شمس الہدیٰ قاسمی
بازار حصص (Stock Market) ایک ایسا منظم مالیاتی ادارہ ہے جہاں کمپنیاں اپنے حصص عام عوام کو فروخت کرتی ہیں اور سرمایہ کار ان حصص کو خرید کر ،کمپنی میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔ یہ بازار معیشت کا ایک اہم ستون ہے؛ کیوں کہ یہاں نہ صرف کمپنیوں کو اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے سرمایہ اکٹھا کرنے کا موقع ملتا ہے، بلکہ سرمایہ کاروں کو بھی منافع کمانے اور اپنے سرمایہ کو بڑھانے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔
بازار حصص کا مقصد:
بازار حصص کا بنیادی مقصد سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کے درمیان ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے جہاں وہ مالی لین دین کر سکیں۔ یہ پلیٹ فارم کمپنیوں کو سرمایہ فراہم کرتا ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی ترقی اور کاروباری منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکتی ہیں؛ جب کہ سرمایہ کاروں کو منافع کمانے کے مواقع ملتے ہیں۔
حصص کی خرید و فروخت:
حصص کی خرید و فروخت بازار حصص کا سب سے بنیادی اور عام عمل ہے۔ اس میں سرمایہ کار کمپنیوں کے حصص خرید کر، ان میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔ حصص کی قیمتیں کمپنی کی کارکردگی اور مارکیٹ کی صورتحال کے مطابق بڑھتی یا گھٹتی ہیں، جس کے نتیجے میں سرمایہ کار کو منافع یا نقصان ہوتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے سرمایہ کاروں کو کمپنیوں کی ملکیت میں شراکت داری کا موقع ملتا ہے۔
فیوچر اینڈ آپشن:
فیوچر اینڈ آپشنز بازار حصص کا ایک پیچیدہ اور زیادہ خطرناک حصہ ہے۔ یہ مالیاتی معاہدے ہیں جن کے ذریعے سرمایہ کار مستقبل کی قیمتوں پر شرط لگاتے ہیں:
فیوچر میں ایک معاہدہ کیا جاتا ہے کہ کسی خاص مالیاتی اثاثے کو مستقبل میں ایک مقررہ تاریخ پر ایک خاص قیمت پر خریدا یا بیچا جائے گا۔
آپشن سرمایہ کار کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ مستقبل کی قیمت پر تجارت کرے، لیکن اس کے لیے وہ پابند نہیں ہوتا کہ وہ معاہدہ مکمل کرے۔ یہ کاروبار زیادہ رسک والا ہوتا ہے، لیکن اگر سرمایہ کار مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کو سمجھ لے، تو یہ منافع بخش ثابت ہو سکتا ہے۔
آئی پی او کی فروخت:
آئی پی او (Initial Public Offering) اس وقت ہوتا ہے جب کوئی کمپنی پہلی بار اپنے حصص عوام کو فروخت کے لیے پیش کرتی ہے۔ اس عمل کے ذریعے کمپنی اپنے نجی دائرے سے نکل کر عوامی کمپنی بن جاتی ہے اور سرمایہ اکٹھا کرتی ہے، تاکہ وہ اپنے کاروبار کو وسعت دے سکے۔ سرمایہ کاروں کو اس موقع پر کمپنی کے ابتدائی حصص خریدنے کا موقع ملتا ہے، جس سے وہ کمپنی کے مستقبل کے منافع میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔
