واقعۂ ہجرت کے سبق آموز پہلو ، جس سے اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہوتا ہے!

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

اسلامی کیلنڈر کا نیا سال شروع ہوچکا ہے، اس کلینڈرکے لئے پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے واقعہ ہجرت کو بنیاد بنایا گیا ہے ؛ اسی لئے اس کو ہجری تقویم کہتے ہیں ، اسلامی تقویم کی بنیاد رکھنےکا سہرا سیدناحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر ہے اور اکابر صحابہ کے مشورہ سے سیرۃ نبوی کے اس اہم واقعہ کا اس کیلنڈر کے لئے انتخاب عمل میں آیا ہے ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے بڑھ کر انسانیت کے لئے کیا مژدۂ جاں فزا ہوسکتا ہے ؟ غزوہ ٔ بدر بعثت محمدی کے بعد باطل کے مقابلہ حق کی فتح مندی اور سربلندی کا پہلا واقعہ ہے ، فتح مکہ تاریخ نبوی میں مسلمانوں کی سب سے بڑی فتح تھی ، بلکہ فتح مبین ہے ، جس نے پورے جزیرۃ العرب کی سرکش گردنوں کو اسلام کی چوکھٹ پر خم کردیا تھا ، حجۃ الوداع آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفقاء کا سب سے بڑا اجتماع اور اُمت سے آپ کی وداعی ملاقات کا دن تھا ، آپ کی وفات سے بڑھ کر کون سا سرمایۂ غم ہوسکتا ہے ، جو اس اُمت کو ہمیشہ گھلاتا رہے؛ لیکن ان تمام واقعات کو چھوڑ کر صحابہ نے واقعہ ٔ ہجرت کا اس اہم مقصد کے لئے انتخاب کیا ، اس سے انداز کیا جاسکتا ہے کہ ہجرت کے واقعہ میں اُمت کے لئے کس قدر موعظت اور تذکیر کا سامان ہے ، —- آیئے ! آج ہم اس سبق کو تازہ کریں اور اپنی عملی زندگی میں اس سے روشنی حاصل کریں۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کے ہر گھر اور در تک اسلام کا پیغام پہنچا چکے ، مکہ کے گرد وپیش کے علاقوں میں بھی اس دعوت حق کی دستک دی اور حج کے اجتماعات اور عکاظ کے میلوں کے ذریعہ عرب کے ایک ایک قبیلہ کی خوشامد فرمائی کہ وہ اس دعوت پر لبیک کہیں تو ہر طرف سے رد و انکار ہی کی صدا آئی ، طنز و تشنیع ہی کے تیر پھینکے گئے اور مکہ و طائف کے لوگوں نے تو مسلمانوں کو ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ، نا اُمیدی اور انکار کی اس گھنگھور گھٹا میں روشنی کا صرف ایک چراغ تھا ، جو مدینہ کی سرزمین میں جلا تھا ، جس نے کھلے طورپر اس دعوت کا استقبال کیا اور مکہ کے مظلوم و ستم رسیدہ مسلمانوں کو اپنے گھر میں پناہ دینے کے پیشکش کی ؛ چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محبت و وفا کی اس سرزمین کی دعوت کو قبول فرمایا اورنبوت کے تیرہویں سال مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دی ، چند ہی ماہ میں آہستہ آہستہ اکثر مسلمان مدینہ کوچ کر گئے ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کچھ مجبور مسلمان ہی تھے ، جو اَب مکہ میں باقی رہ گئے تھے — اس سے معلوم ہواکہ ہجرت سے پہلے دعوت کا مقام ہے ، جب کسی قوم پر دعوتِ دین کا حق ادا کردیا جائے ، اور ان پر حجت پوری ہوجائے ، تو اپنے دین کی حفاظت اور دوسری قوموں تک دین کی دعوت کی غرض سے وطن عزیز کو چھوڑنا ہجرت ہے ، بہتر معاش کی تلاش میں اور امن و امان کی طلب میں ترک وطن ہی کا نام ہجرت نہیں ، جیساکہ آج کل ’’ مہاجر ‘‘ کا لفظ ہر تارک وطن کے لئے بول دیا جاتا ہے ۔

