نئی دہلی: 5/ اگست کو ملی کونسل نے کانسٹی ٹیوشن کلب، نئی دہلی کے اسپیکر ہال میں نومنتخب اراکین پارلیمنٹ کے اعزاز میں ایک عظیم الشان استقبالیہ پروگرام کے موقع پر ”ہندوستان میں اقلیتوں کے آئینی حقوق“ پر اجلاس منعقد کیا، جس میں ملک بھر کے اہم ترین نمائندگان کے ساتھ ارکان پارلیمنٹ کو خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس موقع پر ملی کونسل صوبہ دہلی کے صدر ڈاکٹر پرویز میاں نے سبھی مہمانان کے درمیان خطبہئ استقبالیہ پیش کیا۔ اجلاس کا باضابطہ آغاز ملی کونسل کے معاون جنرل سکریٹری مولانا قاری محمد شفیق قاسمی کی تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ پروگرام کی صدارت آل انڈیا ملی کونسل کے صدر مولانا حکیم محمد عبداللہ مغیثی نے کی، جب کہ پروگرام میں مولانا ڈاکٹر یاسین علی عثمانی نے افتتاحی خطاب پیش کیا۔ واضح رہے کہ تمام مندوبین وارکان پارلیمنٹ کی خدمت میں ایک فائل بھی پیش کی گئی، جس میں آل انڈیا ملی کونسل کی جانب سے منشور مطالبات، ملی کونسل کا تعارف، ڈاکٹر محمد منظور عالم جنرل سکریٹری کا تحریری فکرانگیز خطبہ ودیگر چیزیں تھیں اور اکثر ارکان پارلیمنٹ نے ان کا مطالعہ بھی کیا۔
پورے پروگرام کی نظامت آل انڈیا ملی کونسل کے معاون جنرل سکریٹری سلیمان خان بنگلور نے کی۔ انھوں نے اپنے تمہیدی کلمات میں ملک کے موجودہ حالات کے حوالے سے کہا کہ آج جو ملک کے حالات ہیں، اور جس طرح شب وروز نئے نئے مسائل جنم دیئے جارہے اور پیچیدگیاں پیدا کی جارہی ہیں ان کے نتیجے میں ملک بھر میں بڑی بے اعتمادی اور شک وشبہات کا ماحول پیدا ہورہا ہے۔ اسی پس منظر میں اس پروگرام کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف جہاں ہم نومنتخب اراکین پارلیمان کا اعزاز واکرام کریں، وہیں انھیں اپنے احساسات وجذبات سے بھی آگاہ کریں اور اس بات کے لیے آمادہ ورضامند کریں کہ وہ ملک کے اندر پارلیمنٹ میں ہمارے مسائل ومشکلات کے حوالے سے حکمراں طبقہ پر دباؤ بنائیں تاکہ وہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے مطالبات کی ان سنی نہ کرسکے اور جہاں ضروری ہو، پارلیمنٹ کے اندر وباہر ان ایشوز پر آواز بلند کی جائے۔
سلیمان خان نے دستور ہند کے حوالے سے کہا کہ آل انڈیا ملی کونسل نے این ڈی اے کے پہلے دورِ حکومت کے دوران دستور کو درپیش خطرات کا احساس کرتے ہوئے ’دستور بچاؤ‘ تحریک کی ابتدا کی تھی اور ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے 2004-5 میں اس پیغام کو لے کر پورے ملک کا دورہ کیا تھا، پھر یہ تحریک آگے بڑھی اور 2016 میں ملی کونسل نے دہلی کے تالکٹورہ انڈور اسٹیڈیم میں ”دستور بچاؤ- ملک بناؤ“ کے عنوان سے ایک کنونشن منعقد کیا اور اِس سال جنوری 2024 میں ممبئی میں بھی ایک کنونشن منعقد کیا گیا، جس کے نتیجے میں سیکولر سیاسی جماعتوں نے ’2024 کے انتخابات‘ دستور کے تحفظ کے حوالے سے ہی لڑے۔ جناب سلیمان خان نے مزید کہا کہ ملک کے دستور نے بحیثیت شہری ہمیں جو حقوق دیئے ہیں، ارکان پارلیمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے مسائل ومطالبات ہمارے منشور مطالبات کے تناظر میں آگے لے جائیں، کیوں کہ بالخصوص مسلم اراکین پارلیمان سے ہم بجا طور پر یہی توقع کرتے ہیں کہ ان کے اندر ایمان ویقین کی چنگاری ضرور موجود ہے اور آل انڈیا ملی کونسل اپنے اغراض ومقاصد کے ساتھ انہی چیزوں کو لے کر آگے بڑھتی رہی ہے۔
