سہیل انجم
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دس سالہ دور حکومت میں ہر وہ کوشش کر ڈالی جس سے اپوزیشن پارٹیاں کمزور ہوں اور ان کا وجود ہندوستانی سیاست کے افق سے غائب ہو جائے۔ اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ حالانکہ اس کے لیے بی جے پی نے ہر جائز ناجائزہ حربہ اختیار کیا اور ہر غیر اخلاقی ترکیب کو آزمایا۔ یہاں تک کہ غیر بی جے پی پارٹیوں کے جن رہنماؤں پر کروڑوں روپے کے کرپشن کا الزام عاید کیا انہی کو گلے لگا کر ان کے تمام گناہ معاف کر دیے۔ غیر این ڈی اے پارٹیوں کے رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائیاں کی گئیں اور گڑے مردے اکھاڑ اکھاڑ کر ان کے خلاف ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس محکموں کے چھاپے ڈلوائے گئے۔ متعدد رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا جو اب بھی جیل میں ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ پارلیمانی انتخابات کی مہم کے دوران اپوزیشن کے مزید رہنماؤں کو جیل بھیجنے کی دھمکی بھی دی گئی۔
جب پارلیمانی انتخابات سے قبل حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کے خلاف ایک مضبوط محاذ تشکیل دینے کی کوشش کی تو اسے بھی ناکام بنانے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا گیا۔ یہاں تک کہ اس بارے میں سب سے پہلے سلسلہ جنبانی کرنے والے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو ہی توڑ لیا گیا اور بہار میں ان کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی گئی تاکہ لوک سبھا انتخابات میں زیادہ نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ اپوزیشن اتحاد کو ختم کرنے کے لیے سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی کے خلاف ایک مجہول سے الزام کے تحت مقدمات قائم کیے گئے اور ایک عدالت سے ان کے خلاف فیصلہ دلوا کر ان کی رکنیت اور رہائش دونوں چھین لی گئیں۔ لیکن بھلا ہو سپریم کورٹ کا کہ اس کی مداخلت سے وہ بحال ہو گئیں۔ چونکہ بی جے پی کو معلوم ہے کہ راہل گاندھی ہی اپوزیشن اتحاد کے اصل مرکز ہیں لہٰذا ان کا حوصلہ توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ لیکن ناکامی ہاتھ لگی۔
اسی درمیان اپوزیشن کی متعدد جماعتوں نے بالآخر ‘انڈیا’ نامی اتحاد قائم کر لیا اور کئی ریاستوں میں اس میں شامل جماعتوں نے ایک دوسرے سے انتخابی تال میل کیا۔ انتخابات کے دوران اگر بی جے پی یا این ڈی اے کی جانب سے مہم چلانے والا سب سے بڑا چہرہ خود نریند رمودی کا تھا تو اپوزیشن کی جانب سے سب سے بڑا چہرہ راہل گاندھی تھے۔ انھوں نے دھواں دھار مہم چلائی اور بے شمار ریلیوں سے خطاب کیا۔ وزیر اعظم مودی ان کو اپنے بیانیہ میں پھانسنے کی کوشش کرتے رہے لیکن راہل نے پھنسنے سے انکار کر دیا۔ مودی نے جہاں متنازع اور قابل اعتراض بیانات دیے اور انتخابات کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی وہیں راہل نے ملک کو درپیش اصل مسائل اٹھائے اور حقیقی ایجنڈے پر روشنی ڈال کر مودی حکومت کو جواب دینے پر مجبور کیا۔
کانگریس نے اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا اور راہل گاندھی اور اکھلیش یادو نے پوری ریاست میں انتخابی مہم چلائی۔ دونوں نے کئی مشترکہ ریلیاں بھی کیں۔ ان دونوں کی ریلیوں میں بڑی تعداد میں عوام شریک ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ کئی مقامات پر بھیڑ کو کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا۔ لوگ راہل کی تقریر سننے کے لیے بے چین تھے۔ اور جب وہ ملک کو درپیش اصل چیلنجز کو اٹھاتے تو عوام کی جانب سے زبردست حوصلہ افزائی کی جاتی۔ انہی کے مانند پرینکا گاندھی نے بھی خوب انتخابی ریلیاں کیں اور وزیر اعظم مودی کے متعدد متنازع بیانات کے ایسے دنداں شکن جواب دیے کہ ان بیانات کی دھجیاں اڑ گئیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس انتخابی مہم کے دوران راہل گاندھی اپوزیشن کے سب سے بڑے رہنما کی حیثیت سے ابھرے تو یہ بھی کہنا پڑے گا کہ پرینکا گاندھی نے اپنی ایسی موجودگی درج کرائی کہ اسے تادیر یاد رکھا جائے گا۔
سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے بھی دھواں دھار ریلیاں کیں۔ انھوں نے بھی راہل گاندھی کے مانند بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کا کھل کر مذاق اڑایا اور نہ صرف ان کو بلکہ یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو بھی اپنی طنز و تشنیع کی دھار پر رکھا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ راہل گاندھی کے بعد اکھلیش یادو بھی اپوزیشن کے ایک بڑے لیڈر کی حیثیت سے ابھرے۔ انھوں نے جس طرح ٹکٹوں کی تقسیم میں اپنی ذہانت کا مظاہرہ کیا اس کی بھی داد دی جانی چاہیے۔ راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کی جوڑی نے وزیر اعظم مودی کو پوری مہم کے دوران پریشان کیے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جہاں پہلے صرف راہل گاندھی کو ہی شہزادہ کہتے تھے وہیں اب اکھلیش یادو کو بھی شہزادہ کہنے لگے۔
انھوں نے شہزادہ کا خطاب آر جے ڈی کے لیڈر اور بہا رکے سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کو بھی دیا اور وہ اپنی ریلیوں میں یہ بتانے کی ناکام کوشش کرتے رہے کہ ان شہزادوں نے ملک کی دولت لوٹ لی ہے۔ حالانکہ یہ دنیا جانتی ہے اور جس کا ذکر بار بار راہل گاندھی کرتے رہے ہیں کہ وزیر اعظم مودی نے ملک کی دولت اپنے چند دوستوں کو دے دی ہے۔ اس الیکشن میں کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے جس سنجیدی اور بالغ نظری کا مظاہرہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے جنوبی ہند کے ہونے کے باوجود ملک بھر میں ریلیاں کیں اور ہندی میں تقریریں کر کے مودی حکومت کو اپنی تقریروں کی دھار پر رکھا۔ ان رہنماؤں کے علاوہ شیو سینا کے اودھو ٹھاکرے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے جس طرے کانگریس اور این سی پی کے ساتھ مل کر انتخابی مہم چلائی وہ شیو سینا کی تاریخ کا نیا واقعہ ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اودھو ٹھاکرے بھی ایک بڑے لیڈر کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ این سی پی کے صدر شرد پوار کے بارے میں تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انھیں اگر اس وقت ہندوستان کا “بابائے سیاست” کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات ہندوستانی سیاست میں ایک موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس الیکشن نے بہت سے مفروضوں کو ختم کر دیا اور بہت سے فرضی بتوں کو پاش پاش کر دیا۔ حالانکہ انتخابات شروع ہونے سے قبل ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ انڈیا اتحاد نہیں بن پائے گا اور اپوزیشن جماعتوں کی ساری کوششیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ پولنگ کے پہلے مرحلے میں یہ اتحاد کچھ کمزور سا نظر آیا تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ مضبوط ہوتا چلا گیا اور ایک متبادل سیاست بن کر ابھرا۔ ایک ایسا متبادل جس نے بی جے پی اور آر ایس ایس کی نیندیں حرام کر دیں۔ لہٰذا “انڈیا اتحاد” کو اگر ملکی سیاست کے افق پر طلوع ہونے والا نیا سور کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