ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ کا مجوزہ نقشہ شریعت اور قانون فطرت کے آئینہ میں!

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

 ہمارے ملک کے معماروں نے جنگ آزادی کے وقت ایک ایسے ملک کا خواب دیکھا تھا،جس میں مختلف مذاہب، تہذیبوں اور رسوم ورواج سے تعلق رکھنے والے لوگ بھائی بھائی بن کر ایک ساتھ زندگی گزاریں، اور سبھوں کو اپنے عقیدہ اور مذہب کے مطابق عمل کرنے کی گنجائش ہو، یہ سرسوں کا کھیت نہ ہو، جس میں ہر طرف زرد پھول ہی نظر آئیں؛ بلکہ یہ مختلف رنگ وبو کے حامل پھولوں اور پتوں کا خوش رنگ اور سدا بہا رگلشن ہو، اسی سوچ کے ساتھ اس ملک کا دستور بنایا گیا، اور دستور میں ہر گروہ کو اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت کے ساتھ زندگی گزانے کی آزادی دی گئی؛ اسی لئے ہمارے یہاں سماجی زندگی کے مختلف قوانین موجود ہیں، آزادی سے پہلے ہی مسلمانوں کے لئے شریعت اپلی کیشن ایکٹ بنا، اور پھر ۱۹۳۹ء میں اس کے تکملہ کے طور پر مسلمانوں کے انفساخ نکاح کا قانون بنا، ۱۹۵۵ء میں ہندو میرج ایکٹ بنا، اور اس قانون کے رو سے سکھوں، جینیوں اور بودھوں کو بھی اس میں شامل کر دیا گیا؛ حالاں کہ سکھ اس وقت بھی اس سے ناراض تھے اور بدھسٹوں کو بھی آج تک اس پر اعتراض ہے؛ بلکہ مسلمان عیسائی یہودی اور پارسی کے علاوہ ہر مذہب کے لوگوں پر اس قانون کو مسلط کر دیا گیا، اسی طرح ہندوستان میں انڈین کرسچن میرج ایکٹ ۱۸۷۲ء اور آنند میرج ایکٹ (The Anand Marriage Act ) ۱۹۰۹ء بھی موجود ہے، آنند میرج ایکٹ اصل میں سکھوں کی رواجی شادیوں کو قانون کے دائرہ میں لانے کے لئے بنایا گیا، ان سب کے علاوہ ایک خصوصی قانون اسپیشل میرج ایکٹ (Special Marriage Act ) بھی موجود ہے، جس کو کسی ایک مذہب کی چھاپ سے بچا کر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، جو لوگ اس ایکٹ کے تحت اپنا نکاح کرتے ہیں، ان ہی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔

 ہندوستان میں بعض ایسے قبائل بھی ہیں، جن کے یہاں فرسودہ؛ بلکہ غیر انسانی روایات قائم ہیں، جیسے ایک عورت کی کئی مردوں سے شادی، یا ایک بھائی شادی کرے اور وہ تمام بھائیوں کی مشترکہ بیوی سمجھی جائے، ظاہر ہے کہ کسی مہذب معاشرہ کے لئے یہ بات ہر گز قابل قبول نہیں ہو سکتی؛ اس لئے ملک کا دستور بنانے والے ایک گنجائش یونیفارم سول کوڈ کی رکھنا چاہتے تھے؛ تاکہ ایسے غیر مہذب قوانین سے عوام کو بچایا جائے؛ اس لئے دستور کے رہنما اصول میں ایک دفعہ ایسی رکھی گئی کہ ملک میں بتدریج یونیفارم سول کوڈ لانے کی کوشش کی جائے گی، اس میں نہ یکساں سول کوڈ کا لزوم ہے اور نہ اس کے لئے کوئی مدت مقرر کی گئی ہے؛ لیکن بدقسمتی سے اس وقت اس موضوع کو بر سر اقتدار پارٹی ایسی ا ہمیت دے رہی ہے، گویا کہ لوگوں کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہو، اور اس کو اصل میں مسلمانوں کے خلاف اور ان کو ان کے شرعی حقوق سے محروم کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

 مرکزی حکومت نے تو اب تک یکساں سول کوڈ کا کوئی خاکہ پیش نہیں کیا ہے؛ لیکن اتراکھنڈ بی جے پی حکومت نے اس پر قانون بنا دیا ہے، اس قانون سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس یکساں سول کوڈ کی بات کی جا رہی ہے، وہ کس طرح کا ہوگا، اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس پس منظر میں اتراکھنڈ کے قانون کے چند قابل غور نکات پیش کئے جاتے ہیں:

