نفقہ مطلقہ کا مسئلہ: شریعت اور انصاف کے آئینہ میں

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

کافی عرصہ سے نفقہ مطلقہ کا مسئلہ بحث ونظر کا موضوع بنا ہوا ہے، شاہ بانو کیس نے پورے ملک میں جو ہلچل پیدا کی تھی، اور اس مسئلہ کے پس منظر میں تحفظ شریعت کی تحریک نے جس طرح پورے ملک کے مسلمانوںکو بیدار کیا تھا، اور احکام شریعت کو سمجھنے اور اس کی معاشرتی اہمیت کا مطالعہ کرنے کا جو شعور پیدا کیا تھا، وہ یقینا مسلمانان ہند کی دینی اور ملی تاریخ یا ایک روشن باب ہے، اسی کے نتیجہ میں ’’تحفظ حقوق مسلم خواتین بل‘‘ پاس ہوا، مسلمان توقع رکھتے تھے کہ یہ قانون اس مسئلہ میںمسلمانوں کی بے چینی اور ضطراب کا مداوا کرے گا؛ لیکن افسوس کہ اس قانون کی ہماری بعض عدالتوں نے ایسی تشریح کی، جس نے اس قانون کے بنیادی مقصد ہی کومجروح کرکے رکھ دیا، اور ایسی تشریحات کی گئیں جو ’’قانون کی تشریح‘‘ سے آگے بڑھ کر ’’قانون وضع‘‘ کرنے کے دائرہ میں آتی ہیں، اس طرح کے فیصلوں نے یقینا مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، بعض بھولے بھالے اور قانون کی روح اور مضمرات سے ناواقف غیر مسلم بھائی تو کیا، مسلمان بھی مطلقہ کے لئے نفقہ کے حق کو ایک جائز اور انسانی حق باور کرتے ہیں؛ حالانکہ نہ صرف اسلامی؛ بلکہ عقلی نقطہ نظر سے یہ بات ناقابل فہم ہے۔

نفقہ واجب ہونے کے اسلامی اصول

جہاں تک قانون شریعت کی بات ہے تو شریعت میں ایک شخص کانفقہ دوسرے شخص پر تین وجوہ میں سے کسی ایک وجہ سے واجب ہوتا ہے:۱-قرابت،۲-حبس، ۳-ملکیت۔

ماں باپ، بال بچے، بھائی بہن، دادا دادی، اور بعض حالات میں دوسرے اعزہ اور رشتہ داروں کا نفقہ قرابت کی وجہ سے واجب ہوتا ہے، قرابت کی بناء پر نفقہ واجب قرار دیئے جانے کے سلسلہ میں دو اصول بنیادی اہمیت رکھتے ہیں، ایک یہ کہ قرابت کی بنا پر اس شخص کا نفقہ واجب ہوگا، جو خود اپنی کفالت سے قاصر ہو، دوسرے اس شخص پر واجب ہوگا، جو اتنا خو ش حال ہو کہ ضروری حد تک اپنی ضروریات پوری کر کے اس شخص کی کفالت بھی کرسکتا ہو۔

ملکیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی چیز کا مالک ہو، اس کا نفقہ اس پر واجب ہوگا، جب غلام اورباندی کا وجود تھا تو اسی بنیاد پر مالک پر غلام اور باندی کا نفقہ واجب قرار دیا جاتا تھا، اسی طرح اسلام جانوروں کا نفقہ ان کے مالک پر واجب قرار دیتا ہے، اگر کوئی شخص اپنے جانوروں کو چارہ فراہم نہ کرسکے تواس کے لئے یہ حکم ہے کہ اگر حلال جانور ہو تو یا تو ذبح کر کے کھالے ، یا فروخت کردے، اور حرام جانور ہو تو اسے بہر حال فروخت کردے، اس کو بھوکا رکھ کر یوں ہی اپنی ملکیت میں رکھنا جائز نہیں، اور دیانت و اخلاق کے اخلاف ہے۔

’’حبس‘‘ کے معنی ہیں روکے رکھنا، یعنی اگر ایک شخص دوسرے شخص کی وجہ سے محبوس ہو، پابندی کی حالت میں ہو اورآزادانہ معاشی سرگرمیاں اختیار نہیں کرسکتا ہو تو اس کا نفقہ اس شخص پر واجب ہوگا جس کی وجہ سے وہ پابندی اور حبس کی حالت میں ہے، ملازمین اور مزدوروں کی تنخواہ گورنمنٹ اور آجرین پر اسی لئے واجب ہے؛ کیونکہ وہ سرکار اور آجر کے لئے محبوس ہیں۔

