مجاہد کبیر- اسماعیل ہانیہ شہید

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

31 جولائی 2024 کو ایران کی راجدھانی تہران میں رات کے کوئی دو بجے ایک میزاءیل حملہ میں حماس کی عسکری قوت کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہانیہ اور ان کے محافظ نے جام شہادت نوش کرلیا، اسماعیل ہانیہ ایران کے نئے صدرمسعود پزشکیان کی حلف برداری تقریب میں شرکت کے لئے ایران گئے تھے، یہ سفر ان کا آخری سفر بن گیا، پورا عالم اسلام انگشت بدنداں ہے۔ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ اسماعیل ہانیہ شہید ہو گئے، لیکن جب پاسداران انقلاب ایران اور حماس کے ذمہ داروں نے بھی اس کی تصدیق کردی تب کہیں جاکر اس دل سوز اور دل خراش خبر پر یقین آسکا، حملہ کی تفصیلات بہت سامنے نہیں آئی ہیں، لیکن اس سے کیا لینا، اسماعیل ہانیہ اپنے رب کی بارگاہ میں پہونچ گئے، قیاس یہی ہے کہ یہ کارروائی اسرائیل کی ہے اور ایران کی ساری ایجنسیاں اس حملہ کو روکنے میں ناکام رہیں، اس طرح اب یہ سوال بھی اٹھنے لگا ہے کہ اسرائیل جب چاہے گا ایران پر حملہ کرکے اسے تباہ کرسکتا ہے، اس لئے کہ جب بہت سارے ملکوں کے سربراہ کی موجودگی اور پاسداران انقلاب کے فوجی مہمان خانہ میں حفاظتی انتظام اس قدر ناقص تھا تو دوسرے موقعوں سے کیا کچھ ہوسکتا ہے، اس کے تصور سے ہی دل کانپ اٹھتا ہے،بعض حلقوں کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ اس حادثہ میں خود ایران کی خفیہ ایجنسی کا تو ہاتھ نہیں ہے۔

اسماعیل ہانیہ کی پہلی نماز جنازہ یکم اگست کو تہران میں ایران کے مذہبی رہنما آیت اللہ علی خامنءی کی امامت میں لاکھوں کےمجمع میں ادا کی گئی، وہاں سے جسد خالی کو دوحہ لے جایا گیا اور 2 اگست کو بعد نماز جمعہ ان کی دوسری نماز جنازہ دوحہ کی امام محمد بن عبد الوہاب مسجد میں ادا کی گئی ، جس میں لاکھوں کی تعداد میں عوام کے ساتھ فلسطینی اور کئی عرب قائدین شریک ہوئے، اور بانی امام قبرستان میں دفین عمل میں آئی۔

اسماعیل عبدالسلام احمد ہانیہ 29؍جنوری 1963 میں مصر کے مقبوضہ غزہ پٹی کے نشاطی پناہ گزیں کیمپ میں پیدا ہوئے، انہوں نے جامعہ اسلامیہ غزہ سے اپنی تعلیم مکمل کی، عربی زبان وادب میں تخصص کی سند حاصل کی، 1986 میں بی اے کی ڈگری کے حصول کے بعد ایک طویل وقفہ ارض مقدس کی بازیابی کے لیے جد وجد میں لگایا ،1987میں حماس کے قیام کے وقت وہ نو جوان بانی رکن کی حیثیت سے اس میں شریک ہوگیے، 1988میں پہلے انتفاضہ تحریک میں سر گرم شمولیت کی وجہ سے اسرائیلی عدالت نے مختصر مدت کے لیے انہیں قید کی سزا سنائی ،1997 میں حماس کے روحانی رہنما شیخ احمد یٰسین کے پرنسپل سکریٹری اور دفتر کے سر براہ مقرر ہوئے 2006 سے 2017 تک غزہ میں حماس کے سر گرم رکن کی حیثیت سے کام کیا، 2006 میں فلسطین کے انتخاب میں حماس کے اکثریت حاصل کرنے کے بعد انہیں فلسطینی اتھارٹی کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا خالد مشعل کی جگہ2017 کے انتخاب کے بعد سیاسی امور کے رئیس مقرر ہوئے، 1988 میں حماس کے ذریعہ مزاحمتی تحریک میں شمولیت کی وجہ سے دوسری بارانہیں جیل میں ڈال دیا گیا، 1989 میں تیسری بار ان کی گرفتاری عمل میں آئی اور اسرائیلی عدالت نے تین سال قید کی سزا سنائی، تین سال کی مدت گذرنے کے بعد حماس کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ انہیں لبنان کے سرحدی علاقہ مرج الظہور میں جلا وطن کر دیا گیا، 1992 کا پورا سال انہوں نے جلاوطنی میں گذارا، 1993 میں اوسلو معاہدہ کے نتیجے میں ان کی غزہ واپسی ہوئی، اس کے بعد وہ خود ہی قطر ، ترکی اور دوسرے ممالک میں پناہ گزیں کی حیثیت سے زندگی گذارنے لگے تاکہ آمدورفت کی سہولت حاصل رہے، وہ حماس کے سیاسی قائد اور چیرمین تھے، انہوں نے 27 مارچ 2006ء سے 14جون 2007 تک وزیر اعظم فلسطین کی حیثیت سے بھی ارض مقدس کی خدمت انجام دی ۔