بازار حصص ایک ایسا جامع نظام ہے جو سرمایہ کاری اور مالیاتی لین دین کو فروغ دیتا ہے۔ حصص کی خرید و فروخت، فیوچر اینڈ آپشنز کا کاروبار، اور آئی پی او کی فروخت جیسے کاروبار سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کے درمیان مضبوط مالیاتی تعلقات کو فروغ دیتے ہیں، جو ملک کی معیشت کے استحکام اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
حصص کی خرید و فروخت:
حصص کی خرید وفروخت کا شرعی حکم فقہاء اور علماء کے درمیان کچھ شرائط کے ساتھ جائز قرار دیا گیا ہے، بشرطے کہ اس میں اسلامی اصولوں اور شرعی قوانین کی پابندی کی جائے۔ شیئرز یا حصص کی خرید و فروخت کو اسلامی معاشی اصولوں کے مطابق قرار دینے کے لیے درج ذیل شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے:
(1) کارو بار حلال ہو:
سب سے اہم شرط یہ ہے کہ جس کمپنی کے حصص خریدے جا رہے ہیں، اس کا کاروبار حلال اور جائز ہونا چاہیے۔ مثلاً، کمپنی سود، جوا، شراب، یا کسی بھی غیر شرعی کاروبار میں ملوث نہ ہو۔
(2) سود سے پاک ہو:
شیئرز کی خرید و فروخت میں سود (ربا) کا عنصر شامل نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کمپنی کا زیادہ تر سرمایہ سودی قرضوں پر مبنی ہو یا وہ سودی لین دین میں ملوث ہو تو اس کمپنی کے حصص میں سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں۔
(3) حقیقی اثاثوں کی بنیاد پر ہو:
شیئرز کی خرید و فروخت میں یہ ضروری ہے کہ کمپنی کے پاس حقیقی اثاثے ہوں اور یہ صرف مالیاتی لین دین پر مشتمل نہ ہو۔ محض قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر شرط لگانا، جو کہ سٹے بازی یا جوا کے مترادف ہو، شرعی طور پر ناجائز ہے۔
(4) اختیار اور حق ملکیت:
شیئرز خریدنے والا شخص کمپنی میں واقعی حصہ دار بنے اور اسے کمپنی کی ملکیت کا حق حاصل ہو۔ اس کے بغیر محض کاغذی حصص کی خرید و فروخت یا قیمتوں پر سٹے بازی جائز نہیں۔
فیوچر اینڈ آپشن:
جیسا کہ ہم نے شروع میں ہی کہا کہ یہ بازار کا بہت پیچیدہ اور خطرناک حصہ ہے۔ فیوچر اور آپشن مالیاتی مارکیٹ میں استعمال ہونے والے معاہدے ہیں جو سرمایہ کاروں کو مختلف اثاثوں کی قیمتوں میں کمی بیشی سے فائدہ اٹھانے کی سہولت دیتے ہیں۔ دونوں معاہدوں میں کچھ فرق ہوتا ہے:
(1) فیوچر (Futures)
فیوچر ایک معاہدہ ہوتا ہے جس میں خریدار اور فروخت کنندہ ایک خاص قیمت پر کسی اثاثے (جیسے اسٹاک، اجناس یا کرنسی) کو مستقبل میں کسی مقررہ تاریخ پر خریدنے یا بیچنے کا پابند ہوتے ہیں۔
اس معاہدے میں دونوں فریقین کو مقررہ تاریخ پر اپنے حصے کا لین دین کرنا ضروری ہوتا ہے، چاہے مارکیٹ کی موجودہ قیمت کچھ بھی ہو۔
فیوچر معاہدے عام طور پر سرمایہ کار قیمتوں کی غیر یقینی صورتحال سے بچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں یا قیمتوں کی حرکات سے منافع کمانے کے لیے۔
(2) آپشن (Options)
آپشن ایک ایسا معاہدہ ہے جو خریدار کو حق دیتا ہے، لیکن اس پر کوئی لازمی شرط نہیں ہوتی، کہ وہ مستقبل میں ایک خاص قیمت پر کوئی اثاثہ خریدے یا بیچے۔
