اسرائیلی جنگی مجرموں کے لیے مکمل آزادی اور فلسطینیوں کے لیے یرغمال کی حیثیت

محمدانعام الحق قاسمی

ریاض ، مملکت سعودی عرب

اسرائیلیوں کے لیے کوئی ریڈ لائن نہیں

غزہ کے عوام کی خوفناک بے بسی اور ظلم کے پہاڑجو روزانہ ان پر ڈھائے جارہے ہیں اب قابل بیان نہیں ہیں گویا کہ غزہ کے فلسطینی باشندے اسرائیلی جنگی مجرموں کے رحم و کرم پر کامل لنگڑی بطخیں ہیں۔کوئی بھی عالمی طاقت ان کی مدد کو نہیں آ رہی۔ (36) چھتیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور (70) ستر ہزار سے زائد معذور ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی جنگی مجرموں کے پاس کوئی سرخ لکیر نہیں ہے۔ انہیں فلسطین میں جتنے بھی لوگوں کو مارنے اور اذیت دینے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی مکمل آزادی ہے۔ صہیونی قتلِ عام صرف غزہ تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ یہ مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی نہ رکنے والا سفاکانہ عمل ہے۔

پوری عالمی برادری بھی اپنی نااہلیوں اور ناکامیوں کا اظہار کررہی ہے۔ اقوام متحدہ صرف کچھ ٹاک شوز کر سکتا ہے اور کچھ پریس ریلیز جاری کر سکتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مسلم دنیا اپنی روایتی خاموشی اور بے عملی ہی دکھا سکتی ہے۔ جو لوگ کچھ جرات کا مظاہرہ کرتے ہیں انہیں کسی نہ کسی مغربی لعنت یا دھمکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھناؤنے جنگی مجرموں کو قابو کرنے کے لیے پوری دنیا کے پاس اب کوئی موثر اتھارٹی نہیں ہے۔ درحقیقت، انہیں کسی بھی جرم کے ارتکاب کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی مکمل آزادی سے لطف اندوز ہونے کی اجازت ہے۔ بنی اسرائیل کے لیے یہ ایک لاقانونیت کے جنگل کی مانند ہے۔ لہٰذا، غزہ میں زیادہ تر رہائشی تنصیبات کو تباہ کرنے کے بعد، اسرائیل اب رفح کی ریتیلی صحراء میں خیموں میں پناہ لینے والے لوگوں کو مارنے کے لیے میزائل داغ رہا ہے جو کہ پناہ گزینوں کا آخری سہارا ہے۔ 26 مئی 2024ء کو خیموں میں 35 افراد جل کر ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ پورے فلسطین میں کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہسپتال بھی اسرائیلی مجرموں کیلئے عمومی اہداف ہیں۔

انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) اور انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) کے پاس اِن جنگی مجرموں کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اسرائیل خود کو بین الاقوامی قوانین سے بالاتر سمجھتا ہے اور آئی سی جے اور آئی سی سی کو تسلیم نہیں کرتا۔ امریکہ اسرائیل کے اس موقف کی حمایت کرتا ہے۔ حال ہی میں، آئی سی سی نے وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔ اس پر صدر بائیڈن غصے میں آگئے۔ انہوں نے کہا کہ آئی سی سی کے پاس وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ اگر آئی سی سی کے پاس جنگی مجرموں کو گرفتار کرنے اور سزا دینے کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے تو پھر ایسی عدالت کیوں ہونی چاہیے؟ ایسی عدالت کیوں بنائی گئی؟ بائیڈن نہیں چاہتا کہ اس کے مجرم دوست کو کسی سزا کا سامنا کرنا پڑے۔ لیکن اسی صدر بائیڈن نے آئی سی سی کے فیصلے کی تعریف کی جب اس نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔

