حالانکہ وہ بھی مسلمانوں کے تعلق سے کوئی ایسا بیان نہیں دیتے جس سے یہ تاثر ملے کہ وہ مسلمانوں کے ہمدرد ہیں۔ البتہ ان کے بیانات مسلم مخالفین کے خلاف ضرور ہوتے ہیں۔ اس الیکشن میں کانگریس نے بھی کسی مسلم لیڈر کو اسٹار پرچارک نہیں بنایا ہے۔ دراصل وہ بھی مسلمانوں کا نام لینے سے ڈرتی ہے۔ بی جے پی کی جانب سے اسے جب سے مسلم پرست پارٹی کہا جانے لگا، اس وقت سے لے کر اب تک وہ اپنے اندر اتنی ہمت پیدا نہیں کر سکی کہ کھل کر مسلمانوں کا نام لے سکے۔ اس کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر اس نے مسلمانوں کی حمایت کی تو اسے پھر مسلم پرست پارٹی بنا دیا جائے گا اور اس صورت میں ہندو اس سے ناراض ہو جائیں گے۔ اس پر مسلمانوں کے تشٹی کرن کا الزام تو اب بھی لگایا جاتا ہے۔ لہٰذا وہ ایسے اقدامات کرتی ہے یا اس کے رہنما ایسے بیانات دیتے ہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ بھی ایک ہندو پارٹی ہے۔

ماضی میں ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد یادو اور مایاوتی کو مسلمان ووٹ دیتے رہے ہیں۔ ان کی حمایت کی بدولت انھوں نے اترپردیش اور بہار میں حکومت کی۔ لیکن اب ان میں بھی اتنا حوصلہ نہیں رہ گیا کہ وہ مسلمانوں کو اپنا امیدوار بنائیں۔ مایاوتی نے کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ مسلمانوں کو کھڑا کیا ہے۔ لیکن اس کا مقصد کیا واقعی مسلم ارکان پارلیمنٹ کی تعداد بڑھانا ہے یا مسلمانوں کے ووٹ منتشر کرنا، کہا نہیں جا سکتا۔ ویسے عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مسلم اکثریتی حلقوں میں بہت سے مسلم امیدوار کھڑے ہو جاتے ہیں یا نقلی مسلم امیدوار کھڑے کر دیے جاتے ہیں جس سے مسلمانوں کا ووٹ بکھر جاتا ہے اور بی جے پی کا ہندو امیدوار کامیاب ہو جاتا ہے۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر کوئی پارٹی کسی ہندو کے مقابلے میں کسی مسلمان کو کھڑا کر دے تو اسے ہندووں کے ووٹ نہیں ملتے یا ملتے ہیں تو بہت کم اور صرف ان لوگوں کے جو واقعی غیر متعصب ہیں۔ مسلمان اگر کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہے تو وہ اس پارٹی کے ہندو امیدوار کے حق میں مسلمانوں کے ووٹ پول کرانے کی جدوجہد کرتا ہے لیکن اگر امیدوار مسلمان ہے تو غیر مسلم کارکنوں کی جانب سے اس کے حق میں وہی جوش خروش نظر نہیں آتا۔ ہندوستان کی انتخابی سیاست کو غالباً ہندو مسلم آئینے میں دیکھنے ہی کی وجہ ہے کہ آج تک کوئی مسلم سیاسی پارٹی کامیاب نہیں ہو سکی۔ کیرالہ کی انڈین یونین مسلم لیگ کو چھوڑ دیں تو مسلمانوں کے نام پر قائم ہونے والی ہر پارٹی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ حالانکہ ان پارٹیوں کی جانب سے غیر مسلموں کو بھی جوڑنے اور انھیں امیدوار بنانے کی مثالیں ہیں لیکن چونکہ وہ مسلم پارٹی مانی جاتی ہیں اس لیے غیر مسلموں میں مقبول نہیں ہو سکتیں۔ اس وقت مجلس اتحاد المسلمین ایک مسلم پارٹی کی حیثیت سے اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ لیکن اسے بھی حیدرآباد کے علاوہ کہیں اور کامیابی نہیں ملتی۔ ہاں بہار اور مہاراشٹر میں اسے کچھ کامیابی ملی لیکن بہار کے اس کے ارکان اسمبلی نے اس کا دامن چھوڑنے میں اپنی سیاسی بقا دیکھی۔ مسلمان بڑی تعداد میں اسد الدین اویسی کی تقریر سننے تو آتے ہیں لیکن جب ووٹ دینے کا موقع آتا ہے تو انھیں فراموش کر دیتے ہیں۔ بہرحال موجودہ انتخابی منظرنامے پر یہی تبصرہ کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو مسلمانوں کا ووٹ تو چاہیے لیکن مسلمان نہیں۔

موبائل:9818195929

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com