خورشید عالم داؤد قاسمی
تقریبا گیارہ مہینے سے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو اور اس کی کابینہ کے حکم سے اسرائیلی قابض فوج، غزہ کی پٹی میں، نسل کشی کا ارتکاب کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کی ضد ہے کہ وہ اپنی طاقت سے مغویوں کو آزاد کرائے گا۔ وہ حماس کو ختم کرکے رہے گا۔ گیارہ مہینے کی طویل مدت کے بعد، وہ اپنے مقاصد کے حاصل کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ وہ حماس کے بہانے اپنے مہلک صہیونی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پورے غزہ کی پٹی کو تباہ و برباد کرچکا ہے۔ غزہ کی پٹی کا سارا انفراسٹرکچر ملبے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ عمارتیں مسمار اور منہدم کی جاچکی ہیں۔ بغیر کسی رعایت کے شہری آبادی پر بمباری کی جارہی ہے۔ طبی اور تعلیمی ادارے پر بم برسائے اور میزائل داغے جاتے ہیں۔ تقریبا چھ سو مساجد اب تک شہید کی جاچکی ہیں۔ بہت سے چرچ بھی زمین دوز کردیے گئے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں، دنیا کا قدیم ترین چرچ بھی اسرائیلی دہشت گردی سے نہیں بچ سکا اور اس پربھی بم برسائے گئے ہیں۔ مشرق وسطی کے مسائل سے دلچسپی رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ گذشتہ گیارہ مہینے میں، غزہ کی پٹی میں قابض دہشت گرد اسرائیلی افواج نے جتنے بم گرائے ہیں، وہ دوسری عالمی جنگ میں، جاپان کے شہر “ناگاساکی” پر امریکہ کی طرف سےنو اگست 1945 کو گرائے گئے ایٹم بموں سے چار گنا زیادہ ہے۔ غزہ کے شہری ہر چند دنوں کے بعد، ایک جگہہ سے دوسری جگہ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ تعلیم گاہ اور طبی ادارے تہس نہس کیے جاچکے ہیں۔ لوگ ایک وقت کے کھانے کے لیے پریشان ہیں۔ عام شہری ابتدائی طبی امداد سے بھی محروم ہیں۔ غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق، اس اس جنگ میں، اب تک تقریباً اکتالیس ہزار معصوم فلسطینی شہید ہوچکے ہیں؛ جب کہ زخمیوں کی تعداد تقریبا 95 ہزار ہوچکی ہے۔ طبی جریدے “لانسیٹ” کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، اس اسرائیلی جنگ کے نتیجے میں، غزہ میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 186000 سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
نتن یاہو اپنی ضد پر ہے؛ جب کہ بہت سے ممالک میں عوام اس کی حکومت کی نسل کشی کے خلاف پرزور احتجاج کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک کے عوام اس حوالے سے پیش پیش ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف مغربی ممالک میں، اسرائیلی حکومت کے خلاف اب تک پندرہ ہزار سے زیادہ مظاہرے ہوچکے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دنیا کے دوسرے ممالک کی مشہور یونیورسٹیوں کے طلبہ مستقل مظاہرے کر رہے ہیں۔ عوامی سطح پر اسرائیل ایک دہشت گرد ملک کے طور پر متعارف ہورہا ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک نے اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات ٹوڑلیے ہیں اور اسرائیلی سفیر کو واپس بھیج دیے ہیں۔ جنوبی افریقہ گذشہ سال دسمبر میں، غزہ کی پٹی میں اسرائیلی نسل کشی کے خلاف، بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا تھا، اب جنوبی افریقہ کے ساتھ دوسرے بارہ ممالک بھی اس مقدمہ میں اسرائیل کے خلاف فریق بن چکے ہیں۔ اگر اللہ نے چاہا؛ تو قابض اسرائیل بہت جلد دست وپا شکستہ ہوجائے گا۔
