مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ)
امارت شرعیہ کے اکابر نے غلام ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جو جہد کی، وہ تاریخ کا روشن باب ہے،ترک موالات، خلافت تحریک میں شمولیت اورانڈی پینڈینٹ پارٹی کا قیام تحریک آزادی کو ہی کمک پہونچانے کی کوشش تھی، بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ (ولادت 1301ھ۔وفات 1359ھ) حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھے اور ان کے متعلقین ومتوسلین مختلف انداز میں جدوجہدآزادی میں شریک رہے،کامریڈتقی رحیم لکھتے ہیں: ”امارت کے تمام رہنما اور اہم کارکن مذہبی اثر ورسوخ کے حامل ہونے کے ساتھ جانے ہوئے کٹر سامراج مخالف سیاہی رہنما بھی تھے، مولانا مشہود احمدندوی قادری موجودہ پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ،امیر شریعت اول مولانا سید شاہ بدرالدین قادری ؒ پر لکھے گئے ایک مضمون میں مولانا محمد سجادؒ کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں:”ایک مرد مجاہد اورآزادی کے سرخیل وعلم بردار حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ جو قت اور زمانہ کے حالات کو دیکھ رہے تھے اورحالات کے صحیح نباض تھے“۔ (ہمارے امیر8،مرتبہ مولانا رضوان احمد ندوی)
مولانا نورالحق رحمانی رقم طراز ہیں:”آپ مجاہد اعظم اور جنرل سپاہی بھی تھے، جب پہلی جنگ کی تیزوتند ہوا چلی اورزبردست طوفان اٹھا تو بہت سی قدآور شخصیت پستہ ہوگئیں،لیکن آپ مستحکم چٹان کی طرح جمے رہے، آپ حضرت شیخ الہند اورحضرت شیخ الاسلام کے ساتھ جنگ آزادی میں شریک رہے، جب حضرت شیخ الہندؒنے 19/جولائی 1920ء کو ترک موالات کا فتویٰ دیا تواس کو مرتب کرکے 484 دستخطوں کے ساتھ شائع کرنے والی آپ ہی کی شخصیت تھی(ہمارے امیر39)مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ نے خطبہ صدارت اجلاس مرادآباد میں آزادی کی لڑائی کے لئے ہندو مسلم کو متحد کرنے کی بات کہی، مولانا نے فرمایاکہ گھر کے غیر مسلم قوموں سے پہلے مصالحت وموادعت کی جائے، پھر بیرونی دشمنوں سے گھر کی حفاظت کی جائے،مولانامحمد سجاد ؒ محمد علی جناح کو اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:”اصلی فساد ہلاکت کا سرچشمہ برٹش حکومت کا دستور حکومت ہے یہ روگ بمنزلہ سل ودق کے ہے اور فرقہ وارانہ فسادات یانوکریوں یا وزارتوں میں حق تلفی بمنزلہ پھوڑا پھنسی کے ہے“ (مکاتب سجاد25) آگے لکھتے ہیں:”جناب کو معلوم ہے کہ اس کا علاج بجز اس کے کیا ہوسکتا ہے کہ حکومت کے موجودہ سسٹم میں کلیۃ انقلاب برپا کیا جائے، لیکن یہ انقلاب صرف تحریروں، تقریروں،جلسوں اور جلوسوں سے حاصل نہیں ہوسکتا اورنہ صرف ظالموں کو برا کہنے سے، اس کے لئے ہمیشہ صرف ایک اصول ہے کہ ظالموں اور جابروں کے استبداد کو ختم کرنے کے لئے اور اقامت عدل وانصاف ورضائے الہی کے لئے مظلوم قوم اپنے جان ومال کی قربانی پیش کرے اور اس اصول پر عمل کرنے کے لئے دو طریقے امتداد تاریخ عالم انسانی سے رائج ہیں، ایک طریقہ جہاد بالسیف ہے اور دوسرا طریقہ بغیر مدافعت جہاد اعلان حق اور تسلیم باطل سے قولاوعملاانکار،جس کو حرب سلمی بھی کہتے ہیں اور عرف عام میں عدم تشدد کے ساتھ سول نافرمانی“ (مکاتب سجاد27)
