جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کے سہ روزہ اجلاس مورخہ23 تا 25 جون ، 2024 بمقام مرکز جماعت ، نئی دہلی میں مندرجہ ذیل قرار دادیں پاس کی گئیں:
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا احساس ہے کہ اس بار پارلیمانی انتخاب میں عوام کا مینڈیٹ بہت واضح ہے۔ یہ مینڈیٹ آمریت کے مقابلے میں جمہوریت، فسطائیت و فرقہ پرستی کے بالمقابل دستوری اقدار ،نفرت و تفریق کے مقابلے میں رواداری و تکثیریت اورتکبر کے بجائے انکساری کے حق میں ہے۔
شوریٰ کا احساس ہے کہ عوام نے حکمران پارٹی کو دوبارہ اقتدار نہیں دیا ہے بلکہ این ڈی اے کی مخلوط حکومت اور ایک مضبوط اپوزیشن کے حق میں ووٹ دیاہے۔ حکومت کے ذمے داروں کو اس عوامی مینڈیٹ کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے اور اس کے مطابق اپنے رویوں میں مناسب اصلاحات پیدا کرنی چاہییں۔
شوری کا یہ بھی احساس ہے کہ جہاں ملک کے شمالی اور مغربی حصوں میں بی جے پی کو اپنی فرقہ پرست پالیسیوں کی وجہ سے نقصان سے دوچار ہونا پڑا وہیں جنوب میں اس کی پکڑ مضبوط ہوئی ہے۔ جنوب کی ریاستوں کے عوام کی یہ ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنی ریاستوں میں فرقہ پرستی اور نفرت و تعصب کے اُس زہر کو عام ہونے نہ دیں جس نے ملک کے بقیہ علاقوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
ملک کی ایک بڑی ریاست اترپردیش جہاں گزشتہ کئی سالوں سے مذہبی منافرت کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد کا ماحول بنایا جارہا تھا، مسجد مندر کے نام پر دو طبقوں کے بیج دراڑ پیدا کی جارہی تھی، اورقانون کی حکمرانی کے بجائے ظلم و جبر اور تعصب اور قانون کے جانب دارانہ استعمال کی عام فضا پیدا کردی گئی تھی وہاں ریاستی عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے اس شر انگیز رجحان سے برأت و بیزارگی کا واضح اظہار کردیا ہے۔
مرکزی مجلس شوریٰ اپوزیشن کی جماعتوں سے بھی مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ان نتائج اور اس کے مینڈیٹ کو سمجھیں۔ سیکولر پارٹیاں اپنے پارٹی مفاد ات اور ذاتی انا سے بلند ہوکر ایک الائنس کی شکل اختیار نہیں کرتیں تو انہیں یہ کام یابی ہرگز نہیں ملتی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوام کا اپوزیشن پر اعتماد اُس وقت پیدا ہوا جب اس نے فرقہ پرستی، فسطائی رجحان اور نفرت و تفریق کی سیاست کے خلاف واضح اور جرأت مند موقف اختیار کیا۔ جن ریاستوں میں وہ فرقہ پرستی کے خلاف واضح موقف کے ساتھ سامنے آئے وہاں انہیں کام یابی ملی اور جہاں جہاں تذبذب، خوف و دباؤ اور لالچ و مفاد کی نفسیات کے شکار رہے وہاں انہیں اس بار بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ حالیہ انتخابات میں سول سوسائٹی کی غیر معمولی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، جس نے خاموشی اور حکمت و دانائی کے ساتھ ملک میں جمہوریت کے استحکام اور فرقہ وارانہ امن و ہم آہنگی کی بقا اور ظالمانہ پالیسیوں کی روک تھام کے لئے مسلسل اور ہمہ گیر جدوجہد کی اور عوامی شعور کو بیدار کیا۔ اسی طرح دلت اور پس ماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے بھی اس بار عوام کو درپیش بنیادی مسائل اور دستور کے تحفظ کو پیش نظر رکھ کر اپنی ترجیحات طے کیں اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔
مرکزی مجلس شوریٰ محسوس کرتی ہے کہ انتخابات میں مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی بڑی دانش مندی، حکمت،مومنانہ بصیرت اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ۔ انہیں الیکشن کے دوران ورغلانے،مشتعل کرنے اور ان کے جذبات کو بر انگیختہ کرنے کی منظم اور مسلسل کوششیں ہوتی رہیں لیکن انہوں نے اس جال سے خود کو محفوظ رکھا اور بہت سلیقے اور بیدار مغزی کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ یہ اجلاس اس کے لئے انہیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہے اور ملک کے موجودہ حالات میں آئندہ بھی اسی دانش مندانہ رویے کو جاری رکھنے کی اپیل کرتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی دینی و ملی جماعتوں، سماجی اداروں ، دانشوروں ، نوجوانوں اور دیگرافراد کی منظم اور فعال کوششوں کو بھی تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان سب کے حق میں دعائے خیر کرتا ہے۔
جماعت اسلامی ہند کے وابستگان نے بھی اپنی دیرینہ پالیسی اور روایات کے مطابق ملک کے تمام طبقات کے لیے عدل و قسط کے حصول اور امن و امان کے قیام اور فتنہ و فساد کے ازالے کے لیے مسلسل اور ہمہ جہت کوشش کی ہے۔ ہم اپنے عزیز وابستگان کی اس جدوجہد کی بھی دل کی گہرائیوں سے ستائش کرتے ہیں اور ان کوششوں کو جاری رکھنے کی اپیل کے ساتھ ان کے لیے اجر عظیم کی دعا کرتے ہیں۔
مرکزی مجلس شوریٰ کایہ اجلاس مرکزی حکومت اور حزب اختلاف دونوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عوام کے اس مینڈیٹ کا احترام کریں ، عوام کے بنیادی سوالات اور مسائل پر پوری سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں اور جمہوری قدروں اور روایات کو پیش نظر رکھیں۔ اجلاس یاد دلاتا ہے کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کا یکساں احترام کرے اور ملک میں فرقہ واریت اور طبقاتی کش مکش پیدا نہ ہونے دے۔ جب کوئی پارٹی یا الائنس حکومت بنالیتا ہے تو وہ ملک کے تمام عوام کے وسائل کا امین بن جاتا ہے اور اس پر سب کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان لوگوں کی بھی جنہوں نے اسے ووٹ دیا تھا اور ان لوگوں کی بھی جنہوں نے اس سے اختلاف کیا تھا۔ لہذا حکومت کو ملک کے شہریوں کے درمیان کوئی تفریق و امتیاز نہیں برتنا چاہیے۔
مجلس شوریٰ یہ سمجھتی ہے کہ اس وقت این ڈی اے میں شامل سیکولر سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اگر وہ حکومت کی تائید کررہی ہیں تو اپنے اصولوں کی وجہ سے یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ حکومت جمہوری اقدار و روایات کی سختی سے پابندی کرے، جمہوری اداروں کی خود مختاری اور عوام کے جمہوری حقوق اور آزادیوں میں دست درازی سے باز آجائے اورملک کے ہر طبقے کی مشکلات و مسائل کو سنجیدگی سے حل کرے۔ کرونی کیپٹلزم اور متعصب فرقہ پرستی کی پالیسیوں کو ترک کرتے ہوئے ایسی پالیسیوں کو فروغ دیا جائے جن سے وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو۔ سماج کے کمزور و پس ماندہ طبقات کا امپاورمنٹ ہو اوراقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کا بھرپور احترام کرتے ہوئے ان کے اعتماد کو بحال کیا جاسکے۔