ارے میں تو پھنس گیا اڈانی امبانی کے چکر میں

سہیل انجم

سیاست بھی کیا خوب چیز ہے۔ اگر مہربان ہو تو کامیابی کی دیوی چرنوں میں لوٹتی ہے۔ اگر ناراض ہو جائے تو اپنے دوست بھی پرائے ہو جاتے ہیں۔ سیاست کب کیا رخ اختیار کر لے کہا نہیں جا سکتا۔ جن ملکوں میں جمہوریت ہے یعنی انتخابات کے ذریعے حکومتیں بنتی اور بگڑتی ہیں وہاں کی سیاست تو اور بھی کھیل تماشے دکھاتی ہے۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کسی دن اڈانی اور امبانی پر کالا دھن رکھنے اور ان کے مخالفین کو سپلائی کرنے کا الزام عاید کر دیں گے۔ ایسا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن مخالفین اور بالخصوص کانگریس کی سیاست سے پریشان مودی جی نے ایسا بیان دے دیا جس کی کسی نے توقع بھی نہیں کی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بیان کے بعد وہ خود چپ ہو گئے۔ ان کی پارٹی بی جے پی کو بھی چپی لگ گئی۔ ورنہ وہ جو بھی بیان دیتے ہیں یا مخالفین پر جو بھی الزام لگاتے ہیں بی جے پی کے دوسرے رہنما بھی اسی کو دوہرانے لگتے ہیں۔ لیکن انھوں نے ایسا کیا کہہ دیا کہ خود بھی اس کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور ان کی پارٹی اور پارٹی کے لیڈران بھی نہیں ہیں۔ بلکہ اس بیان یا الزام کے بعد وہ کانگریس کے نشانے پر مزید آ گئے ہیں اور اس طرح پھنس گئے ہیں کہ عالم تصور میں یہ کہہ رہے ہوں گے کہ ارے میں کہا ں اڈانی امبانی کے چکر میں پھنس گیا۔

یہ تو قارئین جانتے ہیں کہ سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی برسوں سے نریندر مودی پر یہ الزام لگاتے آئے ہیں کہ انھوں نے اپنے دوستوں گوتم اڈانی اور مکیش امبانی کو کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچایا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کے اندر بھی یہ بات کہتے رہے ہیں اور باہر بھی۔ وزیر اعظم اس الزام سے پریشان تو رہے ہیں لیکن کچھ کر نہیں پا رہے تھے۔ بالآخر ایک منصوبے کے تحت انھیں ان کے ایک بے ضرر سے بیان پر پھنسایا گیا۔ ان کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا اور پھر عدالت نے انھیں اتنی سزا سنا دی کہ ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت چلی گئی۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ راہل پارلیمنٹ میں اڈانی امبانی نہ کر سکیں۔ لیکن بہرحال سپریم کورٹ کی مداخلت پر ان کی رکنیت بحال ہوئی۔

اڈانی سے متعلق بے شمار سوالات کرنے پر ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا کو بھی پھنسایا گیا۔ ان کے خلاف بھی مقدمات قائم کیے گئے۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ انھوں نے پارلیمنٹ میں جتنے سوالات کیے تھے ان میں اکثریت اڈانی سے متعلق تھے۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو راہل گاندھی کو چپ کرایا جا سکا اور نہ ہی مہوا موئترا کو۔ اسی درمیان پارلیمانی انتخابات شروع ہو گئے۔ اپنی انتخابی ریلیوں میں وزیر اعظم مودی کانگریس کے انتخابی منشور میں ایسی ایسی باتیں نکالنے لگے جو منشور میں ہیں ہی نہیں۔ کانگریس پر بے سر پیر کے الزامات لگانے لگے۔ کبھی کہا کہ کانگریس کے منشور پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے تو کبھی کہا کہ کانگریس ہندوؤں کی دولت چھین کر مسلمانوں کو یعنی گھس پیٹھیوں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کو دے دے گی۔