(۱) اس قانون کے لحاظ سے بچوں کو گود لینے کی گنجائش ہوگی اور گود لئے ہوئے بچے کو حقیقی اولاد کا درجہ حاصل ہوگا، تمام معاملات میں وہ حقیقی بیٹے اور بیٹی کی طرح سمجھے جائیں گے، —–یہ قانون صریحاََ قرآن وحدیث کے خلاف ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے لے پالک بنانے کی وجہ سے کوئی تمہارا بیٹا نہیں ہو جاتا، یہ تو محض تمہارے منھ کی باتیں ہیں (احزاب: ۳)خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی خدمت، امانت ودیانت، وفاداری اور بہتر صفات کی وجہ سے اپنا منھ بولا بیٹا بنا لیا تھا؛ چوں کہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عربوں میں بھی لے پالک بنانے کا تصور موجود تھا، اس کی بنا پر صحابہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زید ابن محمد کہا کرتے تھے، اور ان کو آپ کی طرف منسوب کرتے تھے؛ لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو پھر ان کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرتے ہوئے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا جانے لگا، ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میرے بھائی یعنی دینی بھائی اور دوست ہو: أنت اخونا ومولانا (صحیح بخاری عن البراء بن عازب، حدیث نمبر: ۲۶۹۹) اور اس تصور کو ختم کرنے کے لئے ان کی طلاق شدہ بیوی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے نکاح فرما لیا، جس کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے؛ تاکہ آپ کے عمل کے ذریعہ پوری طرح اس تصور کی تردید ہو جائے۔

 یہ نہ صرف شریعت کا حکم ہے؛ بلکہ یہ فطرت کا تقاضا بھی ہے، بعض رشتے زبان کے بول سے وجود میں آتے ہیں اور ایسے پیشے زبان کے بول سے ختم بھی ہو جاتے ہیں، جیسے شوہر اور بیوی کا رشتہ، تاجر اور گاہک کا تعلق، مالک اور کرایہ دار کا تعلق وغیرہ، اور بعض رشتے فطری ہوتے ہیں، جیسے والدین اور اولاد، بھائی اور بہن، ان رشتوں کو پیسوں سے یا زبان کے بول سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، اور ہر شخص اس بات کو محسوس کر سکتا ہے کہ اس کو حقیقی اور فطری اولاد سے جو محبت ہوتی ہے، مصنوعی اولاد سے اس طرح کی محبت پیدا نہیں ہوتی؛ اس لئے گود لینے کا تصور فطرت کے خلاف ہے۔

 اس سلسلے میں خود امریکہ اور یورپ کی جو ریسرچ سامنے آئی ہے، اس کے مطابق گود لئے جانے والے بچے یا تو اپنے حقیقی ماں باپ سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اور ان میں یہ احساس پروان چڑھنے لگتا ہے کہ میرے ماں باپ نے میری پرورش کرنا گوارا نہیں کیا، یا ان کے اندر گود لینے والے کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ میں اس کا بیٹا نہیں ہوں اور یہ مجھے اپنا بیٹا قرار دیتا ہے؛ اسی لئے بعض اسکالرس نے لکھا ہے کہ بہت سے بچوں میں جن کی پرورش اس طریقہ پر ہوئی، مجرمانہ ذہن پیدا ہوگیا، اور وہ سماج کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئے؛ اس لئے اس قانون میں کوئی معقولیت نہیں ہے، یہ در اصل ہندو تصور کا پَر تو ہے؛ کیوں کہ برادران وطن کے یہاں جب تک مرنے والے کا بیٹا اس کی چِتا کو آگ نہیں لگائے، اس کو نجات حاصل نہیں ہوتی ہے، شاید اس پس منظر میں ہندو سماج میں گود لینے کا تصور پیدا ہوا اور اس رواج کو ہندو میرج ایکٹ (۱۹۵۵ء) میں بطور قانون کے شامل کر دیا گیا۔

 البتہ جہاں تک بے سہارا بچوں کی کفالت کی بات ہے تو اسلام اس کو بہتر نظر سے دیکھتا ہے اور اس کی ترغیب دیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی یتیم کی کفالت کرے تو میں اور وہ اس طرح ہوں گے، جیسے یہ دو انگلیاں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو قریب کر کے بتایا : أنا وکافل الیتیم کھاتین (صحیح بخاری عن سہل بن سعد، حدیث نمبر: ۶۰۰۵)