مسلم لیگ نے آپ کے حرب سلمی کے مشورے کو نہیں مانا تو مولانا کو اس کا بہت افسوس ہوا، محمد علی جناح کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں ”مجھے افسوس ہے کہ مسلم لیگ نے اصل مقصد کو پیش نظر رکھ کر برٹش شہنشایت کے خلاف حرب سلمی کے ذریعہ محاذ جنگ میں قدم رکھنے کا فیصلہ نہیں کیا، معلوم ہوتاہے کہ مسلم لیگ کی رہنمائی جن ہاتھوں میں ہے ان کی اکثریت آج بھی انگریزوں پر اعتماد رکھتی ہے(مکاتب سجاد 32)مولانا نے گانگریس کے ترک موالات کی تجویز کی حمایت میں ایک فتویٰ بھی لکھ کر شائع کیا،سری کرشنا سنگھ اپنے تحقیقی مقالہ صفحہ168/ پر لکھتے ہیں:ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق وہ بہار میں علماء کی تحریک کو جنم دینے والے ایسے خطرناک اور کٹر انتہاپسند تھے جس نے ابوالکلام آزاد اورپان اسلام ازم کے دوسرے بڑے داعیوں سے مل کر یہاں سب سے پہلے ایجی ٹیشن شروع کیا(جدوجہد آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ ص233)
امارت شرعیہ کے پہلے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری ؒ (ولادت 1852 ء،وفات 1924ء) اس معاملہ میں اس قدر حساس تھے کہ 1915ء مطابق 1333ھ میں آپ کی علمی خدمات اور بااثر شخصیت ہونے کی وجہ سے انگریزوں نے انہیں شمس العلماء کا خطاب اور تمغہ دیا تھا، جسے بعض وقتی مصالح کی وجہ سے آپ نے قبول بھی کرلیا تھا،یکم اگست 1919ء مطابق 1338ھ میں خلعت وتمغہ دونوں کمشنر کو واپس کردیا اورلکھاکہ:”میں اپنے دلی رنج وغم کا اظہار اس میں سمجھتاہوں کہ اپنے خطاب شمس العلماء،خلعت وتمغہ وعطیہ سلطنت برطانیہ کو واپس کردوں؛ تاکہ اراکین سلطنت ہم لوگوں کے اس بے انتہا رنج وغم کا اس سے اندازہ کرلیں (ہمارے امیر ص 7)مولانا کا یہ ردعمل برطانوی حکومت کے ذریعہ ہند وبیرون ملک پر ان ظالمانہ رویہ اور غیر منصفانہ اقدام کے نتیجہ میں سامنے آیا جو انگریزوں نے روا رکھا تھا، اس کی وجہ سے حضرت امیر شریعت اول انگریزوں سے سخت نفرت کرتے تھے اور وہ ان شرائط کو بھی ماننے کو تیار نہیں تھے جو انگریزوں نے ترک مسلمانوں کو ذلیل کرنے کے لئے لگائے تھے،امیر شریعت اول نے تحریک خلافت اور تحریک موالات میں بھی حصہ لیا اور اپنے حلقہ کو اس پر آمادہ کیاکہ وہ ملک کی آزادی کے لئے کام کریں۔کامریڈتقی رحیم لکھتے ہیں:”بہار میں عدم تعاون کا افتتاح بہاری مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما مولانا شاہ بدرالدین قادری پھلواری شریف نے اپنے خطاب شمس العلماء کی واپسی سے کیا“(جدوجہد آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ ص189)
امیر شریعت ثانی مولانا محی الدین قادری اورمولانا سید شاہ قمرالدین رحمھما للہ نے تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، کامریڈ تقی رحیم لکھتے ہیں:”امارت شرعیہ کے اثر میں آکر بہار کے مسلمان اپنے امیر کی ہدایت کے بموجب آزادی کی جدوجہد میں کانگریس کی مدد کرنے کو اپنا ضروری مذہبی فرض ماننے لگے تھے۔
امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ (ولادت 1912،وفات 1991ء) شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے انتہائی معتمد اور چہیتے شاگرد تھے، جب حضرت مدنی جیل میں تھے تو آپ نے بھی آزادی کی لڑائی کو تیز کرنے کے لئے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، دوبار جیل گئے اور جدوجہدآزادی میں اپنا حصہ ادا کیا، مولانا منت اللہ رحمانیؒ نے جدوجہد آزادی میں جو عملی اقدامات کئے اس کی وجہ سے وہ میرٹھ، مظفرنگر، سہارن پور ضلع میں تحریک آزادی کے ذمہ دار (ڈکٹیٹر) بنائے گئے، آزادی کے لئے بڑے مصائب جھیلے۔ 1936ء میں مسلم انڈپینڈنٹ پارٹی کے ٹکٹ پر آپ کامیاب بھی ہوئے، لیکن 1940ء میں پارلیمانی سیاست سے آپ کنارہ کش ہوگئے، حافظ امتیاز رحمانی اپنے مضمون ”جنگ آزادی اور حضرت امیر شریعتؒ میں لکھتے ہیں:”پارلیمانی سیاست سے علحدگی کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت نے تحریک آزادی سے اپنے آپ کو الگ کرلیا تھا یا خانقاہ رحمانی کے مریدین،مخلصین اور متوسلین کو یہ ہدایت دی کہ وہ تحریک آزادی سے اپنے آپ کو الگ کرلیں، حضرت نے ملک وملت کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر سرگرمی کے ساتھ جدوجہد جاری رکھی اورتحریک آزادی کی جدوجہد میں جو خفیہ سرکلر،پوسٹر اور پمفلٹ شائع ہوکر بہار کے بڑے حصے میں تقسیم ہوا کرتے تھے،ان کی طباعت کا سب سے بڑا مرکز خانقاہ رحمانی تھا (امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی،مرتبہ مولانا عمیدالزماں قاسمی ص 479)
