ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ کا مجوزہ نقشہ شریعت اور قانون فطرت کے آئینہ میں! (۲)

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

(۳) بالغ ہونا ایک فطری وارتقائی عمل ہے، جو ہر انسان بلکہ ہر جاندار کے اندر ایک عمر کے بعد وجود پذیر ہوتا ہے، اور اس کی مخصوص علامتیں ہیں، جیسے: مردوں میں احتلام، مادۂ منویہ کا انزال، عورتوں میں: ماہواری کے نظام کا آغاز، یا حمل کا استقرار، اس کے علاوہ جسم کے بالائی حصہ پر بھی بعض علامتیں ظاہر ہوتی ہیں، جیسے داڑھی یا مونچھ یا زیر ناف بالوں کا نکل آنا، ان علامات کے ذریعہ ہمیشہ سے بالغ ونابالغ لڑکوں اور لڑکیوں کی پہچان ہوتی رہی ہے، اس کے لئے قطعی عمر کی تعیین مشکل ہے، موسم اور غذا کے اعتبار سے بھی مختلف علاقوں اور آبادیوں میں بالغ ہونے کی الگ الگ عمر دیکھی گئی ہے؛ اس لئے فقہاء کے درمیان بھی بالغ ہونے کی کم از کم عمر میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعد کے ادوار میں عام طور پر فقہاء کی رائے بنی کہ پندرہ سال کی عمر کو بلوغ کی عمر مانا جائے، یعنی اگر کسی لڑکے یا لڑکی کی عمر پندرہ سال ہو جائے اور علامات بلوغ اس پر ظاہر نہیں ہوئی ہوں تو اس کو بالغ سمجھا جائے گا، اور ایک بالغ مرد یا عورت سے جو احکام متعلق ہیں، جیسے: نماز، روزہ یا دوسرے واجبات، وہ اُن سے متعلق ہو جائیں گے، اسی طرح معاملات جیسے: نکاح، خریدو فروخت اور دوسرے مسائل میں وہ خود معاملات کو طے کرنے کے مجاز ہوں گے۔

(۴) بالغ ہونے کے احکام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ خود اپنا نکاح کر سکتے ہیں، اس کے لئے ولی کی اجازت ضروری نہیں ہے؛ اگرچہ نکاح کی کوئی عمر متعین نہیں ہے؛ لیکن بالغ ہونے کے بعد چوں کہ لڑکا ہو یا لڑکی، اس کو فطری طور پر اپنے جوڑے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور اگر نکاح کی ضرورت پڑنے کے بعد بھی نکاح میں تاخیر کی جائے تو گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے؛ اس لئے بہتر ہے کہ وہ جلد نکاح کر لیں؛ لیکن یہ ضروری نہیں ہے؛ کیوں کہ مختلف لوگوں کے حالات الگ الگ ہوتے ہیں؛ البتہ کوئی لڑکا یا لڑکی جسمانی طور پر بالغ ہونے کے بعد اپنا نکاح کرنا چاہے تو اس کو نکاح سے روکا نہیں جا سکتا۔

 اتراکھنڈ میں جو یونیفارم سول کوڈ پاس کیا گیا ہے، اس کی رو سے اٹھارہ(۱۸) سال سے کم عمر لڑکا نابالغ تصور کیا جائے گا، اور لڑکیوں کے لئے یہ عمر اکیس (۲۱)سال کی عمر رکھی گئی ہے، اس سے پہلے اگر انھوں نے اپنا نکاح کر لیا تو یہ جرم ہے، یہ بات قرآن وحدیث کی رُو سے بھی درست نہیں ہے، اور قانون فطرت کے بھی خلاف ہے، قرآن مجید میں لڑکی کے لئے حیض آنے کو بلوغ کی ابتداء قرار دیا گیا ہے، (طلاق، آیت نمبر: ۴) اور خود حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ پندرہ سال کے لڑکے کو بالغ قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ مجھے غزوۂ احد کے دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، جب کہ میری عمر چودہ (۱۴) سال تھی، توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس غزوہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی، اور غزوۂ خندق کے دن پیش کیا گیا جب کہ میری عمر پندرہ (۱۵) سال تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی، (احکام الاحکام فی شرح عمدۃ الاحکام:۲؍۳۱۲، حدیث نمبر: ۴۱۹)