اندرون خانہ یعنی قابض اسرائیل میں بھی حالات اچھے نہیں ہیں۔ سکیورٹی کابینہ کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم نتن یاہو اور وزیر دفاع یاہو گیلنٹ ایک دوسرے پر چیختے چلاتے ہیں۔ وزیر دفاع کا الزام ہے کہ وزیر اعظم نے زیر حراست مغویوں کی رہائی کو ترجیح دینے کے بجائے مصر اور غزہ کے ساتھ سرحدی کوریڈور پر قبضہ کو ترجیح دی۔ وقفے وقفے سے عوام کی ناراضگی احتجاج کی شکل میں، اسرائیل کی سڑکوں پر ظاہر ہورہی ہے۔ اسرائیلی شہریوں نے بروز: شنبہ، 31/ اگست 2024 کو نتن یاہو اور اس کی حکومت کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئےزبردست احتجاج کیا۔ اس کی وجہہ یہ تھی کہ اسرائیلی فوج کو جنوبی غزہ کے رفح میں، زیر زمین سرنگ سے حماس کے ذریعے گذشتہ سال سات اکتوبر کو یرغمال بنائے گئے قیدیوں میں سے چھ کی لاشیں دستیاب ہوئیں۔ ان لاشوں کی دستیابی کے بعد، نتن یاہو نے اپنی ناکامی پر اسرائیلی شہریوں سے معافی مانگی۔ مگر شہریوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ لاشوں کے ملنے کی خبر جیسے عام ہوئی، مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ وزیر اعظم کے دفتر کے باہر بھی لوگوں نے مظاہرے کیے۔ پھر مزید مظاہروں اور عام ہڑتال کی کال دی گئی۔ اس دن سے پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ مظاہرین نے تل ابیب میں اسرائیلی وزارت دفاع میں آگ لگا دیا ہے۔
سی این این کی 2/ ستمبر کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، بروز: اتوار یکم ستمبر کو صرف تل ابیب میں ساڑھے پانچ لاکھ اور پورے قابض اسرائیل میں تقریبا سات لاکھ عوام نے نتن یاہو، اس کی حکومت اور اس کی حکمت عملی کے خلاف زبردست احتجاج کیے۔ پھر اگلے دن، یعنی بروز: پیر، 2/ ستمبر کو بھی پورے اسرائیل میں مظاہرے کے ساتھ ساتھ ہڑتال کیا گیا۔ کچھ وقتوں کے لیے اسرائیل انتظامیہ کو اپنے اہم “بین الاقوامی بن گورین طیران گاہ” کو بند کرنا پڑا۔ اس ہڑتال کے سبب ملک میں کارو بار زندگی معطل ہوگئی۔ احتجاج کے ساتھ ساتھ ہڑتال نے اتنا سخت رخ اختیار کیا کہ اسرائیلی وزیر خزانہ بزلئیل اسمارٹچ نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ وہ ہڑتال کو رکوانے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کرے۔ پھر عدالت نے اس درخواست کے بعد، ہڑتال ختم کرنے کا حکم جاری کیا۔
مظاہرین کا الزام ہے کہ نتن یاہو اپنے سیاسی مفاد کے لیے حماس کے ساتھ جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کی راہ میں حائل ہے۔ اس احتجاج میں پیش پیش یرغمال قیدیوں کے اہل خانہ کا فورم ہے۔ اس فورم نے عوام سے درخواست کی کہ ملک کو جام کردیا جائے۔ قابض اسرائیل کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین “ہستادروت” اور سابق اسرائیلی وزیر اعظم اور حزب مخالف کے رہنما یائر لیپڈ اس احتجاج کی حمایت کر رہے ہیں۔ مظاہرین چاہتے ہیں کہ نتن یاہو حماس کے ساتھ جلد سے جلد کسی معاہدہ پر پہنچے اور یرغمال بنائے گئے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ممکن ہوسکے۔
اب قابض اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ولایات متحدۂ امریکہ کا صدر، جو بائیڈن بھی نتن یاہو سے ناراض نظر آرہا ہے۔ جن چھ مغویوں کی لاشیں رفح میں ایک سرنگ سے اسرائیلی قابض فوج کو ہاتھ لگیں ہیں، ان میں ایک امریکی شہری ہرش گولڈ کی لاش بھی شامل ہے۔ امریکی شہری کی لاش ملنے پر امریکی صدر نے اپنے غصے کا اظہار کیا۔ بائیڈن کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کو حماس کے ساتھ جنگ بندی اور مغویوں کی رہائی کے معاہدے کے حوالے جو کوشش کرنی چاہیے تھی، وہ نہیں کر رہے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مغویوں کے اہل خانہ، اسرائیلی عوام اور اسرائیلی وزیر دفاع کے ساتھ اب امریکی صدر بھی اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکی تجویز کے مطابق، جنگی بندی کے حوالے سے جو مذاکرات ہو رہے ہیں، اس میں نتن یاہو حائل ہے۔ وہ مذاکرات کاروں کو کسی معاہدے پر پہنچنے نہیں دے رہا ہے۔
