ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ کا مجوزہ نقشہ شریعت اور قانون فطرت کے آئینہ میں! (۳)

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

۶) اس قانون میں ایک بنیادی بات یہ کہی گئی ہے کہ ایک بیوی کی موجودگی میں مرد کو دوسرے نکاح کی اجازت نہیں ہوگی، اسی طرح عورت کو بھی ایک شوہر کی موجودگی میں کسی اور مرد سے نکاح کی ممانعت ہوگی ……. اس کا دوسرا جز تو صحیح ہے کہ ایک عورت کے دو شوہر نہیں ہونے چاہئیں، اگر ایک عورت کے دو شوہر ہوں تو پیدا ہونے والے بچوں کا نسب مشتبہ ہو جائے گا، دونوں شوہر بچوں کو اپنی طرف منسوب کرنا چاہیں گے، اس سے آپس میں نزاع پیدا ہوگی، اور یہ ایسا حساس مسئلہ ہے کہ اس سے خون خرابہ تک کی نوبت آسکتی ہے، دوسرے ایک عورت کا ایک سے زائد مردوں سے تعلق مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے، یہ میڈیکل دنیا کی متفقہ رائے ہے، ایڈز جیسی خطرناک بیماری کا بنیادی سبب دو باتوں کو قرار دیا گیا ہے، اول: ایک عورت سے کئی مردوں کا تعلق، دوسرے: ایک مرد کا دوسرے مرد سے غیر فطری طور پر اپنی جنسی خواہش کو پوری کرنا؛ اس لئے اسلام میں ان دونوں باتوں کی قطعاََ کوئی گنجائش نہیں ہے۔

 اس قانون کا پہلا جزء کہ مرد کو ایک بیوی کے رہتے ہوئے دوسرے نکاح کی اجازت نہیں ہوگی، شرعی نقطۂ نظر سے غلط ہے، اور یہ انسانی ضرورتوں سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے، قرآن مجید نے مرد کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کی گنجائش رکھی ہے، جو چار کی تعداد سے آگے نہ بڑھے؛ البتہ ان سب کے درمیان عدل یعنی انصاف اور برابری ضروری ہے، اگر انصاف کرنے کی صلاحیت اور استطاعت نہ ہو تو ایک ہی بیوی پر اکتفاء کرنے کا حکم ہے (نساء: ۳) حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ ایک صاحب نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ہدایت دی کہ چھ کو چھوڑ دیں اور چار کو اپنے نکاح میں باقی رکھیں، (ترمذی عن ابن عمرؓ، حدیث نمبر: ۱۱۲۸)

 ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت معاشرتی ضرورت کا تقاضہ بھی ہے، بعض دفعہ بیوی اپنی صحت کی وجہ سے وہ ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتی، جو اُس سے متعلق ہیں، بعض اوقات جنسی قوت کے اعتبار سے مرد بڑھا ہوا ہوتا ہے اور بیوی اس کے جسمانی تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہوتی ہے، ایسی صورت میں اگر اس کو دوسرے نکاح کی اجازت نہیں دی جائے تو وہ غیر قانونی راستہ اختیار کر سکتا ہے اور سماج میں برائی پھیل سکتی ہے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض عورتیں ماں بننے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہیں اور صاحب اولاد ہونے کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہوتا ہے، جس کو غلط نہیں کہا جا سکتا ہے، اس کے لئے مرد کو دوسرے نکاح کی ضرورت ہوتی ہے، بعض اوقات میاں بیوی میں شدید منافرت پیدا ہو جاتی ہے اور خود بیوی کہتی ہے کہ وہ اس سے رشتہ ختم نہ کرے؛ بلکہ اپنی پسند کا دوسرا رشتہ کرلے، میں اس کے لئے رضامند ہوں، اگر دوسرے نکاح کی اجازت نہیں ہوگی تو ان حالات میں قطع تعلق کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوگا؛ اس لئے اگرچہ کہ اسلام نے نہ دوسرے نکاح کو واجب قرار دیا ہے، نہ مستحب کہا ہے؛ بلکہ اکثر فقہاء نے ایک ہی نکاح پر اکتفاء کو بہتر قرار دیا ہے، (عالمگیری:۱؍ ۳۴۱) مگر اس کے باوجود سماجی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے عدل وانصاف کی شرط کے ساتھ اس کی اجازت دی گئی ہے، اور اس میں خود عورتوں کا مفاد بھی ہے؛ کیوں کہ دوسرا نکاح عام طور پر مطلّقہ اور بیوہ عورتوں سے کیا جاتا ہے، اور اس طرح بے سہارا عورتوں کو سہار احاصل ہو جاتا ہے۔