بعد میں محمود عباس نے اس عہدہ سے انہیں ہٹا کر کمان سنبھال لی، ان کے اس عمل کی وجہ سے فلسطین عملی طور پر دو حصوں میں بنٹ گیا، ویسٹ بینک مغربی کنارے پر محمود عباس حکومت کرتے رہے اور غزہ پٹی پر حماس کا رعب اور دبدبہ قائم رہا، 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر نا قابل یقین حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں جو لڑائی شروع ہوئی وہ اب تک جاری ہے اور ہزاروں کی تعداد میں فلسطین میں عورت، مرد، بچے، حماس کے مجاہدین موت کی نیند سو چکے ہیں ، خود اسماعیل ہانیہ کے تین بیٹے، چار پوتے پوتیاں ،خاندان کے کم وبیش بیس افراد اور ستر دور کے رشتہ دارشہید ہوچکے ہیں اور بالآخر اسماعیل ہانیہ نے جو حماس کے سیاسی قائد اور اپنے خاندان کے سر براہ تھے جام شہادت نوش کر لیا۔

 حماس نے اس بڑے حادثہ کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری ہے، اسماعیل ہانیہ کی شہادت کی خبر نے ان کے حوصلے کو مزید بلند کیا ہے اور اسرائیلی سرحد اور غزہ پٹی کے علاقوں میں شدید جنگ جاری ہے ، حماس کے لڑاکے اور مجاہدین شہادت کو مطلوب اور مقصود مؤمن سمجھتے ہیں، انہیں یقین ہے کہ جیت گیے تو فاتح اور مار دیے گیے تو شہید کا مقام انہیں ملنے والا ہے، البتہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت سے قطر کی وساطت سے ہونے والے جنگ بندی سمجھوتے اور مصالحتوں میں رکاوٹ پیدا ہونے کے امکانات بڑھ گیے ہیں، حماس والے ان حادثات سے گھبراتے نہیں ہیں، ان کی مثال اس عربی شاعر کے خیال کی طرح ہے کہ جب کوئی سردار مرجاتاہے تو دوسرا سردار اس کی جگہ لینے کو تیار رہتا ہے ، اسماعیل ہانیہ نے اپنے خاندان کی شہادت پر کہا تھا کہ ہماری روحیں، ہمارا خون، ہمارے گھر بار ہمارے اہل وعیال سب کچھ قدس کے لیے فدا اور قربان ہیں،انہوں نے اس موقع سے اپنے خطاب میں جو کچھ کہا تھا وہ حوصلہ دلانے کے لیے کافی ہے، انہوں نے کہا تھا:

’’گھبراؤ نہیں اے اقصیٰ کے لوگو، مایوس مت ہو اے فلسطین کے لوگو ثابت قدم رہو، اے عالم اسلام کے غیور لوگو! یہ قربانیوں کا وقت ہے اور ہم کسی بھی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ، اور دنیا نے دیکھا کہ وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ چنانچہ ان کی شہادت کے بعد پاپو لر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین کے ترجمان محمد الطاہر نے کہا کہ شہید اسماعیل ہانیہ نے فلسطینی کاز کے لیے اپنی سب سے قیمتی چیز دی ہے، ہم شہید بھائی ہانیہ سے کہتے ہیں کہ اچھی طرح سوجاؤ اور فکر نہ کرو، ہمارا وعدہ ہے کہ ہم جد وجہد اور مزاحمت جاری رکھیں گے، چوں کہ یہ واقعہ ایران کی سر زمین پر ایران کے مہمان کے ساتھ ہوا ہے ، ایران نے اعلان کیا ہے کہ ہانیہ کے قتل کا بدلہ لینا ایران پر فرض ہے ، حماس کے عسکری ونگ عز الدین القسام بریگیڈ نے کہا ہے کہ اسماعیل ہانیہ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، اور ان کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا، چین ،جاپان،روس، لبنان ، سعودی عرب، ترکیہ، متحدہ عرب امارات اور قطر وغیرہ نے اسے بزدلانہ اور مجرمانہ قتل قرار دیا ہے ۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com