نبوت کے چودہویں سال خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت کی اجازت ملی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کا ارادہ فرما لیا ، اس ارادہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو صاحب زادیاں حضرت اسماء ؓاور ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے سوا کوئی باخبر نہیں تھا ، (بخاری : باب ہجرۃ النبی ا واصحابہ الی المدینہ ، حدیث نمبر : ۳۹۵) —- اس سے رازداری کا سبق ملتا ہے ، نازک فیصلوں کے اظہار میں احتیاط اور پردہ داری ضروری ہے ، افسوس کہ آج اُمت میں اس کا فقدان ہے ، ہم ابھی کوئی اقدام نہیں کرتے؛ لیکن اپنی اشتعال انگیز سرخیوں سے ذرائع ابلاغ کو پہلے ہی گرما گرم مواد فراہم کر دیتے ہیں ، یہ جرأت نہیں بلکہ بے وقوفی ہے اور آج ہم نے قومی زندگی میں یہی راستہ اختیار کیا ہوا ہے ۔

اہل مکہ کو اندازہ ہوگیا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہجرت کرنے والے ہیں اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچ کے مدینہ چلے گئے ، تو پھر مسلمانوں کو کچلنا ممکن نہ ہوگا؛ چنانچہ انھو ںنے مشورے کئے اورشب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بناکر بارگاہ نبوت کا محاصرہ کرلیا ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کی طرف سے اس واقعہ کی اطلاع دی گئی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اب بھی اہل مکہ اوراپنے جانی دشمنوں کی بہت سی امانتیں تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ امانتیں سپرد کیں اوران سے خواہش فرمائی کہ آج کی شب وہ آپ کی استراحت گاہ میں وہی چادر اوڑھ کر آرام کریں ، جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوڑھا کرتے تھے؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مشت خاک پھینکتے اورسورہ ٔ یٰسین کی ابتدائی آیات پڑھتے ہوئے نکل آئے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بستر مبارک پر محوخواب ہوئے ، —- اس میں امانت و دیانت کا کتنا بڑا سبق ہے ! غلامانِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اخلاق وکردار اور دیانت واعتبار کی نسبت سے اس مقام پر ہونا چاہئے کہ اس کا جانی دشمن بھی اس کو اپنی امانتوں کے لئے سب سے محفوظ اور مامون سمجھے کہ یہی لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے کی کلید ہے ، پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی ملاحظہ فرمائیے ، کہ بقول علامہ شبلی ؒنعمانی ’’آج رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا بستر خواب قتل گاہ کی زمین ہے؛ لیکن فاتح خیبر کے لئے قتل گاہ فرش گل تھا ‘‘ یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ جاننے کے باوجود کہ یہ آرام گاہ ان کے قتل گاہ میں تبدیل ہوسکتی ہے اوریہ بسترِ خواب مرگ کا بستر بھی بن سکتا ہے ، بہ سر و چشم یہ خطرہ مول لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل فرمائی ۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۱۳ ربیع الاول کو پیر کے دن رات ہی کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے اور وہاں سے تین میل چل کر غارِ ثور کی پناہ لی ، پھر تین دن یہاں چھپے رہے ، اس کے بعد مدینہ تشریف لے گئے ، اس مختصر مدت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے خانوادہ نے قربانی کے ایسے نقوش جاوداں چھوڑے ہیں کہ شاید ہی آسمان کی آنکھوں نے اس کی کوئی مثال دیکھی ہو ، گھر میں جو کچھ تھا ، پانچ چھ ہزار درہم ، سب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساتھ لے لیا اور گھر والوں کے لئے اﷲ اور اس کے رسول کا نا م چھوڑ آئے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد حضرت ابوقحافہ بہت سن رسیدہ اور نابینا تھے ، انھوں نے اپنی پوتیوں سے بے چین ہوکر کہا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو ہم لوگوں کی گذران کے لئے کچھ چھوڑا بھی نہ ہوگا ؟ حضرت اسماء اورحضرت عائشہ بہت کم عمر تھیں ؛ لیکن آخر ان کی رگوں میں خونِ صدیق رواں تھا، کچھ مٹی ، پتھر وغیرہ کے ٹکڑے گھر کے ایک کونے میں جمع کردیئے ، جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ درہم ودینار رکھتے تھے ، ان کو چند چٹائیوں سے ڈھانک دیا اور اپنے بوڑھے نابینا دادا کولے جاکر تشفی دلائی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم لوگوں کے لئے بہت کچھ چھوڑ کر گئے ہیں ، حضرت ابوقحانہ نے واقعی اسے سچ جانا ، کہنے لگے : پھر تو کوئی حرج نہیں ، حضرت اسماء کہتی ہیں کہ میں نے یہ محض اپنے بوڑھے دادا کی طمانینت کے لئے کیا تھا : ولکن اردت ان اسکن الشیخ بذالک ، ( البدایہ والنہایہ : ۳ / ۱۷۹ ) معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اپنی بچوں کی تربیت اس انداز سے کرنی چاہئے کہ وہ دین کے لئے پیش آنے والے سرد و گرم میں والدین کا ساتھ دے سکیں ۔