 فقہاء نے بھی اس کی صراحت کی ہے اور احتلام ، انزال، حیض اور استقرار حمل کو بالغ ہونے کی علامت قرار دیا ہے، اور اگر یہ علامتیں ظاہر نہ ہوں تو پندرہ سال کی عمر کو بلوغ کا معیار مانا ہے: والسن الذی یحکم ببلوغ الغلام والجاریۃ اذا انتھیا الیہ خمس عشرۃ سنۃ عند أبی یوسف ومحمد، وھو روایۃ عن ابی حنیفۃ وعلیہ الفتوی (الفتاویٰ الھندیہ:۵؍۶۱ ) اور شریعت میں بالغ ہونے سے پہلے بھی ولی کے ذریعہ لڑکے اور لڑکی نکاح ہو سکتا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ نابالغ مطلقہ کی عدت تین مہینہ مقرر کی گئی ہے ، (طلاق، آیت نمبر: ۴) اور خود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح نابالغی کی عمر میں ہوا ہے ، (مسلم، کتاب النکاح، حدیث نمبر: ۱۴۴۲) اسی لئے اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ بلوغ سے پہلے بھی لڑکے اور لڑکی کا نکاح ہو سکتا ہے؛ البتہ یہ اس کے ولی کی اجازت سے ہوگا: اجمع کل من نحفظ عنہ من أھل العلم أن نکاح الأب ابنتہ البکر الصغیرۃ جائزۃ (المغنی لابن قدامۃ:۹؍ ۳۹۷) اب اگر قانون فطرت کی رو سے ان دو نکات پر غور کیا جائے کہ بلوغ کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال ہو اور نکاح کی کم سے کم اٹھارہ یا اکیس سال ، تو یہ دونوں باتیں پوری طرح عقل وفطرت کے خلاف معلوم ہوتی ہیں۔

 بالغ ہونااور نہ ہونا ایسی چیز نہیں ہے، جس کے لئے کسی نصاب کی تکمیل یا کسی امتحان میں پاس ہونا مطلوب ہو، یہ تو ایک فطری نظام ہے، جیسے بچہ ایک عمر تک دودھ پیتا ہے، پھر غذا کھاتا ہے، ایک عمر کے بعد اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا ہے پھر چلتا ہے، شروع میں تو تتلاتے ہوئے بولتا ہے، پھر قوت گویائی مکمل ہوتی ہے، ایک مدت کے بعد اس کے بال پکنے لگتے ہیں، یہ ایک فطری عمل ہے، اس کو قانون کی پابندی سے باندھنا ایسا ہی ہے، جیسے کوئی سورج اور چاند کے لئے حکم جاری کرے کہ وہ فلاں وقت میں طلوع ہو اور فلاں وقت ڈوب جائے، جس چیز کو فطرت خود متعین کر دے، اس میں انسانی اختیار کا کوئی دخل نہیں ہے، اسی طرح نکاح ایک ضرورت ہے، یہ بالکل ایسا ہی ہے، جیسے انسان کو بھوک لگتی ہے اور غذا وہ کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اسی طرح شوہر وبیوی کا تعلق ایک جسمانی ضرورت ہے اور اس کی چاہت پیدا ہونے میں ارادہ کا بھی دخل نہیں ہے؛ لہٰذا جس چیز کو قانونِ فطرت متعین کرتا ہو، اس کو کوئی انسان قانون کیسے متعین کر سکتا ہے؟

 یہ دراصل مغربی فکر کی بازگشت ہے، اللہ تعالیٰ نے شیطان کا ایک کردار یہ بتایا ہے کہ وہ لوگوں کو قانون فطرت کے توڑنے پر اُکسائے گا۔