دو قسم کے آپشن ہوتے ہیں:
(1) کال آپشن (Call Option) یہ خریدار کو حق دیتا ہے کہ وہ ایک مقررہ قیمت پر اثاثہ خرید سکے۔
(2) پٹ آپشن (Put Option) یہ خریدار کو حق دیتا ہے کہ وہ ایک مقررہ قیمت پر اثاثہ فروخت کر سکے۔
آپشن معاہدے کا فائدہ یہ ہے کہ خریدار کو نقصان اٹھانے کا خطرہ کم ہوتا ہے، کیوں کہ وہ صرف وہی قیمت ادا کرتا ہے جو معاہدے کی قیمت ہوتی ہے۔
فرق:
فیوچر میں خریدار اور فروخت کنندہ دونوں پابند ہوتے ہیں کہ معاہدہ مکمل کریں گے، جب کہ آپشن میں صرف خریدار کو حق ہوتا ہے اور وہ مجبور نہیں ہوتا۔
مارکیٹ میں ایکسپائری ڈیٹ (Expiry Date) اس لیے ہوتی ہے تاکہ مالیاتی معاہدوں، جیسے فیوچرز اور آپشنز، کی مدت کو محدود کیا جا سکے۔ ایکسپائری ڈیٹ اس تاریخ کو ظاہر کرتی ہے جس پر معاہدہ ختم ہو جاتا ہے اور خریدار یا فروخت کنندہ کو معاہدے کی شرائط کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد مارکیٹ میں تجارت کو متحرک رکھنا اور قیمتوں کو درست طور پر طے کرنا ہے تاکہ مالیاتی معاہدوں کی مدت کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کو بہتر طریقے سے مینیج کیا جا سکے۔
فیوچر (Futures) کی مثال : ٹاٹا موٹرز:
فرض کریں کہ آپ کو لگتا ہے کہ ٹاٹا موٹرز کے شیئر کی قیمت اگلے تین ماہ میں بڑھ جائے گی۔ اس وقت ٹاٹا موٹرز کے شیئر کی قیمت 600 روپے ہے۔ آپ ایک فیوچر معاہدہ کرتے ہیں جس کے تحت آپ تین ماہ بعد 600 روپے فی شیئر پر 1000 شیئرز خریدنے کا وعدہ کرتے ہیں۔
تین ماہ بعد:
اگر ٹاٹا موٹرز کے شیئر کی قیمت 700 روپے ہو جاتی ہے، تو آپ کو فائدہ ہو گا کیوں کہ آپ 600 روپے فی شیئر پر خریدیں گے اور فوری 100 روپے فی شیئر منافع کمائیں گے۔ لیکن اگر شیئر کی قیمت 500 روپے ہو جاتی ہے، تو آپ کو نقصان ہو گا کیوں کہ آپ کو 600 روپے فی شیئر پر خریدنا پڑے گا جب کہ مارکیٹ میں قیمت 500 روپے ہو چکی ہو گی۔
فیوچر معاہدے میں آپ کو ہر صورت میں معاہدہ پورا کرنا ہوتا ہے، چاہے مارکیٹ آپ کے حق میں ہو یا نہیں۔
آپشن (Options) کی مثال – ٹاٹا موٹرز:
فرض کریں آپ کو لگتا ہے کہ ٹاٹا موٹرز کا شیئر اگلے تین ماہ میں بڑھ جائے گا۔ اس وقت شیئر کی قیمت 600 روپے ہے۔ آپ تین ماہ کے لیے ایک کال آپشن خریدتے ہیں، جو آپ کو حق دیتا ہے کہ آپ تین ماہ بعد 600 روپے فی شیئر پر خرید سکیں۔ آپشن کی قیمت (Premium) 20 روپے فی شیئر ہے۔
تین ماہ بعد:
اگر شیئر کی قیمت 700 روپے ہو جاتی ہے، تو آپ اس حق کا استعمال کرتے ہیں اور 600 روپے فی شیئر پر خریدتے ہیں، یوں آپ کو فی شیئر 80 روپے (700 – 600 = 100 – 20 Premium) کا منافع ہوتا ہے۔ لیکن اگر شیئر کی قیمت 500 روپے ہو جاتی ہے، تو آپ اس آپشن کا استعمال نہیں کریں گے اور صرف آپشن کی قیمت (20 روپے فی شیئر) کا نقصان برداشت کریں گے۔
