مہندرا نے اپنے نام سے لفظ محمد کیوں ہٹایا تھا، کمپنی کا محمد سے کیا ہے رشتہ ؟

مہندرا اینڈ مہندرا نہ صرف ملک بلکہ دنیا کی سب سے بڑی آٹو انڈسٹری بن گئی ہے۔ اس کمپنی کی بنیاد آزادی سے پہلے رکھی گئی تھی۔ تب سے، مہندرا نے اپنی بہت سی گاڑیاں ہندوستان اور بیرون ملک کے بازاروں میں لانچ کی ہیں۔ اس کمپنی کے ٹریکٹر اور ٹرک بھی ہندوستانی مارکیٹ میں کمپنی کا وقار بڑھا رہے ہیں۔ فی الحال کمپنی کی کمان چیئرپرسن آنند مہندرا کے ہاتھ میں ہے۔

مہندرا اینڈ مہندرا کا محمد کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب یہ کمپنی شروع کی جا رہی تھی۔ شروع میں اس کمپنی کا نام مہندرا اینڈ محمد تھا۔ ملک کی آزادی کے وقت کچھ ایسا ہوا کہ کمپنی کو اپنا نام بدل کر مہندرا اینڈ مہندرا رکھنا پڑا۔

مہندرا اینڈ مہندرا، جو آج ملک کی سب سے بڑی آٹوموبائل کمپنیوں میں سے ایک ہے، 2 اکتوبر 1945 کو شروع ہوئی تھی۔ اس کمپنی کی بنیاد پنجاب کے شہر لدھیانہ میں رکھی گئی۔ اس وقت اس کمپنی کے تین شراکت دار تھے کے سی مہندرا، جے سی مہندرا اور غلام محمد۔

اس کمپنی میں غلام محمد کا حصہ کم تھالیکن کمپنی کا نام لیتے وقت ان کا نام بھی کمپنی کے نام میں شامل تھا۔ اس طرح مہندرا اینڈ مہندرا کا پہلا نام مہندرا اینڈ محمد تھا۔ اس وقت یہ کمپنی اسٹیل کا کاروبار کرتی تھی۔1947 میں جب ہندوستان میں آزادی کا وقت آیا تو ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا – ہندوستان اور پاکستان۔ ایک طرف کے سی مہندرا اور جے سی مہندرا ہندوستان میں رہے۔ جبکہ غلام محمد نے پاکستان جانا ہی مناسب سمجھا۔ غلام محمد کے پاکستان جاتے ہی اس کمپنی سے ان کا رابطہ ٹوٹ گیا۔

غلام محمد پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ بنے۔ اس کے بعد وہ 1951 میں گورنر بھی رہے۔ آزادی کے بعد، غلام محمد نے سال 1955 میں یوم جمہوریہ کے موقع پر ہندوستان کا دورہ کیا۔ملک کی تقسیم کے وقت تک، کمپنی کے کچھ لیٹر ہیڈ، بل وغیرہ مہندرا اینڈ محمد کے نام پر بن چکے تھے۔ کمپنی کے یہ تمام دستاویزات ایم اینڈ ایم کے نام سے چھاپے گئے تھے۔ سب کچھ بدلنے میں کمپنی کی کافی اسٹیشنری خراب ہو جاتی۔ اس وجہ سے کمپنی کا نام ایم اینڈ ایم ہی رہنے دیا گیا اور بعد میں یہ کمپنی مہندرا اینڈ مہندرا کے نام سے مشہور ہوئی۔  (بشکریہ  قومی آواز )

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com