نئی دہلی: آج 14 جولائی 2024 بروز اتوار دہلی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس منعقد ہوا۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر بورڈ نے صدارت کی اور بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے کاروائی چلائی۔ بورڈ کے نائب صدورحضرت مولاناسید ارشد مدنی، جناب سید سعادت اللہ حسینی، پروفیسر ڈاکٹر سید علی محمد نقوی اور بورڈ کے سکریٹریز مولانا احمد ولی فیصل رحمانی ( بہار) اور مولانا محمد یسین علی عثمانی ( بدایوں ) بورڈ کے خازن پروفیسر محمد ریاض عمر کے علاوہ صدر جمیعت علماء ہند مولانا سید محمود اسعد مدنی، امیر مرکزی جمیعت اہل حدیث مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، سینئر ایڈوکیٹ جناب یوسف حاتم مچھالہ، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس ، ترجمان بورڈ (دہلی)، مولانا عتیق احمد بستوی، ممبر پارلیمنٹ جناب اسدالدین اویسی، مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ڈاکٹر ظہیر آئی قاضی (ممبئی)، محترمہ عطیہ صدیقہ، پروفیسر مونسہ بشریٰ عابدی ،محترمہ نگھت پروین خان صاحبہ اور ملک بھر سے کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اجلاس میں درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں۔
1۔ بورڈ کی مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ مسلم مطلقہ کے نفقہ سے متعلق سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ قانون شریعت سے راست متصادم ہے ۔ مسلم پرسنل لابورڈ اس بات کا اعادہ کر نا ضروری سمجھتا ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ” اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ چیز طلاق ہے ” لہذا حتی المکان ازدواجی زندگی کو بنائے رکھنے کے لئے قرآن میں تاکید کی گئی ہے۔طلاق سے پہلے معاملات کو درست رکھنے سے متعلق بھی قرآن مجید میں ہدایات موجود ہیں۔ لیکن تمام کوششوں کے باوجود ساتھ رہنا دشوار ہوجائے، تواحسن طریقہ سے جدائی ہی ایک معقول اور قابل عمل راستہ رہ جاتا ہے۔ عاملہ کا احساس ہے کہ اگر رشتہ سے نکلنے کو مشکل اور نا قابل عمل بنا دیا جائے تووہ خواتین کے لئے ہی مسائل پیدا کرے گا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ خواتین کے مفاد میں ہے۔ عاملہ یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتی ہے یہ فیصلہ نہ خواتین کے لئے مفید ہے اور نا ہی قابل عمل بلکہ اس سے اندیشہ ہے کہ ان کی زندگی مزید بدتر ہو جائے گی۔ ویسے بھی انسانی عقل میں یہ بات نہیں آسکتی کہ جب رشتہ ہی باقی نہ رہے، تو مرد پر مطلقہ کی کفالت کی ذمہ داری کیسے آسکتی ہے۔ مجلس عاملہ صدر بورڈ کو مجاز کر تی ہے کہ وہ اس کے تدارک کے لئے جتنی قانونی اور جمہوری ذرائع موجود ہوں ان کو استعمال کر تے ہوئے اسے بدلوانے کی کوشش کریں۔ ہندوستان میں جس طرح ہندؤں کو اپنے پرسنل لا ( ہندو کوڈ لاء) کے مطابق زندگی گذارنے کا حق ہے اسی طرح مسلمانوں کے لئے شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 موجود ہے۔ملک کے دستور نے بھی تمام مذہبی اکائیوں کو اپنے مذہب کے مطابق (آرٹیکل 25) زندگی گزرانے کا بنیادی حق فراہم کیا ہے۔
2۔ مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ملک کے لئے یونیفارم سول کوڈ بالکل موزوں اور مناسب نہیں ہے، نیز اس طرح کی کوششیں ملک کے دستور کی روح کے بھی منافی ہیں۔ اقلیتوں کو دستور میں جوضمانتیں دی گئی ہیں ،یونیفارم سول کوڈ اس کو ختم کر کے رکھ دے گا؛ اس لئے نہ مرکزی حکومت کو نہ کسی ریاستی حکومت کو یونیفارم سول کوڈ کو نافذکر نے کی بات کر نی چاہیے۔ یہ مسلمانوں کے لئے نا قابل قبول ہوگا۔