آپشن میں آپ کو یہ حق ہوتا ہے کہ آپ معاہدہ پورا کریں یا نہیں، جس سے نقصان محدود رہتا ہے۔
فیوچر اور آپشن ٹریڈنگ کا کاروبار اسلامی نقطہ نظر سے جائز نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان میں درج ذیل عناصر شامل ہوتے ہیں جو اسلامی شریعت کے اصولوں کے خلاف ہیں:
(1) قیاس آرائی (Speculation)
فیوچر اور آپشن ٹریڈنگ میں زیادہ تر تجارت قیاس آرائی پر مبنی ہوتی ہے۔ یعنی، لوگوں کو حقیقی طور پر سامان کی ضرورت یا اس کی خرید و فروخت کا ارادہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ قیمتوں کے اُتار چڑھاؤ پر منافع کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلام میں اس قسم کی قیاس آرائی جس میں غیر یقینی اور خطرے (غرر) کا عنصر شامل ہو، جائز نہیں ہے۔
( 2) سود یا ربا:
فیوچر اور آپشن ٹریڈنگ میں اکثر معاہدے سود پر مبنی ہوتے ہیں، خاص طور پر اگر ادھار یا مؤخر ادائیگی شامل ہو۔ اسلام میں سود سختی سے ممنوع ہے۔
( 3) غرر (Uncertainty)
فیوچر اور آپشن معاہدے میں مال کا حقیقی قبضہ یا ملکیت نہیں ہوتی، بلکہ ایک مقررہ مدت کے بعد ہونے والی قیمت پر معاہدہ کیا جاتا ہے۔ اس میں غرر (غیر یقینی صورت حال) موجود ہوتی ہے، جو اسلام میں جائز نہیں ہے۔
( 4) قبضہ کی کمی:
اسلامی تجارت میں کسی بھی شے کا حقیقی قبضہ ہونا ضروری ہے، جب کہ فیوچر اور آپشن ٹریڈنگ میں فوری قبضہ یا ملکیت کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ کہ فیوچر اور آپشن ٹریڈنگ، اپنی روایتی شکل میں، زیادہ تر اسلامی علما کے نزدیک ناجائز ہے، کیوں کہ اس میں قیاس آرائی، سود، اور غرر جیسے غیر شرعی عناصر شامل ہیں۔
فیوچر اور آپشن کو جائز قرار دینے والے لوگ عام طور پر درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں:
(1) ضرورت اور جدید مالیاتی نظام کی بنیاد پر: فیوچر اور آپشن کو جدید مالیاتی نظام کا حصہ سمجھا جاتا ہے، اور ان کے بغیر کاروبار اور معیشت کو چلانا مشکل ہوتا ہے۔ بعض علماء جدید مالیاتی معاملات کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہیں اور انہیں مختلف شرعی ضوابط کے ساتھ جائز قرار دیتے ہیں۔
(2) معاہدے کی شرائط: کچھ لوگوں کے مطابق اگر فیوچر اور آپشن کے معاہدے میں صاف اور واضح شرائط ہوں، اور فریقین کی رضامندی سے معاملہ طے پائے تو اسے جائز کہا جا سکتا ہے، کیونکہ دونوں طرف کے لوگ رضامندی سے معاہدہ کرتے ہیں۔
(3) قیاس کی بنیاد پر: بعض علماء اسے قیاساً اس طرح کے معاہدوں کے ساتھ ملاتے ہیں جو ماضی میں قبول کیے گئے تھے، جیسے سلم کا معاملہ، جہاں ادائیگی اور اشیاء کی فراہمی مستقبل کی تاریخ پر ہوتی ہے۔ تاہم، ان دلائل پر مکمل اتفاق نہیں ہے اور جمہور علماء فیوچر اور آپشن کو ناجائز سمجھتے ہیں، کیوں کہ اس میں زیادہ تر معاملہ قیاس پر ہوتا ہے اور اس میں غرر (غیر یقینی صورتحال) اور جوا شامل ہونے کے امکانات ہیں۔ ••••
(ایڈیٹر: دی لائٹ، جامعہ اسلامیہ، اکل کوا، مہاراشٹر)