کبھی کہا گیا کہ کانگریس کی نظر ماؤں بہنوں کے منگل سوتر پر ہے۔ کبھی کہا گیا کہ کانگریس ایس سی ایس ٹی اور او بی سی کا ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دے دے گی۔ پاکستان کے ایک سابق وزیر چودھری فواد حسین نے اپنی ایک ٹوئٹ میں راہل گاندھی کی تعریف اورمودی پر تنقید کر دی بس پھر کیا تھا کہا جانے لگا کہ پاکستان ہندوستان میں کانگریس کی حکومت بنوانا چاہتا ہے۔ لیکن جب کانگریس کے رہنما اور خاص طور پر راہل گاندھی ان کے جال میں نہیں پھنسے تو انھوں نے اپنی دانست میں ایسا تیر چھوڑا جو انتخابی مہابھارت کے اس ابھیمنیو کو چھید کر رکھ دے گا۔ لیکن ہوا اس کا بالکل الٹا۔ وہ تیر لوٹ کر خود انہی کو لگ گیا۔ لیکن جو تکلیف پہنچی اس کا اظہار کرنے کی پوزیشن میں وہ نہیں رہے۔

قارئین کو تو معلوم ہی ہوگا کہ نریند رمودی نے ایک انتخابی جلسے میں راہل گاندھی پر الزام عاید کرتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ ابھی تک اڈانی امبانی رٹتے رہے ہیں لیکن جب سے الیکشن شروع ہوا ہے انھوں نے ان دونوں کا نام لینا بند کر دیا ہے۔ حالانکہ یہ بات سرے سے غلط تھی۔ وہ بار بار ان کے نام لیتے رہے ہیں۔ مودی نے سوال کیا کہ کیا اڈانی اور امبانی کے یہاں سے ٹیمپو میں بھر بھر کر اور بوریوں میں بھر بھر کر کالا دھن کانگریس کے پاس پہنچا ہے کیا؟ کیوں راہل گاندھی ان دونوں کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ لیکن بعد میں ان کو احساس ہوا کہ ارے انھوں نے کیا کہہ دیا۔ کیسا الزام لگا دیا۔ ہوا یوں کہ ان کے اس الزام کو کانگریس نے پکڑ لیا اور سوال کیا جانے لگا کہ کیا اڈانی اور امبانی مودی کو ٹیمپو میں بھر بھر کر کالا دھن دیتے رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے بڑا تلخ سوال کیا۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا وہ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہے ہیں۔

انھوں نے اور کانگریس کے دوسرے لیڈروں نے یہ مطالبہ شروع کر دیا کہ مودی جی اڈانی اور امبانی کے گھر ای ڈی اور سی بی آئی بھیجیں اور اس کی جانچ کروائیں کہ کیا ان دونوں کے پاس کالا دھن ہے۔ اس سلسلے میں خوب مذاق بھی اڑایا جانے لگا۔ ایک کارٹون تو بہت عمدہ نظر سے گزرا۔ کارٹون میں اڈانی ٹیمپو چلا رہے ہیں اور ان کے برابر میں امبانی بیٹھے ہیں۔ پیچھے کالے دھن کی بوریاں رکھی ہوئی ہیں۔ اڈانی مودی کو فون کر رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ کیا انھوں نے غلط ایڈریس دے دیا ہے کیا؟۔ اس الزام پر مبصرین نے بھی خوب چٹکی لی اور تجزیہ کاروں نے بھی۔ لیکن اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ نہ تو مودی اس بیان کا دفاع کرنے کے لیے میدان میں آئے نہ ہی بی جے پی کا کوئی لیڈر۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے وہ لیڈر بھی جو مودی کے بیانات اور الزامات کو دوہراتے رہے ہیں وہ بھی خاموش ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے تبصرہ کیا کہ مودی کے اس الزام کے بعد اڈانی کے نیوز چینل این ڈی ٹی وی پر مودی کے خلاف رپورٹ چلائی گئی۔

بہرحال ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ اس الزام کا اڈانی اور امبانی پر کیا اثر پڑا یا بی جے پی اور آر ایس ایس کے اندر اس پر کیسا ردعمل رہا۔ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ مودی جی اس الزام کے بعد بری طرح پھنس گئے۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہے ہوں گے کہ کیا کہہ دیا اور یہی جملہ دوہراتے ہوں کہ ارے اڈانی اور امبانی ہم تو آپ دونوں کے چکر میں پھنس گئے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com