انتخاب ہی نہیں ریفرنڈم: ممکنہ انتخابی نتائج، امکانات اور خدشات

سیف الرحمٰن 

چیف ایڈیٹر اِنصاف ٹائمس

بی الآخر دنیا کے عظیم جمہوری ملک ہندوستان کا وہ انتخاب آخری مرحلہ کو مکمل کر اب نتیجہ کے انتظار تک پہونچ گیا ہے جس انتخاب کو ملک ہی نہیں عالمی سطح پر بڑی اہمیت کی نظر سے دیکھا جارہا ہے اور اُسکی اصل وجہ صاحب مسند وزیر اعظم نریندر مودی و اُنکی ٹیم کا تاناشاہی انداز حکومت اور اُنکی بھارتیہ جنتا پارٹی کی ماں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے مقاصد ساتھ ہی ملک کے اہم ترین عوامی اداروں کے نجی کرن کا وہ سلسلہ ہے جس کی وجہ سے منہگائی اور بے روزگاری نے ملک کی کمر توڑ دی ہے،نریندر مودی صاحب کے دس سالوں کے تجربہ کے بعد عام شہری بھی ماننے لگے ہیں کہ اگر تیسری مرتبہ وہ آتے ہیں تو راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ و اُنکی قیادت میں قائم سنگھ پریوار پچھلے 99 سالوں سے جن مقاصد کےلئے زمینی جدوجھد کر رہے ہیں اُس کو آخری طور پر عملی جامہ پہنایا جائیگا اور اس جمہوری،عوامی،وفاقی،سماجوادی نظام کے کیریکٹر/روح کو ختم کر برہمنوادی،سرمایہ دارانہ،ہندوتوا ریپبلک کا نظام متعارف و نافذ کیا جائیگا ،لہٰذا یہ پارلیمانی انتخاب ایک انتخاب نہیں بلکہ جمہوری،عوامی،وفاقی،سماجوادی نظام اور برہمنوادی،سرمایہ دارانہ،ہندوتوا ریپبلک کے درمیان ایک ریفرنڈم تھا! اب اس ریفرنڈم کا نتیجہ 04 جون بروز منگل کو آنا ہے جس کا بے صبری سے ملک ہند کا ہر ایک شہری،ملکی و عالمی میڈیا اور دنیا کے سبھی الگ الگ سیاسی،معاشی،نظریاتی حلقے کر رہے ہیں!اگر اس انتخاب کے ممکنہ رزلٹ کی بات کی جائے تو یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ انتخاب کے ایام شروع ہونے سے پہلے لگ رہا تھا کہ معاملہ 2019 والا رہیگا لیکِن انتخاب کے ایام شروع ہوتے ہی انتخابی ہوا صاحب مسند کے خلاف چل پڑی تھی اور پہلے مرحلے سے لےکر آخری ساتویں مرحلے تک اسے سنبھال پانا زیر اقتدار جماعت و اُنکی حمایت کرنے والی تنظیموں کیلئے ممکن نہیں ہو سکا تھا،لہٰذا ہم نے دیکھا کہ وہ شیڈیول کاسٹ و شیڈیول ٹرائب جو کہ 2014 و 2019 میں نریندر مودی میں امبیڈکر جیسا مسیحا دیکھ رہے تھے اور مسلم دشمنی میں مہاتما بدھ و جے سیتا رام کی جگہ جے شری رام کے نعرے کو تھام کر یکطرفہ طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو حمایت دے رہے تھے، انکا بھی ایک بڑا طبقہ اس مرتبہ آئین کے خاتمے کے احساس کی وجہ سے انڈیا اتحاد کے ساتھ کھڑا رہا،وہ پچھڑے طبقات جو کہ اسمبلی انتخابات میں اپنی کمیونٹی لیڈرشپ کا ساتھ دیتے تھے لیکن مرکز میں نریندر مودی جیسے جادوئی ہندوتوا چہرے کو دیکھنا چاہتے تھے اور اسی زاویہ نظر سے ووٹ کرتے تھے اُنکی خاصی تعداد منڈل بنام کمنڈل کی طرح لالو،اسٹالن،تیجسوی،اکھلیش،سہنی کے دامن کو پکڑے و راہل گاندھی کے سماجی انصاف والے بیانیہ پر یقین کرتے نظر آرہے تھے,ملک میں سب سے بڑی اقلیت مسلم کمیونٹی چند ایک سیٹ جس میں بہار میں حناشہاب کا سیوان،پپو یادو کا پورنیہ،اختر الایمان کا کشن گنج تو اُتر پردیش میں چندرشیکھر آزاد کا نگینہ و مہاراشٹرا میں امتیاز جلیل کا اورنگ آباد،پرکاش امبیڈکر کا اکولہ و تلنگانہ میں اسد الدین اویسی کا حیدرآباد و تمل ناڈو میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے ریاستی صدر نیللئی مبارک کا ڈنڈگول لوک سبھا و آسام میں مولانا بدر الدین اجمل کی پارٹی کے تینوں حلقوں (دھبڑی،کریم گنج،ناگون) شامل ہے،ساتھ ہی آندھرا پردیش میں جگن موہن ریڈی کے اُمیدواروں اور اڑیسہ میں نوین پٹنایک کے اُمیدواروں کو چھوڑ کر ملک کے تمام لوک سبھا حلقوں میں یکطرفہ ووٹ انڈیا اتحاد کو کیا ہے! پورے ملک میں بھاجپا مخالف ووٹوں کا بکھراؤ بہت حد تک رک جانے کی وجہ سے ممکنہ رزلٹ بہت ہی دلچسپ ہو سکتا ہے!