مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ ” تحفظ اوقاف کانفرنس “ کی اختتامی نشست سے اکابر علماء ہند کا ولولہ انگیز خطاب!
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی صدارت، مفتی ابو القاسم نعمانی کی سرپرستی، امت کے نام اہم پیغامات!
مولانا فضل الرحیم مجددی، مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی، مولانا صغیر احمد رشادی، مولانا محمد یوسف علی، مولانا رحمت اللہ کشمیری، مولانا احمد ولی فیصل رحمانی، مفتی افتخار احمد قاسمی، مولانا مقصود عمران رشادی و دیگر کے اہم خطابات!
بنگلور: (پریس ریلیز) مرکز تحفظ اسلام ہند کے کے زیر اہتمام منعقد ہفت روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی اختتامی نشست ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث امیر ملت حضرت اقدس مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی مدظلہ کی سرپرستی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ کی صدارت میں منعقد ہوئی۔
اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں صدر بورڈ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے فرمایا کہ وقف کا مسئلہ ملت اسلامیہ کے ملی وجود کا مسئلہ ہے، اگر یہ وقف ترمیمی بل پاس ہوگیا تو ہمارے مساجد و مدارس، خانقاہیں، درگاہیں، قبرستانیں سب کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، وقف املاک حکومت کی مہربانی سے مسلمانوں کو نہیں ملی بلکہ مسلمانوں کے آباؤ اجداد نے اللہ کے نام پر دینی و خیراتی ضرورتوں کے لئے اپنی حق حلال کی کمائی وقف کی ہے۔ لہٰذا حکومت کا وقف ترمیمی بل کے ذریعے وقف املاک کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش غیر آئینی و غیر دستوری ہے- مسلمانوں اور تمام انصاف پسند افراد کو وقف بل کی مخالفت کرنی چاہئے۔ بورڈ اس بل کو روکنے کے لیے قانون و آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے مختلف سطح پر کوشش کر رہا ہے، اور وہ حالات کو سامنے رکھ کر احتجاج کی مختلف امن صورتوں کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ بورڈ جب بھی آواز دے، اور جس بات کی اپیل کرے، تمام مسلمان دل و جان سے اس پر عمل کریں، اور وقف کی اہمیت کے پیشِ نظر ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار رہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جمہوری تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس بل کو واپس لے لے اور ایسا قانون بنانے سے گریز کرے جو اقلیت دشمنی پر مبنی ہے۔
کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب (رکن تاسیسی بورڈ) نے فرمایا کہ اب تک مختلف قوانین کے ذریعے مسلمان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ وقف ترمیمی بل سب سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ اس سے ہماری مساجد، مدارس، خانقاہیں، قبرستان، وغیرہ سب داؤ پر لگ جائیں گی اور اگر یہ بل پاس ہوگیا تو انکا تحفظ مشکل ہو جائے گا۔ سابقہ وقف قانون وقف املاک کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کافی تھا لیکن مجوزہ وقف ترمیمی بل وقف املاک کو ہڑپنے کی گھناؤنی سازش ہے، اس بل میں وقف ٹربیونل کو ختم کرکے سارے اختیارات کلکٹر کو دئے جارہے ہیں اور وقف بائے یوزر کو بھی ختم کردیا جارہا ہے۔ ظاہر ہیکہ وقف کے تعلق سے حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، یہ مسئلہ ملت کی موت و حیات کا ہے، اس کیلئے ہم سب کو تیار رہنا ہے اور آخری حد تک اس کے خلاف لڑائی لڑنی ہے، اس سلسلے میں متحد ہو کر ہم سب کو عوامی بیداری پیدا کرنی چاہیے۔
کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب نے فرمایا کہ وقف خالص مذہبی و دینی مسئلہ ہے، ہم اس ملک میں اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ رہیں گے، وقف ترمیمی بل ہماری مذہبی آزادی میں مداخلت ہے، اور ہماری مذہبی آزادی میں مداخلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی، لہٰذا حکومت اسے فوراً واپس لے، یہی ملک و ملت کے حق میں بہتر ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف بائے یوزر کو ختم کرنا، سارے اختیار کلکٹر کے حوالے کرنا اور وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی شمولیت وقف املاک کو ہڑپنے کی سازش ہے- یہ مسلمانوں کو کبھی منظور نہیں ہے- اگر حکومت نے یہ غیر دستوری بل زبردستی پاس کروایا تو مسلمان اپنی آئینی و جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے اس بل کے خلاف تاریخ ہند کا سب سے زبردست اور سخت ترین احتجاج درج کرائے گا۔
کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے بورڈ کے سکریٹری اور مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل اپنے مشمولات کے اعتبار سے نہایت نقصاندہ ہے، یہ بل قانون کے نام پر لاقانونیت ہے، حکومت کی منشاء وقف جائیدادوں پر قبضہ کا ہے۔ ہماری بنیادی ذمہ داری ہیکہ ہم اس بل کو پوری قوت کے ساتھ بالکلیہ مسترد کریں۔ ضرورت ہیکہ ہم عوامی بیداری پیدا کریں اور اپوزیشن نیز حلیف پارٹیوں سے دوٹوک بات کی جائے کہ پارلیمنٹ میں اس بل کی مخالفت کریں۔مولانا نے فرمایا کہ اس ملک میں اگر ہمیں اپنے حقوق کی حفاظت کے ساتھ جینا ہے تو ہمیں حق لینا کا ہنر بھی جاننا ہوگا، زندہ قومیں ہمت و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں، لہٰذا اگر یہ بل واپس نہیں ہوتا تو بوقت ضرورت بورڈ کی آواز پر ہمیں ملک گیر احتجاج کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد رشادی صاحب (رکن عاملہ بورڈ) نے فرمایا کہ وقف املاک اللہ کی ملکیت ہوتی ہے، موجودہ حکومت وقف ایکٹ میں ترمیمات ذریعے ہماری وقف جائیدادوں کی حیثیت کو گھٹانے اور ان پر قبضے کرنے کی کوشش کررہی ہے، لہٰذا ہماری دینی و ملی ذمہ داری ہیکہ ہم اس کی حفاظت کیلئے کوشش کریں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے رکن عاملہ حضرت مولانا رحمت اللہ کشمیری صاحب (رکن تاسیسی بورڈ) نے فرمایا کہ وقف اسلامی قانون کا ایک اہم جز اور مسلمانوں کی ملی زندگی کا ایک روشن رخ ہے، لہٰذا اوقاف کی حفاظت کیلئے امت کو بیدار کرنا چاہیے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر شریعت شمالی مشرقی ہند حضرت مولانا محمد یوسف علی صاحب (رکن تاسیسی بورڈ) نے فرمایا کہ اوقاف کی حفاظت اوت وقف ترمیمی بل کی مخالفت اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے۔
تحفظ اوقاف کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر شریعت بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب (سکریٹری بورڈ) نے فرمایا کہ مجوزہ وقف ترمیمی بل اوقاف کی جائدادوں کو کنٹرول کرنے، مسلمانوں کو وقف املاک سے محروم کرنے اور وقف کرنے کی استطاعت کو محدود کرنے کیلئے لایا جارہا ہے۔ یہ بل دستور ہند کے خلاف ہے، اور مسلمانوں کے مذہبی امور میں مداخلت ہے۔ مولانا نے اس بل کے نقصانات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ضرورت ہیکہ اس بل کے خلاف ہم اٹھ کھڑے ہوں اور اپوزیشن کو بھی اس کیلئے آمادہ کریں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند) نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر وقف جائیدادوں کو تہس نہس کرنے، ہڑپنے اور مسلمانوں کو انہی کی جائیدادوں سے بے دخل کرنے کی موجودہ حکومت کی سوچی سمجھی ایک گھناؤنی سازش ہے۔ لہٰذا اس بل کی مخالفت کرنا ہر ایک کی بنیادی ذمہ داری ہے اور جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں اس بل کی ہر سطح پر مخالفت کرنی چاہیے۔
کانفرنس سے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل وقف املاک کیلئے نقصان دہ ہے، اس بل سے وقف املاک پر قبضہ کی راہ ہموار ہوگی، لہٰذا ضرورت ہیکہ اوقاف کی حفاظت کیلئے مسلمان اٹھ کھڑے ہوں۔
قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی اختتامی نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز شعبہ قرأت دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے صدر قاری ریاض احمد مظاہری صاحب کی تلاوت اور دارالعلوم دیوبند کے شعبہئ قرأت کے استاذ قاری اقرار احمد بجنوری کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان بطور خاص موجود رہے۔ اپنے خطاب میں تمام اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور ہفت روزہ ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت بتایا۔ کانفرنس کے اختتام سے قبل مرکز کے رکن مولانا اسرار احمد قاسمی نے تحفظ اوقاف کانفرنس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا، جس کے بعد مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام اکابرین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا۔ حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب کی دعا پر یہ عظیم الشان ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ اختتام پذیر ہوئی۔