مولانا مفتی محمد عمر عابدین رحمانی مدنی حیدرآباد نے ملی کونسل کا مؤثر انداز میں تعارف پیش کیا اور 1992 سے لے کر اب تک مختلف شعبوں میں جو تحریکی سرگرمیاں انجام دی گئی ہیں، ان کے خاطر خواہ نتائج کا بھی خوبصورت انداز میں ذکر کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ کل تک جو کچھ کونسل نے کیا، آج بھی اپنے اسی عہدوپیما کے ساتھ سرگرم عمل ہے کہ ہم درپیش چیلنجز کا کس انداز میں مقابلہ کریں۔ انھوں نے ملی کونسل کے مؤسس، محرک اور سرپرست بزرگوں کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کے نقوش پا سے آگے بھی رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔
اس موقع پر مولانا یاسین علی عثمانی نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ ملک کو گزشتہ دس بارہ سالوں کے اندر ایک ایسے ماحول کی جانب ڈھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہم مسائل کے گرداب سے باہر نہیں نکل پائیں۔ انھوں نے ارکان پارلیمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے آگے کہا کہ متفرق مسائل میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو گھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ان گنت اور بے شمار مسائل کے ساتھ مسلمانوں کو آزمائشوں میں ڈالنے کی ہرممکن کوشش کی گئی ہے۔ انھوں نے اترپردیش کے دینی مدارس پر ماضی قریب میں ہوئے مختلف حملوں کا بھی حوالہ دیا اور بہت کرب کے ساتھ ان مسائل کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں قانون کی بالادستی رہے، ناانصافی اب قطعی برداشت نہیں ہے۔ دنیا کی کوئی قوم قیام انصاف کے بغیر امن کا تصور نہیں کرسکتی۔ آج ہم آپ کو یہ اور اس طرح کے بے شمار مسائل کی حقیقت سے آشکار کرنا چاہتے ہیں، ارکان پارلیمنٹ کو خطاب کرتے ہوئے انھوں نے یہ توقع بھی کی کہ وہ اپنی مدت کار میں کمزوروں کے مسائل، پسماندہ طبقات اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے کام کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ملک کا ماحول بہتر سے بہتر ہو، اس ملک کو صحیح سمت پر لے جانے کی اجتماعی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر ہے، ہم لوگ آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔
قومی صدر، آل انڈیا ملی کونسل نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں پُرامن ماحول اور سازگار حالات ہوں، ہر شعبہ زندگی میں شمولیت اور جائز حقوق کے حصول کے لیے دستور ہند کی روشنی میں ہم جو کچھ جدوجہد کررہے ہیں، وہ ہمیں حاصل ہوسکیں۔ ہم سبھی کی مشترکہ کوششوں سے جو تہذیب وجود میں آئی ہے اور جسے ہم گنگا جمنی تہذیب کے نام سے جانتے ہیں، ان کا پاس ولحاظ رکھا جائے۔ مسلمانوں کی تابناک تاریخ کو قطعاً نظر انداز نہ کیا جائے ورنہ ملک کی تاریخ نامکمل رہ جائے گی۔ ہم تو مثبت سوچ وفکر کے ساتھ دلوں کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں، آج نومنتخب ارکان پارلیمان سے ہماری یہی درخواست ہے کہ وہ ہمارے احساسات کو آگے بڑھائیں اور حق وانصاف، انسانیت اور بھائی چارگی کے مزاج کے ساتھ حکمراں طبقے کے ساتھ مضبوطی اور مستقل مزاجی کے ساتھ ہماری باتیں لے کر آگے بڑھیں اور درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرکے ملک میں دستور وآئین کا پرچم بلند کریں۔
