دہلی ہائی کورٹ نے 29 مئی کو دہلی واقع جس ‘شیو مندر’ کو منہدم کرنے کا فیصلہ سنایا تھا، آج سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھنے سے متعلق حکم صادر کیا۔ جسٹس سنجے کمار اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی تعطیل بنچ نے دہلی ہائی کورٹ کے حکم میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔
دراصل دہلی ہائی کورٹ نے 29 مئی کو جمنا کے ڈوب علاقہ واقع اس شیو مندر کو منہدم کرنے کی اجازت دی تھی جو غیر قانونی طریقے سے تعمیر ہوئی تھی۔ اس قدیم شیو مندر کو منہدم کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ بھگوان شیو کو عدالت کے تحفظ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ‘ہم لوگ’ ہیں جو بھگوان شیو کا تحفظ اور آشیرواد چاہتے ہیں۔ اگر جمنا ندی کی سطح اور سیلاب کے میدان کو تجاوزات و ناجائز تعمیر سے پاک کر دیا جائے تو بھگوان شیو زیادہ خوش ہوں گے۔
واضح رہے کہ عرضی دہندہ قدیم شیو مندر و اکھاڑا سمیتی نے دعویٰ کیا تھا کہ مندر روحانی سرگرمیوں کا مرکز ہے، جہاں مستقل طور پر 300 سے 400 عقیدت مند آتے ہیں۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مندر کی ملکیتوں کی شفافیت، جوابدہی اور ذمہ دار مینجمنٹ کو بنائے رکھنے کے لیے 2018 میں سوسائٹی کا رجسٹریشن کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ متنازعہ زمین وسیع مفاد عامہ کے لیے ہے اور عرضی دہندہ سوسائٹی اس پر قبضہ کرنے اور اس کا استعمال جاری رکھنے کے لیے کسی اختیار کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ یہ زمین وزارت برائے شہری ترقی کے ذریعہ منظور زون ‘او’ کے لیے مقامی ترقیاتی منصوبہ کے تحت آتی ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ عرضی دہندہ سوسائٹی زمین پر اپنے مالکانہ حق، اختیار یا مفاد سے متعلق کوئی دستاویز دکھانے میں بری طرح ناکام رہی ہے اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مندر کی کوئی تاریخی اہمیت ہے۔