مدھیہ پردیش واقع اندور لاء کالج سے متعلق ایک متنازعہ کتاب معاملے میں سپریم کورٹ نے آج انتہائی اہم فیصلہ سنایا۔ عدالت عظمیٰ نے کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مرزا معزز بیگ کو راحت دیتے ہوئے ان کے خلاف مجرمانہ کارروائی اور ایف آئی آر کو رد کر دیا ہے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے ڈاکٹر مرزا بیگ کے خلاف مجرمانہ کارروائی پر عبوری روک لگانے سے انکار والے ہائی کورٹ کے فیصلے پر فکر مندی بھی ظاہر کی۔
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ 26 اپریل کو پروفیسر بیگ کو پیشگی ضمانت دے دی تھی۔ پروفیسر کا الزام تھا کہ جب وہ اندور کے سرکاری لاء کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے تب لائبریری میں ایک ایسی کتاب ملی تھی جس میں مبینہ طور پر ہندوؤں کے خلاف باتیں موجود تھیں۔ اس کے بعد پروفیسر کے خلاف دو مذاہب کے درمیان نفرت پھیلانے کا معاملہ درج کیا گیا۔
پروفیسر بیگ نے اس معاملے میں سب سے پہلے تو پیشگی ضمانت کے لیے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، لیکن وہاں سے انھین راحت نہیں ملی۔ پھر وہ سپریم کورٹ پہنچے۔ یہاں جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ نے پروفیسر بیگ کو پیشگی ضمانت دے دی۔ جب آج اس معاملے پر جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سندیپ مہتا کی بنچ نے سماعت کی تو واضح لفظوں میں کہا کہ ”مدھیہ پردیش کی حکومت ایسے معاملے میں ظلم کرنے کے لیے اتنا بے قرار کیوں ہے؟ یہ کتاب نصاب کے بارے میں ہے، سپریم کورٹ کے لائبریری میں بھی مل سکتی ہے۔” اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے پروفیسر بیگ کے خلاف مبینہ طور پر مذہبی شدت پسندی پھیلانے کے الزام کو ایک طرح سے خارج کر دیا۔