واضح رہے کہ نومنتخب ارکان پارلیمنٹ کی خاصی تعداد نے ملی کونسل کے اس اجلاس اور اعزازی تقریب میں شرکت کی اور اپنے اپنے انداز سے اظہار خیال کیا۔ اکثر ارکان نے کونسل کے مذکورہ پروگرام کی تحسین کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے اتنا مؤثر اور جاندار پروگرام ہم نے پہلے نہیں دیکھا۔ انھوں نے اپنے اپنے طرز وانداز پر کہا کہ انھوں نے ملی کونسل کے چارٹر آف ڈیمانڈس کو دیکھا اور پڑھ لیا ہے اور وہ کونسل کے ان مطالبات کو لے کر پارلیمنٹ میں آوازیں اٹھائیں گے۔ اس پروگرام میں بیرسٹر اسدالدین اویسی (مجلس اتحاد المسلمین)، مولانا محب اللہ ندوی (سماجوادی پارٹی)، عمران مسعود (کانگریس پارٹی)، ضیاء الرحمن برق (سماجوادی پارٹی)، رقیب الحسن (کانگریس)، طارق انور (کانگریس)، ڈاکٹر محمد جاوید (کانگریس)، ای ٹی محمد بشیر (مسلم لیگ)، ڈاکٹر عبدالصمد صمدانی (مسلم لیگ)، یوسف پٹھان (ترنمول کانگریس)، محترمہ موسم نور صاحبہ (ترنمول کانگریس)، ڈاکٹر فیاض احمد (آر جے ڈی)، سید ناصر حسین (کانگریس پارٹی)، پپّو یادو (آزاد)، محترمہ روچی ویرا (سماجوادی پارٹی)، متھن ریڈی (وائی ایس آر کانگریس)، دھرمیندر یادو (سماجوادی پارٹی)، اودھیش پرساد (سماجوادی پارٹی) اور دیگر اہم لیڈران شریک ہوئے۔ سبھی اراکین پارلیمنٹ کا ملی کونسل کی الگ الگ ریاستوں کی نمائندہ شخصیات کے ذریعہ عزت افزائی کرتے ہوئے انھیں گلدستے، شال اور میمنٹو پیش کیے گئے، جس کی مجموعی طور پر خوب پذیرائی ہوئی۔ سبھی ارکان پارلیمنٹ نے اپنی مسرت کا اظہار بھی کیا اور کونسل کے سبھی معززین اور ذمہ داران وکارکنان کا شکریہ بھی ادا کیا۔
اس پروگرام کے اختتام سے پہلے ملی کونسل کے قومی نائب صدر اور معتبر عالم دین مولانا انیس الرحمن قاسمی نے بہت مؤثر انداز میں نہایت مختصر خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ تمام ارکان پارلیمنٹ اور دیگر مہمانان کو بہ نظر تحسین دیکھتے اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، تاہم یہ چیز ان پر باور کر دوں کہ ملی کونسل مسلمانوں ودیگر پسماندہ طبقات اور مختلف مذہبی اکائیوں کے سربرآوردہ حضرات کو اسٹیج فراہم کرتی اور انھیں اعزاز بخشتی رہی ہے اور ہم لوگ یہ کام بہت اعلیٰ ظرفی سے کرتے رہے ہیں، مگر ہم مختلف سیکولر پارٹیوں کے ذمہ داران سے یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے اسٹیج پر اپنے پارٹی پروگراموں میں مسلمانوں کو ان کے مراتب کے ساتھ وہ عزت دینے اور اپنے اسٹیج پر بٹھانے اور انھیں الیکشن کے مواقع پر ٹکٹ دینے سے عموماً گریزاں رہتے ہیں، انھوں نے واضح طور پر کہا کہ کم از کم 12/ ایسی ریاستیں ہیں، جہاں ایک بھی مسلم نمائندے کو ٹکٹ نہیں دیا گیا اور مسلم نمائندگی کا قطعی کوئی پاس ولحاظ نہیں رکھا گیا۔ ہمیں امید ہے کہ اس نقطہئ نظر سے آگے خیال رکھا جائے گا اور ہمارے اعتبار واعتماد کو آگے ٹھیس نہیں پہنچائی جائے گی۔
پروگرام کے اخیر میں ملی کونسل کی مرکزی رکن پروفیسر (ڈاکٹر) حسینہ حاشیہ صاحبہ نے سبھی معزز مہمانان کے ساتھ ملی کونسل صوبہ دہلی کے صدر، جنرل سکریٹری، دیگر ارکان وعہدیداران نیز ملی کونسل کے مرکزی دفتر کے کارکنان کی شب وروز محنت وجدوجہد کی تحسین کی اور ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا نیز عشائیہ میں انھیں شریک ہونے کی دعوت دی۔ اس طرح یہ پروگرام تقریباً ساڑھے گیارہ بجے شب بطریق احسن ختم ہوا۔