 آج ہر شعبۂ زندگی میں مغرب کے اس رویے کو دیکھا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ اب پیدا ہونے والے بچوں کو اپنی جسمانی ساخت سے قطع نظر اپنی جنس متعین کرنے کا حق دیا جا رہا ہے، یعنی چاہے ایک لڑکا اپنی جسمانی بناوٹ کے اعتبار سے لڑکا ہو؛ لیکن وہ لڑکی کہلوانا چاہتا ہے تو اس کو حق ہے کہ وہ لڑکی کی حیثیت سے اپنا اندراج کرائے، اور اس کو لڑکی ہی شمار کیا جائے، نکاح کی ضرورت اور اس کی طلب پیدا ہونے کے باوجود نکاح سے روکنا یہ اس کے ساتھ ظلم ہے، اور اس سے سماج میں اخلاقی بگاڑ پیدا ہوگا؛ کیوں کہ جب کسی ضرورت کو جائز طریقے پر پورا کرنے سے روک دیا جائے تو انسان اس کو ناجائز طریقے پر پورا کرنے پر تُل جاتا ہے، اور اس سے معاشرہ میں جرائم کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے، اِس وقت ہمارے ملک میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں، اور ہزار قانونی کوششوں کے باوجود اُن کو روکنے میں جو دشواری پیش آرہی ہے، اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ نکاح میں تاخیر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ، حد تو یہ ہے کہ اٹھارہ اور اکیس سال کی لڑکی اور لڑکے کو آپسی رضامندی سے جسمانی تعلق کی اجازت دی جاتی ہے؛ لیکن نکاح سے روکا جاتا ہے۔

(۵) لِیو اِن ریلیشن شِپ یعنی نکاح کے بغیر دو جوان مردو عورت کا آپسی رضامندی سے ایک ساتھ رہنا اس وقت قانون کی رُو سے جواز کے دائرہ میں آگیا ہے اور وہ دونوں آپس میں جسمانی رشتہ بھی قائم کریں، اس کی بھی اجازت دی گئی ہے، یہ اخلاق، انسانیت اور مذاہب کی مشترکہ اور مسلّمہ تعلیم کے خلاف ہے، اسلام کی نظر میں یہ سخت گناہ ہے، اور نکاح کے بغیر ایک دوسرے سے ازدواجی انداز کا رابطہ رکھنا حرام ہے، قرآن مجید نے صاف کہا ہے کہ بدکاری اور آشنائی جائز نہیں ہے: غیر مسافحات ولا متخذات أخدان (نساء: ۲۵)

 اس قانون کی رُو سے لیو اِن ریلیشن شپ کی بنیاد پر جو بچے پیدا ہوں گے، ان کو حقیقی بچوں کا درجہ حاصل ہوگا، زانی پر بچوں کے وہی حقوق واجب ہوں گے، جو باپ پر بچوں کے تئیں واجب ہوتے ہیں، پہلے بھی بات آچکی ہے کہ شریعت کی رو سے یہ ناقابل قبول ہے، انسان نرومادہ جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ جب چاہا اور جس سے چاہا، جسمانی رشتہ بنایا اور آگے بڑھا، یہ قانون نہ صرف مسلمانوں کو متأثر کرے گا؛ بلکہ ہندوستان کی روایت اور تہذیبی قدروں کے بھی خلاف ہوگا، اگر ایسے تعلق کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچوں کو حقیقی بچوں کا درجہ دے دیا گیا تو خاندان کے لوگ بھی ان کو حقارت کی نظر سے دیکھیں گے اور آئندہ ان کے جائز رشتوں میں بھی دشواری پیش آئے گی؛ اس لئے صحیح طریقہ یہ ہے کہ لیو اِن ریلیشن شپ کو غیر قانونی مانا جائے اور اس کو منع کیا جائے۔ (جاری)

۰ ۰ ۰

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com