یہ اجلاس اتراکھنڈ اسمبلی سے منظور یونیفارم سول کوڈ کو غلط، غیر ضروری اور دستور ہند میں دی گئی ضمانتوں کے خلاف سمجھتا ہے۔ اتراکھنڈ یو سی سی میں لیون ریلیشن شپ کو بھی جائز قرار دیا گیاہے جو نہ صرف اخلاقاََ بلکہ مذہباََ بھی غلط ہے۔ بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس قانون کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گا ۔ بورڈ کی لیگل کمیٹی اس کی تیاری کر رہی ہے۔
3-اوقاف دینی اور خیراتی مقاصد کے لئے مسلمانوں کے دیئے ہوئے مقدس اثاثے ہیں اور مسلمان ہی اس کے متولی و منتظم ہوتے ہیں اور وہی اس سے استفادہ کے مستحق بھی ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اوقاف کی بہت سی اراضی حکومت کے استعمال میں ہیں؛ اس لئے اجلاس حکومت سے یہ مطالبہ کر تا ہے کہ وہ بازار کی شرح (مارکیٹ ریٹ) کے لحاظ سے ان املاک کا کرایہ ادا کرے اور منشاء وقف اور قانون شریعت کے مطابق اس رقم کو خرچ کر ے تاکہ مسلمان اپنے بزرگوں کی محفوظ کی ہو ئی اس دولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اسلام کا تصور یہ ہے کہ جب کوئی چیز وقف کر دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے، مسلمان خود بھی اس کو اپنی خواہش کے مطابق اپنی ذات پر استعمال نہیں کر سکتا، بلکہ اس کو مقررہ مصرف میں ہی استعمال کر نا واجب ہے- یہ شریعت کا حکم بھی ہے اور ملکی قانون بھی اس کو تسلیم کر تا ہے- چنانچہ آزادی کے پہلے ہی وقف کا قانون بنا، مختلف مواقع پر اس میں ترمیمات ہو تی رہیں، یہاں تک کہ 2013 میں قانون نے آخری شکل اختیار کی۔ یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کر تا ہے کہ وقف کے اس قانون پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کیا جائے اور وقف بورڈ کو اپنی املاک کے حصول کے لئے عدالتی اختیارات دئے جائیں؛ تاکہ وہ وقف کی املاک پر ناجائز قبضوں کو ہٹا سکیں۔ نیز یہ اجلاس قانون وقف کو منسوخ کر نے کےہر اقدام کی سختی سے مذمت کر تا ہے۔
یہ اجلاس اوقاف کے متولیوں سے بھی مطالبہ کر تا ہے کہ وہ خود بھی اوقافی جائیدادوں کے استعمال سے بچیں، دوسروں سے بھی ان کو بچائیں اور وقف کی املاک کے سلسلہ میں خاص طور پر اللہ سے ڈریں؛ کیونکہ وقف کی جائیداد پر ناجائز قبضہ اوروقف کر نے والے کی منشاء کے خلاف ذاتی مفاد کے لئے اس کا استعمال بدترین خیانت اور اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب ہے۔ یہ اجلاس یہ بھی واضح کر نا ضروری سمجھتا ہے کہ ہمارے ملک میں تمام مذہبی اکائیوں کے endowment کو قانون کا تحفظ حاصل ہے، یہ رعایت صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں ہے۔
4۔ مجلس عاملہ کا یہ اجلاس وارانسی کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عید گا ہ کے تعلق سے نچلی عدالتوں میں پیدا کئے گئے نئے تنازعات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اجلاس کا احساس ہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق 1991 کے قانون کے ذریعہ ملک کی مقننہ نے ہر نئے تنازعہ کا دروازہ بند کر دیا تھا۔ اس اجلاس کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ سپریم کورٹ، جس نے بابری مسجد کا فیصلہ دیتے وقت اس قانون کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ اس کے ذریعہ ہر نئے تنازعہ کا راستہ بند کر دیا گیا ہے، وہی مسلمانوں کی متھرا اور کاشی سے متعلق اپیلوں کو نظر انداز کر رہا ہے، اگر ان چور دروازوں کو بند نہیں کیا گیا تو پھر اس بات کا اندیشہ ہے کہ شر پسند قوتیں ملک کے مختلف علاقوں میں نئے نئے فتنے اور تنازعات کھڑے کرتی رہیں گی۔ متھرا کی عید گاہ سے متعلق1968 میں کرشنا جنم بھومی ٹرسٹ اور شاہی عید گاہ ٹرسٹ کے درمیان ایک معاہدہ کے ذریعہ اس تنا زعہ کو حل کر لیا گیا تھا- مسلم پرسنل لا بورڈ عدالت عظمیٰ سے یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ وہ ان نئے فتنوں کا دروازہ بند کر کے ملک میں امن و امان اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے گا۔
اسی طرح دہلی کی سنہری مسجد کے تعلق سے این ڈی ایم سی نے ٹرافک کا بہانہ بناکر اس کی شہادت کا جو ناپاک منصوبہ بنا یا تھا، سردست عدالت نے اس پر روک لگا دی ہے؛ تاہم اجلاس کا احساس ہے کہ سنہری مسجد اور لنٹن زون میں دیگر 6 مساجد شرپسندوں کے نشانے پر ہیں، بورڈ یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہے کہ یہ تمام مساجد اوقاف کی ان 123 جائیدادوں میں شامل ہیں، جن پر عدالت نے اسٹے لگا رکھا ہے- اسی طرح سنہری مسجد اور دیگر مساجد ہیری ٹیج تعمیرات میں بھی شامل ہیں، لہذا ان سے چھیڑ چھاڑ ملک کی تاریخی وراثت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگی۔
5- مجلس عاملہ کو اس پر شدید تشویش ہے کہ ملک میں ہجومی تشدد کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے- پارلیمانی انتخاب کے نتائج نے یہ عندیہ دیا تھا کہ ملک کے عوام نے نفرت و بغض و عناد پر مبنی ایجنڈے پر اپنی شدید ناراضگی برملا اظہار کیا ہے- اور یہ توقع بنی تھی کہ شاید یہ ہیجانی دور اب ختم ہوجائے گا- عاملہ سمجھتی ہے کہ اگر ملک میں قانون کی بالادستی کے ساتھ اسی طرح کھلواڑ ہوتا رہا تو ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ماحول بن جائے گا، اور لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر پولس اور انتظامیہ سے بے نیاز ہوجائیں گے۔ بورڈ مرکزی و ریاستی حکومتوں، پولس و سیکورٹی ایجنسیوں سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ اس فتنہ سے سختی سے نمٹیں اور ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں- مجلس عاملہ کو اس بات پر بھی شدید تشویش ہے کہ حزب اختلاف نے اس اہم اور انسانی مسئلہ کی سرکوبی کو اب تک اپنی توجہ کا مرکز نہیں بنایا ہے-
6- بورڈ کی مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ فلسطین کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے، جہاں اسرائیل کی شکل میں ایک غاصب قوت ملک کے اصل باشندوں کو جلاوطن کر نے پر تلی ہو ئی ہے۔ اس نے جبروظلم کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔وہ مسلسل نسل کشی اور وحشیانہ مظالم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس جنگ کی ابتداء 7 اکتوبر 2023 سے نہیں، بلکہ جون1967 سے ہو ئی ہے، جب اسرائیل کسی قانونی جواز کے بغیر پورے فلسطین، مغربی کنارہ، غزہ اور مسلمانوں کی مقدس مسجد ” مسجد اقصیٰ” پر بھی قابض ہو گیا تھا- اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل بارہا فیصلہ کر چکی ہے کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں کو خالی کر دے، مگر امریکہ اور برطانیہ جیسی استعاری طاقتوں کی شہہ پر اسرائیل نے اب تک اس پر عمل نہیں کیا۔ یہ اجلاس اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کر نے والی عالمی طاقتوں کی سخت مذمت کر تا ہے، ان مسلم ملکوں کی بھی جنھوں نے فلسطینیوں کو بچانے کے لئے مدد کا ہاتھ نہیں بڑھایا اور حد درجہ بزدلی کا ثبوت دیتے ہو ئے ظلم پر خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ یہ اجلاس حکومت ہند سے بھی مطالبہ کر تا ہے کہ گاندھی جی سے لے کر اٹل بہاری واجپائی اور بعد کی حکومتوں میں بھی ہمیشہ ہندوستان نے فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے۔ حکومت ہند کو اپنے اسی دیرینہ موقف پر قائم رہنا چاہیے، کیونکہ فلسطینیوں کی لڑائی اپنے ملک کی آزادی کی لڑائی ہے نہ کہ کسی دوسرے ملک پر قبضہ کی اور اپنے آپ پر ظلم کو روکنے کی جدوجہد ہے نہ کہ دوسروں پر ظلم کے لئے۔ یہ اجلاس غزہ کے مردوخواتین، بچوں، بزرگوں اور نوجوانوں کے عزم و استقلال، پامردی و شجاعت اور صبر استقامت کے جذبوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ اجلاس دنیا کے بیشتر ملکوں اور خود ہمارے ملک میں عام انسانوں نے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر فلسطینوں بالخصوص غزہ کے مظلومین کی حمایت میں جس انسانی ہمدردی کا مظاہرہ پیش کیا ہے، اس کی ستائش کر تا ہے۔ یہ اجلاس عالم اسلام سے بھی یہ اپیل کر تا ہے کہ وہ مشکل وقت میں جرائت کا مظاہرہ کرے اور مظلوم فلسطینی بھائیوں کی ہر طرح سے مدد کرے، کیوں کہ وہ حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور حق کا ساتھ انسانی فریضہ ہے اور اسلامی فریضہ بھی۔
7۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو خیر امت بنا یا ہے اور ان کو دنیا میں انصاف قائم کر نے کے لئے بھیجا ہے، لیکن افسوس کہ خود مسلم معاشرہ طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہے اور مختلف طبقات کے ساتھ خاص کر بوڑھے والدین اور خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی کے کثرت سے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ خاص کر نکاح کو مشکل بنا دینے کی وجہ سے سماج میں طرح طرح کی برائیاں پنپ رہی ہیں- اس لئے یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے اپیل کر تا ہے کہ وہ نکاح جیسی مقدس تقریب کو آسان بنائیں، سنت کے مطابق نکاح کی تقریب رکھیں، لڑکی والوں سے کسی بھی قسم کا مالی مطالبہ نہ کریں، کیونکہ یہ شریعت میں ناجائز اور حرام ہے۔ یہ اجلاس ملک کے تمام باشندوں سے بھی اپیل کر تا ہے کہ وہ جہیز اور بیجا رسوم رواج کو معاشرہ سے ختم کر کے ایک مثالی معاشرہ بنائیں۔
8۔ یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے مطالبہ کر تا ہے کہ وہ عائلی اور سماجی معاملات میں احکام شریعت کے پابند رہیں، شوہر و بیوی اور رشتہ دار کے درمیان کوئی نزاع پیدا ہو جائے تو دارالقضاء سے ہی رجوع کریں، اور قرآن و حدیث اور اسلامی شریعت کے مطابق کوئی فیصلہ ہو تو اسے خوش دلی سے قبول کر تے ہو ئے اس پر عمل پیرا ہوں۔ اسی میں آخرت کی کامیابی اور دنیا کی بھلائی بھی ہے- دارلقضاء کے ذریعہ کم وقت اور کم خرچ میں انصاف حاصل ہو سکے گا۔
علماءاور ائمہ مساجد سے بھی اپیل کی جاتی ہے کہ وہ بورڈ کے نکاح نامہ کو زیادہ سے زیادہ عام کر نے پر توجہ دیں۔
9۔ یہ اجلاس مسلم خواتین سے بھی اپیل کر تا ہے کہ وہ معاشرہ کی اصلاح میں اہم رول اداکریں، خاص کر طلاق کے واقعات کو کم کر نے، بیٹے اور بہو کے درمیان تعلقات کو خوشگور بنانے، غیر شرعی رسوم رواج کو روکنے، بیٹوں کو حق میراث دلانے اور نئی نسل کی دینی تربیت کر نے میں؛ اس لئے سماج اور خاندان کی اصلاح میں ان کا ایک مثالی کردار ادا کریں۔