بیوی کا نفقہ شوہر پر اسی جہت سے واجب ہوتا ہے، بیوی گھر کی دیکھ بھال، بال بچوں کی پرورش اور امور خانہ داری کے لئے گویا محبوس ہوتی ہے؛ اس لئے شوہر کے ذمہ اس کا نفقہ واجب رکھا گیا ہے، حبس کی وجہ سے جو نفقہ واجب ہوتا ہے، اس کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ محبوس و پابند شخص غریب و تنگ دست ہو ،یا معاشی اعتبار سے خوش حال وخود مکتفی،اور اسی طرح وہ جس شخص کے لئے محبوس ہے، اس کی معاشی حالت اچھی ہو یا معمولی ، بہر صورت نفقہ واجب ہوگا۔

پھر جب ایک عورت اپنے شوہر سے مطلقہ ہوجاتی ہے، تو عدت گذرنے کے بعد وہ اپنے سابق شوہر کے لئے محبوس نہیں، دوسرا نکاح کرسکتی ہے، اور شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے معاشی سرگرمی بھی اختیار کرسکتی ہے، اس لئے کہ اس کو نہ سابق شوہر سے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور نہ سابق شوہر کو اس کو ملازمت یا کسی اور بات سے روکنے کا حق ہے؛ اس لئے اب ’’حبس‘‘ کی وجہ سے نفقہ واجب ہونے کی کوئی وجہ نہیں، نیز یہ بات بھی ظاہر ہے کہ طلاق واقع ہونے کے بعد اپنے سابق شوہر سے اس کی کوئی قرابت باقی نہیں رہی؛ کیونکہ ازدواجی رشتہ خونی رشتوں کی طرح اٹوٹ رشتہ نہیں ہے؛ بلکہ ایک رشتہ ہے، جو زبان کے بول سے وجود میں آتا ہے اور زبان کے بول ہی سے ختم بھی ہوجاتا ہے؛ اس لئے طلاق کے بعد میاں بیوی میں کوئی قرابت باقی نہیں رہتی، جہاں تک ملکیت کی بات ہے تو اسلام کی نگاہ میں شوہر و بیوی نکاح کے دو فریق اور زندگی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں نہ کہ مالک اورمملوک، اسلام سے پہلے عورت کو بعض سماج میںمرد کی ملکیت اور جائداد تصور کیاجاتا تھا، اسلام نے اس تصور کو مٹا دیا اور کہا کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں، اسی طرح عورتوں کے مردوں پر ہیں:

’’وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ‘‘ (بقرہ:۸۲۲)۔

غرض کہ اسلامی قانون کے نقطہ نظر سے طلاق اور عدت گذرنے کے بعد کوئی ایسی بنیادباقی نہیں رہتی، جس کی وجہ سے مرد پر اس عورت کا نفقہ واجب قرار دیاجائے۔

ہندو مذہب میں حقیقی تصور یہی تھا کہ بیوی شوہر کی ملکیت ہوتی ہے، اور ایک عورت کو ہمیشہ اسی شوہر کے ساتھ بندھا رہنا ہے، وہ اپنے آپ کو اس کی قید نکاح سے آزاد نہیں کرسکتی، غالبا اسی تصور نے ’’ستی‘‘ کے رواج کو جنم دیا ، کہ جب شوہر مر جائے تو عورت بھی اس کے ساتھ نذر آتش کردی جائے، پس ، چونکہ ہندو سماج میں عورت کے مطلقہ ہونے کا تصور نہیں؛ اس لئے مطلقہ سے متعلق احکام کا بھی وجود نہیں؛ اسی لئے برادران وطن کے لئے یہ بات حیرت انگیز ہوسکتی ہے کہ کوئی عورت جب ایک بار نکاح میں آچکی ہو تو پھر وہ نکاح کی وجہ سے واجب ہونے والے نفقہ سے کیوں کر محروم ہوسکتی ہے؟لیکن اسلام میں نکاح کا ایک اعلی تصور ہے کہ شوہر و بیوی ایک معاہدہ کے تحت ازدواجی رشتہ کے بندھن میں بندھتے ہیں، اور بڑی حد تک مساوی حیثیت کے مالک ہیں، پھر جب کسی ایک کی خواہش پر نکاح ختم ہوجائے تو وہ اپنی اپنی زندگی کے بارے میں آزاد ہیں، دونوں کی اس حیثیت کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ بالکل معقول بات ہے کہ جب مرد و عورت کے درمیان ازدواجی رشتہ ہی باقی نہیںرہا تو اس مرد پر اس عورت کا نفقہ کیوں کر واجب ہوگا؟