امریکہ، برطانیہ اور جرمنی اسرائیل کے جنگی مجرموں کو ہتھیار دے کر جنگی جرائم میں اپنی پوری ملی بھگت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لہذا، وہ اپنے دوستوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے لیے جرائم میں ملوث کرنے کے لیے آئی سی سی کی کسی بھی کوشش کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر جو بائیڈن اس وقت برہم ہوگئے جب آئی سی سی کے پراسیکیوٹر نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی سمجھتے ہیں کہ وہ بھی بین الاقوامی قانون سے بالاتر ہیں۔ یہ سامراجی بالادستی رکھنے والے اور ظالم و جابر حکمراں سمجھتے ہیں کہ زمین پر صرف وہی مہذب لوگ ہیں اور آئی سی سی تیسری دنیا کے مجرموں کے لیے بنائی گئی ہے۔

جہاں کوئی جرم ہوتا ہے، اس کے پیچھے ہمیشہ کوئی نہ کوئی مجرم ہوتا ہے۔ اور ان مجرموں کو سزا کے بغیر جانے دینا بدترین جرم ہے۔ امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ اس جرم میں شریک ہیں۔ کیونکہ وہ اسرائیلی جنگی مجرموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

 آئی سی سی کی بھی اپنی ناکامیاں ہیں۔ چونکہ امریکہ ہتھیاروں اور رقوم کی فراہمی کے لیے جنگی جرائم میں شراکت دار ہے، اس لیے آئی سی سی کو صدر بائیڈن کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کرنا چاہیے تھا۔ وہ روس کے صدر پیوٹن سے کم جنگی مجرم نہیں۔ پیوٹن نے یوکرین میں 36 ہزار نہیں مارے بلکہ اسرائیل نے مارا۔ اور بائیڈن اس اسرائیلی قتل میں پوری طرح ملوث ہے۔

فلسطینیوں کے خلاف تعصب

کسی بھی شخص کے خلاف تعصب بذات خود ایک بہت بڑا جرم ہے۔ یہ ایک صریح بے حیائی ہے۔ تعصب کے ساتھ، کوئی صحیح انصاف نہیں دے سکتا۔ اس لیے کسی بھی قوم کے خلاف تعصب قانون کی حکمرانی، اخلاقیات، انسانیت اور بنیادی انسانی اقدار کے خلاف جرم ہے۔ اس طرح کے تعصب کی وجہ سے امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ فلسطینی عوام کے لیے انصاف کی فراہمی کے خلاف مسلسل جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

ایسے مغربی جرم کا ایک تاریخی تناظر ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریزوں، فرانسیسیوں اور امریکیوں جیسے مغربی سامراجیوں نے مل کر فلسطین کی سرزمین پر ناجائز اسرائیل کو جنم دیا۔ 1917 میں برطانوی قبضے سے پہلے یہودیوں کی آبادی 5 فیصد سے بھی کم تھی۔ تاہم، مشرقی یورپ، روس اور دیگر ریاستوں سے منصوبہ بند ہجرت کے ذریعے ان کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد، انہوں نے اسے تسلیم کیا اور اسے اقوام متحدہ کا رکن بنا دیا۔ اب، وہ اپنے ناجائز بچے کی حفاظت کے لیے متحد ہیں۔

اسرائیل کو ایک سیاسی اور عسکری مقصد کے تئیں مسلمانوں کے قلب میں قوت کے غلط استعمال کے ساتھ آباد کیا گیا ہے ۔ اسے صرف مغرب کے لیے فوجی اور سیاسی چوکی کے طور پر کام کرنے کے لیے بنایا گیا ہے ۔ اب یہ مشرق وسطیٰ کے تمام مسلم ممالک کے خلاف غنڈہ گردی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے امریکا، یورپی یونین اور برطانیہ تمام ضروری ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے جوہری ٹیکنالوجی بھی فراہم کی ہے، لہٰذا یہ مشرق وسطیٰ کا واحد ایٹمی ملک ہے۔ اسرائیل اس علاقے میں اسلامی تہذیبی ریاست کی بحالی کو روکنے کے لیے وہاں موجود ہے۔