موجودہ حالات سے دو چار اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر، اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی، اتمار بن گویر نے 2/ستمبر ایک بیان جاری کیا۔ اس نےاس بیان میں اپنی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ مزید فلسطینی زمین پر قبضہ کیا جائے اور غزہ میں صہیونیوں کو بسانے کے لیے بستیاں قائم کی جائے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینی قیدیوں کے لیے پھانسی کی سزا کو دوبارہ سکیورٹی کابینہ کے ایجنڈے پر لایا جائے۔ اتمار بن گویر کا یہ بیان انتہائی خطرناک ہے۔ عالمی سطح پر لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اسرائیلی جیل میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ انتہائی غیر انسانی رویہ اپنایا جاتا ہے۔ ان کو طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ مسئلہ فلسطین سے دلچسپی رکھنے والا ہر انصاف پسند شخص اس بات سے واقف ہے کہ وہ فلسطینی بزرگ، جوان، بچے اور خواتین جو اسرائیل کی جیل میں قید ہیں، وہ کسی جرم کے پاداش میں نہیں ہیں۔ انھیں ایک طرح سے اسرائیلی قابض فوج اغوا کرکے، اسرائیل کی جیلوں میں قید کردیتی ہے۔ پاگل کتے کی طرح لوگوں کو پریشان کرنے والا وزیر اتمار بن گویر ان قیدیوں کے قتل اور پھانسی کی بات کررہا ہے۔ حقوق انسانی کے ادارے کو چاہیے کووہ اس وزیر کے خلاف قدم اٹھائے۔
پچھلے گیارہ مہینے سے قابض اسرائیل کی غزہ کی پٹی میں بربریت، سرکشی اور نسل کشی جاری ہے۔ دنیا کے متعدد بڑے ممالک نے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں۔ مگر اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اب اسرائیل کا وقت بہت قریب آچکا ہے۔ حماس کا تعارف ایک مزاحمتی تنظیم سے دنیا میں ضرور تھا۔ مگر کسی کو یقین نہیں تھا کہ حماس قابض اسرائیل، جسے دنیا کا پانچواں طاقتور ملک شمار کیا جاتا ہے، کے سامنے اس طرح گیارہ مہینے تک ڈٹا رہے گا؛ لیکن حماس نے یہ باور کرادیا کہ وہ قابض اسرائیل سے مقابلے کی طاقت رکھتا ہے اور اسے شکست بھی دے سکتا ہے۔ ابھی چند دنوں قبل، یعنی 23/ اگست کو عالمی خبر رساں ادارے کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوئی۔ اس خبر میں حالیہ جنگ کے حوالے سے اسرائیلی فوج کے سابق میجر جنرل یزہاک برک کا بیان پڑھا؛ تو سمجھ میں آیا کہ اسرائیل میں کس طرح لوگ پریشان ہیں اور ڈر وخوف کے سايے میں جی رہے ہیں۔ یزہاک برک نے حماس کے ہاتھوں اپنے حکومت کی شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا: “ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں جہاں سے باہر نکلنا ناممکن ہے۔ ہم ایسی جگہ پھنس چکے جہاں ایک طرف حماس کے ساتھ جنگ جاری ہے؛ تو دوسری جانب ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی گشیدگی ہے۔” سابق جنرل نے کہا: “اگر غزہ جنگ بندی مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں، تو خطے میں نہ ختم ہونے والی جنگ چھیڑ سکتی ہے۔ پھر اسرائیل ہر جانب سے شدید خطرات میں گھر جائے گا۔ وزیر دفاع نے غزہ کے حوالے سے جو اہداف مقرر کیے تھے، ان میں کوئی بھی ہدف پورا نہیں ہوسکا۔ اگر یہی صورت حال رہی اور اسرائیلی وزیر اعظم اور ان کے اتحادی تبدیل نہ ہوئے؛ تو اسرائیل آئندہ ایک سال میں صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔”
قابض اسرائیل کی موجودہ صورت حال اب سب کے سامنے ہے۔ مغویوں کے اہل خانہ پریشان ہیں اور نتن یاہو کی حکومت کے خلاف اسرائیل کی سڑکوں پر ہیں۔ احتجاج اور مظاہرے میں اسرائیلی شہری مغویوں کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ مظاہرین کو ٹریڈ یونین اور حزب مخالف کی حمایت حاصل ہے۔ حماس کے سامنے اپنی کھلی شکست دیکھ کر، نتن یاہو کی کابینہ کے ارکان آپس میں ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں۔ بڑے بڑے تاجر اور تعلیم یافتہ لوگ اسرائیل سے ہجرت کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ قابض غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ختم ہونے کا وقت قریب آگیا ہے۔ اے اللہ ان کے آپس میں پھوٹ ڈال دیں! ان کی جماعت کو متفرق کردیں! ان کے قدموں کو ڈگمگا دیں! ان کی طاقت کو پارہ پارہ کردیں! طاقت اور سازش کے تحت وجود میں لائے گئے صہیونی ریاست کو صفحۂ ہستی سے مٹادیں! اے اللہ، بیشک آپ ہر چیز پر قادر ہیں۔ ∎∎∎∎
٭ مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