جب غارِ ثور میں پہنچے ، تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود آگے بڑھ کر غار کو ٹٹول کر دیکھا کہ کہیں غار میں کوئی درندہ یا سانپ وغیرہ تو نہیں ہے ؟ تاکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے محفوظ رہیں؛ بلکہ بعض روایات میں ہے کہ ایک سوراخ سے سانپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ڈس بھی لیا ، ثور کو جاتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کیفیت یہ تھی کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے آجاتے اور کبھی پیچھے ، کبھی دائیں آجاتے اور کبھی بائیں ، حضور نے یہ کیفیت دیکھی تو سبب دریافت فرمایا : عرض کناں ہوئے کہ مجھے جس سمت سے آپ پر خطرہ محسوس ہوتا ہے ، میں ادھر آجاتا ہوں؛ تاکہ اگر کوئی مصیبت آئے تو میں اس مصیبت کو سہوں اور آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محفوظ رہیں ، جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نعل مبارک اُتارلیتے ، وہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے کاندھوں پر اُٹھالیتے ، ( حوالہ ٔ سابق ) —- قربان جائیے! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صدق و صفا اورجاں نثاریٔ محبت پر ، یہ محبت رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی میراث ہے ، جو حفاظت ایمان کے لئے متاع گراں مایہ ہے اور جو فاسق و فاجر اور دین سے ناواقف و نابلد کلمہ گو کوبھی ایمان پر ثابت قدم رکھتی ہے ۔

تین دنوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ کی سمت عام راستہ کو چھوڑ کر ایک غیر معروف راستہ سے نکلے ، موقع بہ موقع گذرنے والوں سے ملاقات ہوتی ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تجارتی تعلقات کی بناء پر بڑے متعارف تھے ، لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھتے کہ آپ کے ساتھ یہ کون صاحب ہیں ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ذو معینین جملہ کہتے : دلیل یدلنی ایک راہ بتلانے والا ہے، جو ہمیں راہ بتلارہا ہے ، پوچھنے والے سمجھتے کہ ریگستان میں چوںکہ راہبر کی ضرورت پڑتی تھی ، وہی ’’ راہبر ‘‘ مراد ہے؛ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا منشا ہوتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے روحانی رہبر ہیں ، —- اسی کو حدیث میں ایمانی فراست سے تعبیر کیا گیا ہے ، کہ مومن کو معاملہ فہم ، خطرات کے بارے میں محتاط اور امکانی اندیشوں کے بارے میں چوکنا ہونا چاہئے اور ایسی بات کہنی چاہئے کہ جو حقیقت کے مطابق بھی ہو اور کسی آزمائش کا سبب بھی نہ بنے ۔