(۷) اس قانون میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ طلاق سے پہلے عدالت مرد وعورت کو کچھ دنوں کے لئے الگ الگ رکھے اور اس کو طلاق کے لئے لازم قرار دیا گیا ہے………….. یہ بات بھی درست نہیں ہے، شریعت میں طلاق کو ضرور ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے؛ لیکن اگر کسی بنا پر طلاق دینی ہی پڑ جائے توضروری ہے کہ شوہر طلاق دینے کا اہل ہو، یعنی عاقل وبالغ ہو، اور بیوی طلاق کی محل ہو، یعنی اس کے نکاح میں ہو، طلاق سے پہلے دونوں کو ایک مدت کے لئے الگ الگ رکھنا ضروری نہیں ہے۔

 اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ شریعت میں خود طلاق دینے سے پہلے اُن طریقوں کو استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، جو رشتہ کے قائم رکھنے میں معاون ہوں؛ تاکہ طلاق کی نوبت نہ آئے؛ لیکن بعض دفعہ ایسے حالات ہوتے ہیں کہ اب مزید ایک عرصہ تک دونوں کو بحیثیت میاں بیوی ساتھ رکھنا ممکن نہیں ہوتا، اس میں تشدد پیدا ہوتا ہے، نفرت بڑھ جانے کے اندیشے ہوتے ہیں؛ اس لئے اسلام انے اس کو لازم قرار نہیں دیا، قرآن مجید میں ہے کہ جس نے اپنی بیوی کو ایک سے دو بار طلاق دی تو اب یا تو بھلے طریقہ پر روک رکھے یا بہتر رویہ کے ساتھ چھوڑ دے، (بقرہ: ۲۲۹) یہ قانون بعض دفعہ خود عورتوں کے لئے مشقت اور تناؤ کا باعث بن سکتا ہے، بیوی شوہر سے جلد سے جلد نجات حاصل کرنا چاہتی ہو اور وہ اس کے لئے شوہر کو آمادہ کر چکی ہو تو اب مزید اس سے انتظار کرانا ایک تکلیف دہ عمل ہوگا؛ اس لئے یہ ناقابل قبول ہے۔

(۸) طلاق کو مشکل بناتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ضروری ہے کہ طلاق سے پہلے ایک سال یا اس سے زیادہ کی علیحدگی ہوئی ہو اور طلاق کی عرضی داخل کرنے کی تاریخ سے پہلے چھ ماہ گزر چکے ہوں۔

 یہ شرطیں بھی شریعت کی تعلیمات کے خلاف ہیں، شریعت میں طلاق واقع ہونے کے لئے زوجین کی باہمی رضامندی ضروری نہیں، اور نہ طلاق سے پہلے ایک سال یا اس سے کم یا زیادہ مدت کی علیحدگی ضروری ہے، نہ اس کے لئے عرضی داخل کرنے کے لئے چھ ماہ کی شرط رکھی گئی ہے؛ اس لئے یہ شرائط اسلام کے قانونِ طلاق کے خلاف ہیں اور ا س کی کوئی عقلی بنیاد بھی نہیں ہے۔

(۹) طلاق کے بعد دوبارہ شادی کے لئے شرط عائد کی گئی ہے کہ طلاق کے خلاف کوئی اپیل نہ ہو، یا اپیل کی تاریخ ختم ہوگئی ہو، یا عدالت نے اس کو کالعدم قرار دے کر ختم کر دیا ہو، یہ اس مفروضہ پر ہے کہ شوہر کو طلاق دینے کا اختیار نہیں ہے؛ لیکن شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر اس نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دی ہو تو شوہر بیوی سے رجوع کر سکتا ہے، اور اگر ایک طلاق بائن دی ہو یا ایک یا دو طلاق دی ہو اور عدت گزر گئی ہو تو اب دونوں کی آپسی رضامندی سے نکاح ہو سکتا ہے؛ البتہ اگر شوہر نے تین الگ الگ مجلسوں میں تین بار طلاق دے دی ہو تو تمام فقہاء کے نزدیک تین طلاق واقع ہوگئی، اور اگر ایک ہی ساتھ تین طلاق دے دی ہو تو جمہور فقہاء اور فقہ کے چاروں مشہور ائمہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی، صرف اہل حدیث حضرات اس کو ایک طلاق مانتے ہیں۔