عقل و مصلحت کا پہلو

خالص عقلی اور سماجی مصالح کے نقطہ نظر سے بھی مرد پر مطلقہ کا نفقہ واجب قرار دینا نامناسب بات ہے اور اس سلسلہ میںچند امور کو پیش نظر رکھنے کی ضرور ت ہے:

۱۔ اگر مرد کو یہ معلوم ہوجائے کہ اپنی بیوی کو طلاق دینے کی صورت میں اسے زندگی بھر نفقہ دیتے رہنا پڑے گا تو جو مرد اپنی بیوی سے رشتہ ختم کرنا چاہتا ہو، اس میں نفرت کے جذبات مزید بڑھیں گے، اس زندگی بھر کی سزا سے نجات پانے کے لئے وہ غیر قانونی راستے اختیار کرے گا،اور اس طرح کے واقعات پیش آئیں گے، جو روز ہمارے یہاں اخبارات کی سرخیاں بنتی رہتی ہیں، قانونی راستے کو اتنا مشکل، دشوار اور تکلیف دہ نہ بنانا چاہئے کہ لوگ غیر قانونی راستے اختیار کرنے لگیں۔

۲- طلاق کے بعد بھی نفقہ واجب قرار دینے کا ایک منفی اثر یہ مرتب ہوسکتا ہے کہ مغربی ملکوں کی طرح ہمارے ملک میں بھی نکاح کی شرح کم ہوتی جائے، مغربی ممالک میں طلاق کو ایک مشکل عمل بنا دیا گیا اور طلاق کی صورت میں مرد پر ڈھیر سارے واجبات عائد کردیئے گئے، اس کی وجہ سے وہاں نکاح کی شرح گھٹتی جارہی ہے، مثلاً درج ذیل اعدادوشمار ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں ۔

۳۔ بدقماش اور بیمار ذہن عورتیں کوشش کریں گی کہ شوہر کو اس طرح پریشان کریں کہ وہ طلاق دینے پر مجبور ہوجائے اور پھر اپنی مفسدانہ حرکتوں میں مشغول رہیں گی؛ چنانچہ ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ ایک مطلقہ عورت اپنے آشنا کے ساتھ علانیہ عدالت میں آتی ہے اور سابق شوہر سے نفقہ وصول کر کے لے جاتی ہے، کیا اسے سماجی انصاف کہاجاسکتا ہے؟بلکہ ایسا بھی ممکن بھی ہے کہ بعض بدقماش عورتیں سابق شوہر سے نفقہ حاصل کرنے اور آتش انتقام ٹھنڈی کرنے کی غرض سے دوسرے نکاح سے احتراز کریں، اور بے راہ روی کو ترجیح دیں۔

۴- آخر ایک شخص کا نفقہ دوسرے پر واجب قرار دینے کے لئے کوئی بنیاد و اساس تو ہونی چاہئے، اگر اجیر اور آجر کے درمیان اجارہ ختم ہونے کے بعد ایک پر دوسرے کے واجبات عائد نہیں ہوتے، ملازمت ختم ہونے کے بعد ملازم تنخواہ کا مستحق نہیں ہوتا، تو یہ کون سی منطق ہے کہ ایک مرد و عورت کے درمیان نکاح کا رشتہ باقی نہیں رہا؛ لیکن مرد نفقہ ادا کرتا رہے؟ اور پھر کیا کوئی غیر مند شریف عورت اس بات کو گوارا کرسکتی ہے کہ ایک اجنبی اور بے تعلق شخص کے لقموں پر اس کی پرورش ہو، اور ایک ایسے شخص کے سہارے وہ زندگی گزارے، جس نے اسے رد کردیا ہے، اس لئے حقیقت یہ ہے کہ عقل اور سماجی مصلحت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مطلقہ کا اس کے سابق شوہر پر نفقہ واجب نہیں ہونا چاہئے۔

مسئلہ کاحل:

لیکن کیا اسلام نے ایسی عورتوں کو بے سہارا کردیا ہے؟ ہرگز نہیں،-اس سلسلہ میں چند نکات کو ملحوظ رکھنا چاہئے:

الف۔ اسلامی نقطہ نظر سے نکاح کی وجہ سے عورت کا رشتہ اپنے خاندان سے منقطع نہیں ہوتا؛ اسی لئے وہ اپنے ماں باپ اور بعض اوقات بھائی اور چچا وغیرہ سے میراث کی حق دار ہوتی ہے، جب کوئی عورت مطلقہ ہوجائے تو اب اس کے والدین اور قریبی محرم رشتہ داروں پر حسب مراتب اس کانفقہ واجب ہوتا ہے، اس سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ اگر اس خاتون کا انتقال ہوجائے تو جو لوگ شرعا اس کے وارث ہوں گے، ان ہی اعزہ پر اس کا نفقہ واجب ہوگا۔

ب۔ اکثر طلاق کے وقت مہر کی صورت میں ایک خطیر رقم ملتی ہے، جسے وہ کاروبار میں شریک کر کے کچھ گذران حاصل کرسکتی ہے۔

ج۔ اگراس کی پرورش میں طلاق دینے والے شوہر کے بچے اور بچیاں ہیں توبچوں کی عمر آٹھ سال ہونے تک اورلڑکیوں کی عمر بالغ ہونے تک ماں پرورش کی حقدار ہے، اس عرصہ میں وہ سابق شوہر سے اس کے بچوں کی پرورش کرنے کی اجرت وصول کرسکتی ہے، یہ نفقہ نہیں ہے؛ بلکہ اس کی محنت کا معاوضہ ہے،یہ اجرت حضانت اتنی ہونی چاہئے کہ بچہ کی پرورش کرنے والی عورت کے کھانے پہننے اور رہائش کی ضرورت پوری ہوجائے، فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے۔

د۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلام نے ایسی خواتین کے نکاح ثانی کا حکم دیا ہے: ’’ وَأَنکِحُوْا الْأَیَامَیٰ مِنْکُمْ ‘‘ (نور:۲۳)اس لئے سرپرستوں کا شرعی فریضہ ہے کہ وہ کنواری لڑکیوں کی طرح ان کے نکاح کی بھی فکر کریں۔

غرض کہ ہر گز ایسا نہیں ہے کہ اسلام نے ایسی عورت کو محروم اور بے آسرا رکھا ہو۔

لیکن قانون کے فوائد اور نقصانات کا تعلق بہت کچھ قانون پر عمل کرنے والوں کے صحیح اور غلط رویہ سے بھی ہوتا ہے، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مطلقہ عورتوں کے نکاح کو رواج دیں، ہندو معاشرہ کی طرح ایسی خواتین کو منحوس نہ سمجھیں، سارے مسئلہ کی اصل جڑ یہی ہے، عرب معاشرہ میں آج بھی مطلقہ کا کوئی مسئلہ نہیں، اور طلاق کے واقعہ کو چنداں دشوار نہیں سمجھا جاتا؛ کیونکہ وہاں طلاق شدہ عورتوں کا نکاح کوئی دشوار بات نہیں؛ بلکہ عدت گذر تے گذرتے پیام آنے شروع ہوجاتے ہیں؛ اسی لئے دونوں خاندانوں میں اس طرح کی تلخی بھی پیدا نہیں ہوتی، جو ہندوستان میں دیکھنے میں آتی ہے۔دوسرے ہماری محبت اور حسن سلوک کا دائرہ اتنا سمٹ گیا ہے کہ ہم ’’اپنے اور اپنے بچوں‘‘کے سوا کسی کی ذمہ داری محسوس نہیں کرتے، یہاں تک کہ بعض لوگ تو بوڑھے ماں باپ کو بھی بوجھ سمجھنے لگے ہیں، ان حالات میں مطلقہ عورتوں کے تئیں ذمہ داریوں کے احساس کی کیا خاک توقع رکھی جاسکتی ہے؟ اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ مسلم سماج میں اس احساس کو جگایاجائے اور لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا جائے کہ ایسی بے کس و بے آسرا عورتوں کی ضروریات کی کفالت بھی ہماری ذمہ داری ہے، اور یہ احسان نہیں؛ بلکہ ایک حق کی ادائیگی ہے!

۰ ۰ ۰

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com