(۲) اس قانون کی رُو سے اگر زنا کی وجہ سے کوئی بچہ پیدا ہو تو وہ زانی کی اولاد سمجھا جائے گا اور جو حقوق جائز اولاد کے ہیں، وہی حقوق اس ناجائز بچے کے بھی ہوں گے، اسی طرح اگر کرایہ پر کسی عورت کی کوکھ حاصل کی گئی اور اس سے بچہ پیدا ہوا ، یا کسی اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ عورت کسی غیر مرد سے حاملہ ہوئی تو اس سے پیدا ہونے والا بچہ بھی حقیقی بیٹا سمجھا جائے گا، میراث اور تمام معاملات میں اس کے وہی حقوق اور احکام ہوں گے جو حقیقی اولاد کے ہوتے ہیں۔

 اس کے دور رس اثرات پڑیں گے، اس بچہ پر اُن تمام مردوں اور عورتوں سے نکاح حرام قرار پائے گا، جن سے حقیقی اولاد کا نکاح حرام ہوتا ہے، اس کی وجہ سے جو شریعت میں اصل وارث ہیں، ان کا حصہ متأثر ہو جائے گا، مثلاََ اگر کسی کی ایک بیٹی تھی تو شرعاََ وہ آدھے ترکے کی حقدار ہوتی؛ لیکن اگر اس نے کسی لڑکے کو گود لے لیا، یا اس کا کوئی ناجائز بچہ تھا اور اس کو بیٹا مان لیا گیا تو اس ترکہ میں سے ایک چوتھائی ہی اس لڑکی کو ملے گا۔

 یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ولدالزنا کو اپنی اولاد کا درجہ دینا انسانی فطرت اور سماجی مصلحت کے خلاف ہے، انسانی فطرت کے خلاف اس لئے کہ تمام جانداروں میں انسان ہی ایسی مخلوق ہے، جن کے لئے ہمیشہ سے نکاح کا نظام رکھا گیا ہے؛ تاکہ نسب کی شناخت باقی رہے، اگر ناجائز اولاد کو اپنی اولاد کا درجہ دیا جائے تو شناخت متأثر ہو جائے گی، اور ایک بچہ ایسے مرد کی طرف منسوب ہوگا، جو حقیقت میں اس کا باپ نہیں، اور سماجی مسائل اس لئے پیدا ہوں گے کہ اگر ولدیت کے ثبوت کے لئے اس کے والدین کے درمیان نکاح ضروری نہیں ہو تو کوئی بھی شخص کسی کی جائیداد میں دعویٰ دار بن کر کھڑا ہو سکتا ہے، اور کہہ سکتا ہے کہ فلاح شخص نے مجھے اپنا بیٹا بنا لیا تھا، اس طرح جھوٹے دعوؤں کا ایک سلسلہ قائم ہو جائے گا، جن کا رد کرنا مشکل ہو جائے گا۔

 زنا کا حرام ہونا تو ظاہر ہی ہے؛ لیکن پرائی عورت کی کوکھ کرایہ میں لینا بھی زنا میں شامل ہے؛ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: تمہاری بیویاں ہی تمہاری کھیتیاں ہیں؛ لہٰذا اپنی ہی کھیتی پر جس طریقہ سے آنا چاہو ،آؤ (بقرہ: ۲۲۳) اس سے صاف معلوم ہوا کہ کسی دوسری عورت کو اپنی اولاد کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا؛ کیوں کہ وہ تمہاری کھیتی نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی ایسے شخص کے لئے اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو، حلال نہیں ہے کہ وہ دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرے (سنن ابو داؤد عن رویفع بن ثابت، حدیث نمبر: ۲۱۵۸) دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی اجنبی عورت کے رحم میں اس کے بچہ کی پرورش ہو۔

 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصول مقرر کر دیا ہے کہ کسی بھی عورت سے جو بچہ پیدا ہو، تو جو مرد اس عورت کے فراش کا مالک ہو، یعنی شوہر، وہی اس بچہ کا باپ ہوگا، زانی شخص کا اس بچہ میں کوئی حصہ نہیں ہوگا: الولد للفراش وللعاھر الحجر (صحیح بخاری عن عائشہؓ، حدیث نمبر: ۲۲۱۸) ایک اور روایت میں ہے کہ زنا سے جو بچہ پیدا ہو، وہ عورت کے شوہر سے نہ وراثت پائے گا اور نہ اس کے مال میں اس شخص کو حصہ ملے گا: أیما رجل عاھر بحرۃ أو أمۃ فالولد ولد زنی لا یرث ولا یورث ( سنن ترمذی عن عبداللہ بن عمروؓ، حدیث نمبر: ۲۱۱۳)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com