امریکی سیاست دانوں اور میڈیا گرو (جنہیں میڈیا ٹائیکون کہا جاتاہے) میں فلسطینیوں کے خلاف تعصب اور اسرائیلیوں کے لیے دلی اور خصوصی محبت بہت مضبوط ہے۔ وہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں لیکن فلسطینیوں کی سلامتی کے لیے وہ گونگے بہرے بنے ہوئے ہیں۔ 7اکتوبر کے قتل کی مذمت کرتے ہیں گویا فلسطین میں اس دن ہی ظلم و ستم کا آغاز ہوا تھا۔ لیکن وہ گزشتہ 75 سالوں میں فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کے گھروں کی تباہی پر خاموش ہیں۔

 یہ لوگ اسرائیلی کی بربریت و سفاکی اور ہلاکت بربادی (نکبہ) کی مذمت نہیں کرتے۔ 1948 میں نکبہ کے دنوں میں چند دنوں میں 500 سے زیادہ دیہات تباہ اور 750,000 لوگوں کو بے دخل کر دیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر اب بھی پڑوسی ممالک میں پناہ گزینوں کے طور پر رہ رہے ہیں۔ وہ حماس کے ہاتھوں اسرائیلیوں کو یرغمال بنانے کی مذمت کرتے ہیں، لیکن وہ فلسطینیوں کی مکمل یرغمال ریاست کی مذمت نہیں کرتے۔ وہ غزہ میں 36 ہزار فلسطینیوں کے قتل اور 80 فیصد سے زیادہ مکانات کی تباہی کی مذمت تک نہیں کرتے۔ وہ جنگ بندی کا مطالبہ بھی نہیں کرتے۔ وہ صرف اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی میں اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے

غیر ملکی زمین پر کوئی بھی قبضہ سراسر غیر قانونی ہے۔ کوئی بھی نسلی کشی اور نوآبادیات یا ناجائز قبضہ بھی غیر قانونی ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے بہت بڑی شرم کی بات ہے جنہوں نے اسرائیل جیسی ریاست کو تسلیم کیا جو ایک مقبوضہ سرزمین میں نسلی تطہیر اور آبادکاروں کی کالونائزیشن کو استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر بنائی گئی ہے ۔

اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کے لیے ایسی غیر قانونی ریاست کو اپنا رکن تسلیم کرنا انتہائی شرم کی بات ہے۔ صرف وہی لوگ جو نسلی تطہیر اور نوآبادیات کے جرائم میں ملوث ہیں خاموش رہنے کو ترجیح دے سکتے ہیں جب وہ اسی اسرائیلی جرائم کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اس طرح کے نسل کشی کے جرائم یورپی نوآبادیاتی ممالک جیسے برطانیہ، فرانس، ہسپانیہ، ڈچ وغیرہ نے ایشیائی و افریقی باشندوں کے ساتھ کیا تھا اوراِن سبھوں نے ہی امریکہ میں ریڈ انڈینز اور انکاس کے خلاف، آسٹریلیا میں ایبوریجینز کے خلاف، نیوزی لینڈ میں ماوریوں اور جنوبی افریقہ میں سیاہ فام باشندوں کے خلاف کیے تھے۔

 اسرائیلی مغربی سامراجیوں کے کامل نظریاتی کزن ہیں۔ اس لیے وہ فلسطینیوں کے خلاف مکمل مغربی حمایت اور استثنیٰ کے ساتھ وہی جرائم کا ارتکاب کر سکتے ہیں جن جرائم کا ارتکاب مغربی سامراجیوں نے کیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک اسرائیلیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں تاکہ فلسطینیوں کے لیے ان کی آبائی سرزمین پر آزاد ریاست کو تسلیم کرنے سے روکا جا سکے۔ مغربی اقوام کا ایسا غیر اخلاقی موقف درحقیقت ان کی اخلاقی موت اور خطرناک سیاسی کج روی کی واضح علامت ہے۔

=====:::=====

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com