زمینی تجزیہ کو دیکھا جائے تو ممکنہ طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیٹیں 303 سے گھٹ کر 220-240 تک آ جائیگی و اُنکی اتحادی جماعتوں کی سیٹیں 39 سے گھٹ کر 25-35 رہ جائیگی یعنی کہ نیشنل ڈیموکریٹک اتحاد 2019 کے 342 حلقوں کے مقابلے 255-275 پر سمٹ جائےگا تو دوسری طرف کانگریس اپنے 52 سیٹوں میں اضافہ کرتے ہوئے 100-120 سیٹ تک پہونچتی نظر آرہی ہے اور اُنکی بقیہ اتحادی جماعتیں 67 سیٹوں میں اضافہ کرتے ہوئے 110-140 سیٹیں حاصل کرنے جا رہی ہے یعنی کہ انڈیا اتحاد 119 سیٹوں کو بڑھا کر 210-260 حلقوں پر قبضہ کر لے گا!ممکنہ رزلٹ بتاتا ہے کہ لڑائی بالکل برابری اور آرپار کی ہے جس میں دونوں اتحاد میں سے کوئی بھی حکومت سازی کر سکتا ہے، لیکِن دونوں اتحاد کی سیٹیں اکثریت کے بہت قریب رہیگی چاہے وہ حکومت سازی کرنے والا اتحاد ہو یا حزب اختلاف بننے والا اتحاد!بلکہ ایسے میں زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ چند پارٹیاں جو کسی اتحاد کا حصہ نہیں ہے وہ کنگ میکر کی حیثیت حاصل کرلے، کیونکہ 25 سے 35 حلقوں میں اُن پارٹیوں (وائی.ایس.آر.سی.پی، بی.جے.ڈی، اے.آئی.اے.ڈی.ایم.کے، اے.آئی.یو.ڈی.ایف، ایم.آئی.ایم، ایس.ڈی.پی.آئی، اے.ایس.پی، آئی.این.ایل.ڈی، اکالی دل، وی.بی.اے اور آزاد) کو کامیابی ملتی دکھ رہی ہے لہٰذا اقتدار کی چابی ان کے ہاتھوں میں ہونے کے امکانات ہے اور ان تمام کے اپنے سیاسی مفادات ایسے ہیں کہ ان سب کے انڈیا اتحاد کی طرف جانے کے امکانات زیادہ ہونگے، تو وہیں اس درمیان میں توڑ جوڑ کی سیاست بھی تیز ہوگی کیونکہ نریندر مودی اور امت شاہ جی کی ٹیم یہ کوشش کریگی کہ دِیگر (جو دونوں میں سے کسی اتحاد میں نہیں ہے) کو ملانے کے ساتھ ہی انڈیا اتحاد کی ایک دو جماعتوں کو بھی توڑ کر حکومت بنا ہی لیا جائے(گر چہ انڈیا اتحاد میں موجود جماعتوں میں سے کوئی بھی جماعت انڈیا اتحاد چھوڑنے کی غلطی شاید ہی کرے کیونکہ اُن کے سیاسی مفادات مکمل طور پر انڈیا اتحاد کے ساتھ ہے اور اُن کے نظریہ کی مانگ بھی انڈیا اتحاد کی حمایت میں ہے)، اور اُدھر یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ جنتا دل یونائیٹڈ کے صدر و بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھاجپا کے ساتھ دوبارہ جانے کے بعد سے ہی اُس اتحاد میں خوش نہیں ہے اس لیے ممکن ہے کہ وہ اور بھاجپا اتحاد کی چند اور جماعتیں انتخابی نتیجہ کے بعد انڈیا اتحاد کی طرف لوٹ جائیں ،لہٰذا ممکنہ نتائج ایسے ہو سکتے ہیں کہ جس کے بعد حکومت سازی میں سخت مقابلہ آرائی و جوڑ توڑ ہونا یقینی ہوگا!اس اہم ترین انتخاب بلکہ ریفرنڈم کے نتیجہ کے بعد کے حالات کو لےکر ایک اور اندیشہ تجزیہ نگاروں و ماہرین سیاست کی نظر میں ہے کہ ممکن ہے کہ اعداد و شمار میں بھارتیہ جنتا پارٹی شکشت کھا جائے لیکن اس کے بعد وہ ایسا راستہ اپنا لے جو کہ ہندوستان نے 70 سالوں میں نہیں دیکھا ہے, یعنی کہ بھاجپا اقتدار کی منتقلی کرنے کے بجائے فوج، ایجنسی،طاقت کا استعمال کر ملک کو ایمرجنسی و انارکی جیسے حالات کی طرف موڑ دے لہٰذا حزب اختلاف و عوام کو اس چیلنج کےلئے بھی ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے تاکہ مضبوط جمہوری عوامی مزاحمت کے ذریعے ملک کو تاناشاہی جیسے حالات سے بچا سکے اور ملک کے جمہوری،عوامی،وفاقی،سماجوادی آئین کی حفاظت کو یقینی بنا سکے۔

saifurbihari143@gmail.com

9540926856

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com