مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
نشہ ام الخبائث یعنی سارے برائیوں کی جڑ ہے، قرآن کریم میں اسے ناپاک شیطانی عمل قرار دیا ہے، بہار میں شراب بندی قانوناً ہے، لیکن دوسری نشہ آور اشیاء اس پابندی کے دائرے میں نہیں آتیں اور ان کا استعمال دھڑلے سے ہورہا ہے، ان پر کوئی بازپرس نہیں ہے، دوسری ریاستوں میں بھی نشہ آور اشیاء پر کوئی پابندی نہیں ہے، اس لیے کیا بوڑھے، کیا جوان، سب اس لت کے شکار ہورہے ہیں، جوانوں میں اس کا چلن قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے، مختلف ایجنسیوں کے سروے کے مطابق ہیروئین، براؤن شوگر، کوکین وغیرہ کی لتیں کچھ ریاستوں میں حد سے زیادہ ہیں، ہر دس میں سے چار مرد اور ہر سو میں چار خواتین تمباکو سے بنی کسی نہ کسی چیز کا استعمال کر رہی ہیں، گذشتہ ایک ماہ میں ہر چار میں سے ایک مرد نے شراب کا استعمال نقصان دہ طریقوں سے کیا اور کئی کی جانیں چلی گئیں، بھانگ کا استعمال دو فی صد اور گانجہ کا استعمال آتھ فی صد لوگ کر رہے ہیں، دو اعشار یہ ایک فی صد لوگ ہیروئن، ڈوڈا، کوڈنی پر مشتمل کف سیرپ، افیم اور اس سے بنی دوسری اشیاء سے اپنی اس لت کو پورا کر رہے ہیں، ایک اعشار یہ چودہ فی صد لوگ وہ ہیں جو ہیروئن اور دیگر دواؤں کا استعمال نشے کے لیے کرتے ہیں، صرف نوجوانوں کی بات کریں تو پندرہ سے چوبیس سال کے نوجوانوں میں یہ لت ہر آٹھ میں سے ایک کے اندر پائی جارہی ہے، ہر آٹھ میں ایک لڑکا کھینی اور گٹکا استعمال کر رہا ہے، انیس سال سے کم عمر کے ایسے بچے ہرسو میں ایک ہیں، جو شراب کے ذریعہ نشہ حاصل کرتے ہیں، گانجہ، بھانگ افیم اور سونگھنے والی چیزوں سے نشہ حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی اسی تناسب میں ہے۔
نشہ کی اس بڑھتی لت سے جسمانی اعضاء تو برباد ہوہی رہے ہیں، دل ودماغ بھی اس سے متاثر ہوتا ہے، کوکن، افیم بھانگ لینے والوں کی حالت اس قدر غیر ہوجاتی ہے کہ وہ پاگلوں کی طرح رہنے لگتے ہیں، نشہ کی وجہ سے کمائی کی ساری رقم اس پر خرچ ہوجاتی ہے اور خانگی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، درہم برہم کا مطلب صرف کھانا خرچہ کی کمی نہیں، بیوی بچے بھی بُری طرح متاثر ہوتے ہیں، نشہ کی حالت میں مرد اپنی عورتوں کو مارپیٹ کرنے سے باز نہیں آتا، جس سے عورت کے دل میں ایسے مرد سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے، طلاق کے بیش تر واقعات نشے میں دُھت ہونے کی وجہ سے پیش آتے ہیں اور خاندان بکھر کر رہ جاتا ہے، سرکار نے اس مصیبت سے نجات دلانے کے لیے بہت سارے مراکز کھول رکھے ہیں، جہاں یہ بُری لت چھوڑنے کے لیے تدبیریں کرائی جاتی ہیں، لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جیسے ہی وہاں سے آزاد ہوا، پھر سے وہ پُرانی روش پر واپس آجاتا ہے۔
اس بیماری کو دور کرنے کے لیے مذہبی اقدار اور تعلیمات سے ان کو واقف کرانا ضروری ہے، اس کے مضر اثرات سے واقفیت اور تدریجاً اس کے تدارک کی کوشش بھی، کارگر ہوتی ہے، اہل اللہ کی صحبت بھی اس عادت کو چھڑانے میں معاون اور مؤثر ہوتی ہیں، کہا تو یہ جاتا ہے کہ ” چُھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی“ لیکن دنیا کو معلوم ہے کہ جگر مرادآبادی جیسے بلانوش کو حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی صحبت نے اس قدر شراب سے متنفر کردیا کہ جب ڈاکٹروں نے کہا کہ نہیں پئیں گے تو مر جائیں گے تو انہوں نے معالجین سے پوچھا کہ پئیں گے تو کتنے دن زندہ رہیں گے، کہا یہی کوئی دس پانچ سال، کہنے لگے جب مرنا ہی ہے تو پانچ سال پہلے اور پانچ سال بعد کیا، میں تو اسے منہ نہیں لگاؤں گا، چاہے مرجاؤں، اس کا مطلب ہے کہ ناممکن کچھ نہیں ہے، ضرورت سخت محنت کی ہے تاکہ نشہ کی یہ لت چھوٹ جائے اور سماج اس بُرائی سے بچ سکے۔