واقعۂ ہجرت میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اشارہ کیا کہ وہ ہجرت میں ان کے رفیق ہوں گے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے ، حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ غایت مسرت میں بھی آنکھیں اشک بداماں ہوجاتی ہیں؛ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو اونٹنیاں خاص اسی مقصد کے لئے خریدیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض گذار ہوئے کہ ایک اونٹنی قبول فرمالی جائے؛ لیکن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بہ اصرار اس کی قیمت ادا فرمائی ، غالباً حیات نبوی میں دو مواقع ایسے ہیں کہ جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہ اصرار قیمت ادا کی ہے ، ایک یہ موقع اوردوسرے مسجد نبوی کی زمین خریدنے کا موقع —- معلوم ہوا کہ جب کوئی چیز دینی اغراض کے لئے لی جائے ، تو اس میں انسان کو دوسروں کی عطایا پر قناعت کرنے کی بجائے بہ حد گنجائش خود اپنا مال پیش کرنا چاہئے ، کہ یہ اس کے لئے سرمایہ سعادت اور زاد ِآخرت ہے۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کی سرزمین آپ کے لئے چشم براہ تھی ، مدینہ کے چپہ چپہ میں عید کا سا سماں تھا ، لڑکے اور لڑکیاں خیرمقدمی نغمے گا رہے تھے ، جوان اور بوڑھے ، ہتھیار سجائے اور آنکھیں بچھائے راہ میں کھڑے تھے اور ہر شخص کی آرزو تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے گھر کو اپنے قیام کی سعادت بخشیں ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان کے سامنے رکی اور آپ وہیں فروکش ہوگئے ،ایسا نہ تھا کہ اہل مکہ کے لئے اپنا وطن چھوڑنا کوئی خوشگوار بات تھی ، صحابہ کو مکہ کی ایک ایک چیز یاد آتی تھی اور دل دکھاتی تھی ، موسم کی ناموافقت کی وجہ سے صحابہ بیمار بھی پڑ رہے تھے ، بعض صحابہ شدت بخار میں بھی مکہ کی پہاڑیوں یہاں تک کہ مکہ میں اُگنے والی گھاس تک کو یاد کرتے تھے ، خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب مکہ سے نکلے ، تو مکہ کی پہاڑیوں پر نگاہ حسرت ڈالی اور فرمایا کہ ہم یہاں سے خود جانا نہیں چاہتے تھے ۔

یہ اعزہ ٔ و اقارب اور ارض وطن کو چھوڑنا اس لئے تھا کہ دوسروں کو اسلام کی دعوت دینے کے مواقع حاصل ہوں اور خود اپنے ایمان کی حفاظت ہو ، مسلمانوں کی ایک ایسی بستی ہو ، جہاں ان کا اپنا ماحول ہو ، اپنی سماجی زندگی ہو اور وہ اپنی ثقافت کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ شرعاً ہندوستان سے کسی اور ملک کو ہجرت کی مسلمانوں کے لئے ضرورت نہیں؛ بلکہ ان کا فریضہ ہے کہ وہ اسی ملک میں رہ کر دعوت دین کا فریضہ انجام دیں ، اگر ہم اس فریضہ سے پہلو تہی کریں اور راہ فرار اختیار کریں ، تو شاید عنداﷲ ہم اس سلسلہ میں جواب دہ ہوں گے؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اندرون ملک ہجرت کا نظام بنانا چاہئے ، ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی کثیر آبادی کے جزیرے ہیں ، اگر قرب وجوار کے مسلمان بتدریج ان مقامات پر منتقل ہوجائیں تو اس یکجا آبادی کی وجہ سے ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی بھی حفاظت ہوگی ، ان کی سیاسی اور معاشی قوت میں بھی اضافہ ہوگا اور وہ اپنی تہذیب و ثقافت کو بھی محفوظ رکھ سکیں گے ، یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ جہاں مسلمانوں کی قلیل آبادی غیر مسلموں کے درمیان بستی ہے ، وہاں بتدریج وہ غیر مسلم تہذیب میں جذب ہوتے چلے جاتے ہیں اور ارتداد کے فتنے بھی پھوٹ پڑتے ہیں ، اور اگر مسلمان اپنے دین پر استقامت کا ثبوت دیں تو فسادات ہونے لگتے ہیں اور وہ سیاسی اعتبار سے بے وزن اور معاشی اعتبار سے مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں ؛ اس لئے اہل ثروت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے غریب اور مفلوک الحال مسلمان بھائیوں کو یکجا ہونے میں مدد دیں اور انھیں آباد کریں ، اس سے نہ صرف یہ کہ ان غریب مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت ہوگی؛ بلکہ خود ان اہل ثروت مسلمانوں کی بھی جان ومال اور کاروبار کی حفاظت ہوسکے گی ۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com