ہمارے اور بی جے پی کے درمیان نظریاتی جنگ چل رہی ہے: راہل گاندھی

کانگریس لیڈر اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے منگل کی رات دیر گئے واشنگٹن ڈی سی میں بی جے پی کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں کانگریس اور ان کے اتحادیوں کا بی جے پی اور آر ایس ایس سےنظریاتی جنگ چل رہی ہے۔ یہ ہندوستان کے دو بالکل مختلف نظریے ہیں۔ ہم ایک تکثیری نقطہ نظر پر یقین رکھتے ہیں، جہاں ہر ایک کو پنپنے کا حق حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ہی راہل گاندھی نے کہا کہ 2014 کے بعد ہندوستانی سیاست میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ “ہم نے ایک جارحانہ سیاست دیکھی جو ہمارے جمہوری ڈھانچے پر حملہ کرتی ہے۔” لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف بننا ان کے پہلے کے کام کی توسیع ہی ہے۔

کانگریس کے سابق صدر نے کہا ”ہندوستان میں، تمام خیالات کو آزادانہ طور پر پنپنے کا موقع ملنا چاہیے، جہاں آپ پر اس بنیاد پر ظلم نہیں کیا جاتا کہ آپ کس مذہب کی پیروی کرتے ہیں، آپ کا تعلق کس برادری سے ہے یا آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔ دوسری طرف، ایک سخت اور نقطہ نظر ہے، یہ منظر نامہ ہے، اور ہم اس منظر نامے پر لڑ رہے ہیں۔ ہندوستان کے اداروں کی حفاظت کرو، کمزور طبقات کی حفاظت کرو، نچلی ذاتوں، قبائلیوں، اقلیتوں اور غریبوں کی حفاظت کرو۔”

راہل گاندھی نے کہا کہ ”بھارت جوڑو یاترا کے بعد، میں نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی آواز بننے کی کوشش کی۔ اس کے لیے آپ کو سمجھنا ہوگا کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے۔ آپ کو زرعی دنیا، وہاں جاری جدوجہد، مالیاتی نظام اور ٹیکس کے نظام کی گہرائی میں جانا ہوگا۔ آپ کو لوگوں سے بات کرنی ہوگی، اور پھر ان کے نقطہ نظر کو گہرائی سے سمجھنا ہوگا اور ایک وسیع تناظر پیش کرنا ہوگا۔ ملک کے لیے انڈیا الائنس کا وژن بی جے پی کے مرکزی اور آمرانہ وژن سے بالکل مختلف ہے۔”

کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کو تبدیلی نہیں بلکہ ایک سفر بتایا۔ انہوں نے کہا کہ 2014 کے بعد ہندوستانی سیاست میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ “ہم نے ایک جارحانہ سیاست دیکھی جو ہمارے جمہوری ڈھانچے پر حملہ کرتی ہے۔ یہ ایک سخت لڑائی ہے، لیکن یہ ایک اچھی لڑائی بھی رہی ہے۔ ذاتی طور پر بھی بہت کچھ بدل گیا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس اور اس کے اتحادیوں کا ہندوستان کے لیے جو ویژن ہے وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے ویژن سے مختلف ہے۔ “ہم تکثیریت میں یقین رکھتے ہیں، جہاں تمام برادریوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے، جب کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا نقطہ نظر زیادہ سخت ہے، 90فیصد ہندوستان قبائلیوں، پسماندہ ذاتوں، دلتوں اور اقلیتوں سے تعلق رکھتا ہے، لیکن مسئلہ ان کی شرکت کا ہے۔ میڈیا، کارپوریٹ یا حکومت میں ان کی موجودگی بہت کم ہے اور ایک اقلیتی طبقہ ان کو چلا رہا ہے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ ان کے اور انڈیا نامی اتحاد کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ “کیا ہم غیر ضانبدار ہیں؟”

جب راہل گاندھی سے پوچھا گیا کہ کانگریس نے کرناٹک میں اس مسئلے کو کیسے حل کیا ہے، جہاں کانگریس کی حکومت ہے، اس کے جواب میں راہل گاندھی نے کہا کہ ہندوستان جیسے ملک کے لیے، کانگریس سروس سیکٹر کے بجائے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دینے پر زور دے رہی ہے ۔ یہاں پیداوار کی حوصلہ افزائی کرنے کا بڑا موقع ہے، لیکن کانگریس چینی ماڈل کو اپنا نہیں سکتی کیونکہ یہ جمہوری نہیں ہے، کانگریس کے پاس کرناٹک اور تلنگانہ میں حکومتیں ہیں، اور کانگریس پیداوار کے نظام کو ایک جگہ یا ایک ہاتھ میں مرکوز کرنے پر یقین نہیں رکھتی بلکہ اس کے پھیلاؤ کو فروغ دینے پر کام کر رہی ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com