پانچویں امیر شریعت حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب (ولادت1903، وفات 1998) بھی سچے محب وطن اور جدوجہد آزادی میں اکابر امارت کے شانہ بشانہ رہے، مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ لکھتے ہیں:”آپ سچے محب وطن اور مجاہدآزادی بھی تھے، جنگ آزادی میں بے لوث حصہ لیا تھا، ڈاکٹر سید محمود، ڈاکٹر راجندر پرساد سابق صدر جمہوریہ کی قیادت میں چھپرہ شہر میں کام کیا، حق منزل جو اس زمانہ میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا، وہاں قیام کرتے (ہمارے امیر 25)
چھٹے امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ (1927،وفات 2015ء) آزادی کی تحریک کے وقت بالکل جوان تھے اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کے ذریعہ چلائی جارہی تحریک کے دست وبازو تھے۔مولانا شاہ فیاض عالم ولی اللہی جدجہد آزادی میں اپنے اور مولانا سید نظام الدین کے رول کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”ہم دونوں دیہاتوں میں نکل جاتے اورلوگوں کو انگریزوں کے خلاف بھڑکاتے،راستہ میں کھانے کے لئے جھولے میں بھنے ہوئے چنے او رگڑ رکھ لیتے تھے، کھانا ملاتو کھالیانہیں تو چنے اور گڑکھاکر پانی پی لیا، (باتیں میر کارواں کی، از عارف اقبال 166)
ان کے علاوہ قاضی حسین احمد صاحب جو امارت شرعیہ کے ایک زمانہ میں ناظم تھے، آزادی کے لئے ان کی محنت قابل رشک تھی،ترک موالات کے مسئلہ سے دوسرے قائدین کی طرح قاضی احمد حسین بھی متفق تھے،
انہوں نے اس سلسلے میں گاندھی جی سے ملاقات کی، اور ملک کی آزادی میں روس اور افغانستان کے تعاون سے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی تجویز رکھی، گاندھی جی نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا،ان کی سوچ تھی کہ دوسروں کے بل پر اگر ہم آزادی حاصل کریں گے تو برطانیہ سے نکل کر دوسرے معاون ملکوں کے رحم وکرم پرہو جائیں گے، انہوں نے واضح لفظوں میں قاضی احمد حسین صاحب کو کہاکہ ”ہندوستان میں خود اتنی طاقت ہونی چاہئے کہ وہ بلابیرونی مدد کے آزاد ہو اور تب وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرسکے گا“۔
گاندھی جی سے ان کی یہ ملاقات چھپی نہیں رہ سکی،انگریزحکومت کے جاسوس ان کے پیچھے لگ گئے اوران کی گرفتاری کا فیصلہ ہوا، چنانچہ 1921ء میں خلافت کانفرنس گیا کے دفتر سے قاضی صاحب کی گرفتاری عمل میں آئی، شاہ محمد عثمانؒ لکھتے ہیں:”قاضی صاحب کو دفعہ 124 الف بغاوت کے الزام میں چھ ماہ کی سزائے قید بامشقت دی گئی تھی، وہ جب گرفتار ہوئے تو شہر میں دکانین احتجاج کے طور پر بند ہوگئیں، اسکول بند کردئے گئے، سرکاری دفاتر میں بھی بہت سے لوگ نہیں گئے، وہ رہاہوئے تو اسٹیشن پر ان کے استقبال کو آدمیوں کا ہجوم جمع تھا، پلیٹ فارم اور اسٹیشن کا کمپاؤنڈ اوراس سے باہر سڑکوں پر لوگ جمع تھے اور نعرے لگارہے تھے (حسن حیات 60061)
