نئی دہلی: نریندر مودی دور حکومت کی تیسری پاری شروع ہوتے ہی ملک بھر میں مسلمانوں پر حملوں اور انکی ماب لنچنگ کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ کا عمل بلاشبہ فاشسٹ طاقتوں نے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے ڈیزائن کیا ہے اور اس کی اشد ضرورت ہے کہ ان مظالم کے خلاف سخت ترین الفاظ میں آواز بلند کی جانے کے ساتھ ساتھ ان کا جواب آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کی تدابیر پر کام کرنے سے بھی کیا جائے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے واقعات کانگریس کی زیر قیادت چل رہی ریاستوں میں بھی رونما ہوۓ ہیں۔
ان مسلم مخالف پرتشدد واقعات پر خاموشی اختیار کرنے پر سیکولر طاقتوں کے خلاف عوام میں جو غصہ پنپ رہا ہے اس کی معقول وجوہات ہیں٬ لیکن انڈین نیشنل کانگریس میں براجمان تقریباً تمام مسلمان جو مسلم قوم کے نام پر مزے سے ملائی کھا رہے ہیں وہ مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کیۓ ہوئے ہیں٬ یہ ایک اہم نکتہ ہے جسکو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
اب وقت آگیا ہے کہ کانگریس قیادت پر سوال اٹھانے کے بجائے ایسے پالتو چہروں کے خلاف آواز بلند کرنے کا عمل شروع ہو کیونکہ درحقیقت یہ دکھاوے کے کھلونے اپنی سیاسی بقاء و اپنی اولادوں کے سیاسی مستقبل کو محفوظ کرنے کے ایجنڈے پر مصروف عمل رہنے کی وجہ سے مسلم مسائل پر کانگریس قیادت کی بے عملی اور خاموشی کے لیے زیادہ ذمہ دار ہیں۔
کانگریس کی اعلی قیادت کو یہ بھی خوب سمجھ آنا چاہئے کہ 2024 کے جنرل انتخابات میں پارٹی کو کمیونٹی سے جو حمایت ملی تھی اس میں ان چاپلوسوں کی لچھےدار تقریروں کے علاوہ کوئی کردار نہیں ہے اور یہ کہ ان کی تقاریر نہ بھی ہوتیں تب بھی دستور ہند کے دفاع کے لئے مسلم کمیونٹی سیکولر قیادت کو مضبوط کرنے کے لئے دوسری جماعتوں کے ساتھ مسلمانوں کو ووٹ کرتی۔