 شریعت میں مرد کو جو طلاق کا حق دیا گیا ہے، اس میں بڑی مصلحتیں ہیں، اس میں عورت کی عزت ووقار کا بھی تحفظ ہے اور یہ اس کی طرف سے تشدد کو روکنے کا ذریعہ ہے، اگر شوہر اور بیوی میں بناؤ نہ ہو، اور مرد چاہتا ہو کہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے اور اس کے لئے قانون کی نظر میں کوئی گنجائش نہیں ہو تو اس کے رد عمل میں تشدد پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، جیسا کہ آئے دن اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، اور یہ بھی اندیشہ ہے کہ وہ طلاق کے لئے عدالت سے رجوع کرے اور اس میں عورت کے کردار اور اخلاق پر انگلی اٹھائی جائے، جو عورت کو سماج میں رسوا کرتا ہے، غرض کہ طلاق کے معامالہ میں سخت بندش عورت کی عزت ووقار کو سخت خطرہ میں ڈال سکتی ہے۔

(۱۰) اس قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر طلاق دینے والا مرد دوبارہ اس عورت سے نکاح کرنا چاہے تو حلالہ کے بغیر دوسری شادی ہو سکتی ہے، اس سلسلے میں ضروری وضاحت یہ ہے کہ ہر طلاق ایسی نہیں ہے کہ دوبارہ مرد وعورت کے رشتہ کے لئے حلالہ کی ضرورت پڑتی ہو، اگر ایک یا دو طلاق رجعی دے یا ایک طلاق بائن دے یا تین دفعہ طلاق کا لفظ کہے؛ مگر تین کے عدد کی صراحت نہ کرے اور کہے کہ میرا مقصد ایک طلاق دینا ہی تھا، میں نے تاکید کے لئے تین کا لفظ استعمال کیا تھا، اور مفتی طلاق دیتے وقت کی صورت حال کو سامنے رکھ کر ایک طلاق واقع ہونے کا فتویٰ دے تو ان تمام صورتوں میں دوبارہ نکاح کے لئے شرعا حلالہ کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ اگر تین طلاق واقع ہوگئی تو یہ حکم ہے کہ اب ان دونوں کے درمیان نکاح نہیں ہو سکتا، اگر اتفاق سے عورت کا کسی اور مرد سے نکاح ہوا اور خدا نخواستہ اس سے بھی رشتہ استوار نہیں رہ سکا اور نوبت طلاق کی آگئی ، پھر دونوں کو خیال ہوا کہ ہم ازدواجی رشتہ میں بندھ جائیں تو اس کی گنجائش ہے، اس حکم کا مقصد یہ ہے کہ لوگ تین طلاق دینے میں احتیاط کریں، اور یہ مرد کے لئے ایک سخت سزا ہے، نیز یہ سمجھنا درست نہیں کہ حلالہ ایک منصوبہ بند عمل ہے کہ ایک معاہدہ کے ساتھ نکاح ہو کہ دوسرا شخص ایک شب اس عورت کے ساتھ گزارنے کے بعد اسے طلاق دے دے گا؛ بلکہ یہ ایک اتفاقی بات ہے، عورت نے ایک پائیدار ازدواجی زندگی گزارنے کے لئے نکاح کیا؛ مگر تعلقات خوشگوار نہ رہ سکے اور طلاق کی نوبت آگئی ، پھر اتفاق ہوا کہ سابق شوہر وبیوی دوبارہ ازدواجی زندگی بحال کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے ، جس کو حلالہ کہا جا رہا ہے، اس کی حقیقیت یہی ہے۔ (جاری)

۰ ۰ ۰

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com