ان کے علاوہ بہت سارے امارت شرعیہ کے نامور لوگوں نے بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کیا، مثال کے طورپر مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی، شیخ عدالت حسین، حافظ محمد ثانی وغیرہ کا نام لیا جاسکتاہے۔ڈاکٹر ابولکلام قاسمی شمسی لکھتے ہیں:”جنگ آزادی میں امارت شرعیہ نے اہم رول ادا کیا، اس سے منسلک،دانشوران اور عوام نے تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا، ان میں سے مولانا محمد سجاد،مولانا سید شاہ محی الدین امیر شریعت مولانا شاہ محمد قمرالدین، مولانا سید منت اللہ رحمانی،قاضی احمد حسین، مولانا عبدالوہاب، مولانا حافظ محمد عثمان، مولانا عثمان غنی، شیخ عدالت حسین، سعیدالحق وکیل،ڈاکٹر سیدعبدالحفیظ فردوسی، مسٹر محمد یونس بیرسٹر، مولانا عبدالصمدرحمانی، مسٹر محمد محمود بیرسٹر،مسٹرخلیل احمد ایڈوکیٹ کے علاوہ سیکڑوں علماء ہیں (تحریک آزادی میں علماء کرام کا حصہ 302)
امارت شرعیہ کے پہلے ناظم،مفتی اور امارت شرعیہ کے ترجمان جریدہ امارت اور نقیب کے مدیر محترم مولانا محمد عثمان غنیؒ نے جدوجہد آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ مجاہدین میں جوش وجذبہ اور حوصلہ پیدا کیا، آپ کی تحریروں نے انگریزوں کو بے حد پریشان کیا، جس کے نتیجہ میں امارت کے پرچے ضبط ہوئے، ضمانت طلب کی گئی،مولانا محمد عثمان غنیؒ کو جیل کے اندر ڈالا گیا، لیکن یہ مرد مجاہد اس قدر حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھاکہ قید وبند کی صعوبتیں بھی اس کے قلم کو روک نہیں سکیں اور ”امارت“ کو بالآخر بند کردینا پڑا، اس کے بعد”نقیب“ کے نام سے امارت کا ترجمان نکلناشروع ہوا،جوآج تک نکل رہاہے، آزادی سے قبل تک اس نے انگریزوں کے خلاف قلمی جہاد کیا، اور آزادی کے بعد مسلمانوں کو متحد ومتفق کرنے، اصلاح معاشرہ اور اہم موضوعات پر اس کے مضامین ومقالات آج بھی موثر کردار ادا کررہے ہیں۔
میں نے اپنے ایک مضمون ”بے باک صحافی۔ مولانا مفتی محمد عثمان غنی“ میں لکھا تھا:”آپ کی تحریروں میں حکومت برطانیہ پر جارحانہ تنقید ہواکرتی تھی، اوریہ تنقید حکومت لئے ناقابل برداشت تھی، کئی بار مقدمہ چلا، 8/مئی 1926ء کے ایک اداریہ پر حکومت نے اس شمارہ کو ضبط کرلیا اور سرکار انگلیشہ نے بغاوت کا مقدمہ کردیا، 2/نومبر 1926ء کو نچلی عدالت سے ایک سال قید اور پانچ سو روپے جرمانہ کا حکم دیا تھا، ایک ماہ جیل میں رہنے کے بعد 27/دسمبر 1926ء کو عدالت عالیہ سے ضمانت منظور ہوئی، قید کی سزا ختم ہوگئی، مگر جرمانہ بحال رکھا گیا۔
1927ء اگست میں بتیا فساد کے موقع سے 20/صفر 1346ھ مطابق 19/اگست 1927ء کا ایک اداریہ پھر حکومت کی جبین اقتدار پر شکن کا سبب بن گیا، دفعہ 152(ایف) کے تحت مقدمہ چلا، ایک سال قید، ڈھائی سو روپے جرمانہ کی ادائیگی کا حکم ہوا، سرعلی امام نے مولانا کی طرف سے اس مقدمہ میں پیروی کی، ایک روز جیل میں رہنے کے بعد ضمانت ملی، ڈسٹرکٹ جج کے یہاں سے 30/اپریل 1928ء کو مولانا کو انصاف ملا اور وہ بری کردئے گئے، تیسری بار پھر ایک اداریہ کی وجہ سے 1335ھ میں حکومت بہار نے ایک ہزار روپے کی ضمانت طلب کی، امارت شرعیہ کے ذریعہ اس جرمانہ کی ادائیگی ممکن نہیں ہوئی اور ”امارت“کو بند کردینا پڑا۔ مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی لکھتے ہیں:”امارت شرعیہ کے پندرہ روزہ جریدہ”امارت“نے اپنے انقلابی مضامین کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں جوش آزادی پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، اس کے باغیانہ وانقلابی مضامین کی وجہ سے انگریزوں نے اس پر مقدمہ چلایا اور جرمانہ عائد کیا، بالآخر اس کو بند کردینا پڑا (تحریک آزادی میں علماء کا حصہ 203)شاہ محمد عثمان ؒ کے ان جملوں پر اپنی بات کو ختم کرتاہوں،لکھتے ہیں:”امارت شرعیہ اورجمعیۃ علماء کے لوگ تو جنگ آزادی میں کود جانے کے حامی تھے اور وہ کود گئے (ان کے لئے) جہاد حریت میں شرکت محض قومی نظریہ نہیں بلکہ اسلامی مفادات کا تقاضہ تھا (حسن حیات 86)