ان نوجوانوں کی تربیت کون کر رہا ہے؟

مشرّف عالم ذوقی
کچھ دن ہوئے ، مجھے ان باکس میں ایک پیغام ملا ، ذوقی دیکھو ! میں نے کیا لکھا ہے ؟ میں ساری زندگی دیکھو … سنو کا قایل کبھی نہیں رہا، ایک تہذیب ہوتی ہے۔ میں اپنے سے چھوٹوں سے بھی عزت و احترام سے پیش آتا ہوں، میں نے ان سے پوچھا … آپ کی عمر کیا ہے، دیکھو کے بارے میں ان کا بیان تھا کہ میں عالم ہوں، مجھے ایسا بولنے کا حق ہے، پھر بھی میں آئندہ خیال رکھوں گا۔ سوال حق کا نہیں، سوال ہے یہ حق دیا کس نے ؟ تربیت نے ؟ کل رات ایک نا خوشگوار واقعہ پیش آیا، فیصل آباد کے بچوں کے ایک ادیب نے ایک عورت کے خلاف ایک طرح سے موت کا فتویٰ جاری کر دیا .تین برس قبل اس بچے نے اپنی کہانیوں کی کتاب میرے پاس بھیجی تھی، مجھے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں دوگانہ خوشی ملتی ہے، میں نے چند جملے تحریر کیے جو کتاب میں شامل کیے گئے … لیکن کل اسی بچے کی پوسٹ نے مجھے خوفزدہ کر دیا … مجھے یاد آیا، کچھ روز قبل جشن ریختہ میں اسی طرح کا ایک حادثہ پیش آیا تھا، جب ایک گستاخ رسول کی آمد کے بعد احتجاج تو ہوا لیکن کسی مسلم نوجوان نے ہاتھ نہیں اٹھایا۔ ماحول ایسا تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا تھا، لیکن یہ ہندوستانی نوجوان تھے، اپنی حد پہچانتے تھے، ان میں کئی ایسے بھی تھے جن کا تعلّق مدرسوں سے تھا، احتجاج یہ تھا کہ آپ واپس چلے جائیے … ایک ایسا شخص جو اردو کے خلاف مسلسل بولتا رہا ہو، اسے کسی اردو پروگرام میں جگہ کیوں ملے؟ ہمارے یہاں مدرسوں کی تہذیب میں آج بھی گنگا جمنی تہذیب کی مہک شامل ہے۔ مجھے اس ادیب سے دو اختلاف تھے، ایک تو اس نے خدا کو صرف قہار سمجھ رکھا تھا، جبکہ خدا رحمان اور رحیم دونوں ہے۔ پھر میں نے اسے یاد دلایا کہ دنیا کا کویی مذہب دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا، اگر ایسا ہے تو پھر داعش، طالبان میں کیا فرق ہے؟ میں نے اسے آخری نبی کی مثال دی کہ وہ تو بدترین دشمنوں کو بھی دوست بنا لیا کرتے تھے۔ اگر ہر شخص شمشیر اٹھا لے تو پھر دنیا تباہ ہو جائے گی … میرے پاس اپنے حق کے استمعال کے لئے ایک راستہ تھا، میں نے اسے بلاک کر دیا، لیکن یہ فکر ضروری ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ اسلام اور مسلمانوں کو لےکر عالمی سطح پر جو سازش ہو رہی ہے، کیا انجانے میں ہم اس سازش کا حصّہ نہیں بن رہے؟ طارق، تسلیمہ جیسے لوگ ہر جگہ ہیں۔ دراصل یہ اسپانسرڈ ایجنسیوں کے گنہگار ہیں جو پیسے لے کر اپنا کام کر رہے ہیں۔ ہم انتہا پسندی کا مظاہرہ کریں، یہ تنظیمیں یہی چاہتی ہیں اور ہم آسانی سے ایسی تنظیموں کا شکار ہو رہے ہیں، یہ اللہ، رسول اور اسلام سے محبّت نہیں کہ ان کے جواب میں ہم شمشیریں نکال کر جنگ لڑنے پر آمادہ ہو جاہیں؟ نوجوانی کے گرم خون کا استعمال محبّت کے لئے ہونا چاہیے، نفرت کے لئے نہیں ؛ تسلیمہ اور طارق کسی ملک یا تنظیم کے لئے کام نہیں کرتے تو یہ لوگ بھی راستے پر آ سکتے تھے، لیکن انہیں اسلامی دشمنی کے نام پر ایک عیاشی سے بھری زندگی کا تحفہ ملتا ہے۔ ایک دن جب ان سے کام نکل جائےگا تو یہی طاقتیں انہیں ہلاک کر دیں گی یا حاشیے پر ڈال دیں گی، ہندوستان ہو یا پاکستان، ان بچوں کو سمجھانا ضروری ہے؛ کچھ کام انصاف اور قانون کا بھی ہے، انصاف اور قانون میں کمیاں ہیں، انصاف خریدا بھی جاتا ہے، پھر بھی ہم انصاف اور قانون پر بھروسہ کریں … ہم فتووں سے بچیں، اسلحے نہ اٹھائیں ؛۔
شر پسندوں کی سازش کا نوالہ نہ بنیں … ان کے قدم اس طرف ہیں کہ تمام ممالک ایک ہو کر یہ اعلان کر دیں کہ اسلام دہشت گردوں کا مذہب ہے … غور کیجئے … کیا ہم اسی خوفناک منزل کی طرف قدم تو نہیں بڑھا رہے !!!؟