سبز پرچم ہٹاکر بھگوا پرچم لہرانے اور اشتعال انگیز گانے کی وجہ سے پھوٹ پڑنے والے فساد پر انتظامیہ قابو پانے میں ناکام، لگاتار دوسرے دن اقلیتی علاقوں پر حملے
بہرائچ کی مہسی تحصیل کے مہراج گنج میں اتوار کی شام مکان کی چھت پر چڑھ کرزبردستی سبز پرچم ہٹاکر بھگوا پرچم لہرانے نیز ڈی جے پر قابل اعتراض گانا بجانے کے بعد پھوٹ پڑنے والے فساد نے شدت اختیار کرلی ہے۔ پولیس نے ۲۰؍ سے زائد افراد کو گرفتار کرلیاہے جبکہ فساد کو پھیلنے سے روکنے کیلئے انٹرنیٹ بند اور بہرائچ کی سرحدوں کو سیل کردیاگیا ہے۔
فساد کا دائرہ دیہاتوں تک پھیل گیا
اس کے باوجود پیر کو فساد کا دائرہ دیہی علاقوں میں پھیل گیا نیز شرپسندوں نے بے روک ٹوک اقلیتی فرقہ کے مکانوں ، دکانوں اور عبادتگاہوں کو دن بھر نشانہ بنایا۔ شرپسندافرادگروپ کی شکل میں آس پاس کے مواضعات میں سرگرم رہے۔ مقامی باشندے پولیس اور انتظامیہ کی بے عملی پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ایک گاؤں میں بلوائیوں کا گروپ توڑ پھوڑ و آتشزنی کرکے چلا جاتا ہے تب پولیس آتی ہے۔ حالات کو قابو میں کرنے کیلئے لکھنؤ سے اعلیٰ افسران جن میں پرنسپل سیکریٹری (داخلہ) سنجیو گپتا اور اے ڈی جی (لا اینڈ آرڈر) امیتابھ یش شاملہیں، بہرائچ پہنچ چکے ہیں۔ بہرائچ ضلع میں انٹر نیٹ خدمات بند ہیں۔ خبر لکھے جانے تک ۲۰؍افراد کو حراست میں لے کر پوچھ کئے جانے کی تصدیق پولیس کپتان ورندا شکلا نے کی ہے۔ ایس پی نے بتایا کہ پورے معاملہ میں سی سی کیمروں کی فوٹیج کی بنیاد پر فسادیوں کو نشان زد کرکے مقدمہ درج کیا جائے گا۔
حالات قابو میں آجانے کا دعویٰ
ایس پی نے دعویٰ کیا ہےکہ فی الحال حالات معمول پر آگئے ہیں۔ سیکوریٹی کے مدنظر پورے علاقہ میں پولیس فورس تعینات ہے۔ ایس ٹی ایف کے کمانڈو دستے اور سی آر پی ایف کے جوانوں نے مورچہ سنبھال لیا ہے۔ خبر لکھے جانے تک پورے ضلع میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔
فسادکیسے پھوٹ پڑا
اتوار کو درگا وِسرجن کے جلوس کے دوران مسلم علاقوں سے گزرتے ہوئے ڈی جے پر قابل اعتراض گانے بجائے گئے اور پھر بہرائچ کی مہسی تحصیل میں مسلمانوں کے ایک مکان پر چڑھ کر زبردستی سبز پرچم ہٹا کر بھگوا پرچم لہرا دیا گیا۔ اس کی وجہ سے علاقے میں فرقہ وارانہ تصادم پھوٹ پڑا اور فائرنگ میں ایک ۲۲؍ سالہ نوجوان کی موت ہوگئی جبکہ کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔اس کے بعد دونوں فرقوں میں جو ٹکراؤ شروع ہوا وہ پیر تک جاری رہاہے اور پولیس اس پر قابو پانے میں ناکام رہی۔ گزشتہ روز دیر شب ضلع کے فخرپور، قیصر گنج، گائے گھاٹ سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں مورتی وِسرجن کے جلوس کے دوران شرپسندوں نے اسلحوں کا مظاہرہ کیا اور ایک مزار میں آگ لگا دی۔ شہر کی چوک بازار سے متصل اسٹیل گنج تالاب مارکیٹ میں مسلمانوں کی دکانوں کو نشانہ بنایا ، ایک گاڑی کو آگ کے حوالے کر دیا ۔
لاش رکھ کر احتجاج
فائرنگ میں ہلاک ہونےوالےگوپال مشرا کی لاش کو رکھ کر مہراج گنج میں ضلع سپتال کیمپس میں مظاہرہ اور کافی دیر تک ہنگامہ کیاگیا، جہاں ڈی ایم مونیکا رانی اور ایس پی ورندا شکلا اور رکن اسمبلی مہسی سریشور سنگھ نے پہنچ کر مظاہرین کو سمجھا کر لاش کو پوسٹ مارٹم کیلئے بھجوایا۔
پیر کوپوسٹ مارٹم کے بعد جب گوپال مشرا کی لاش ریہوا منصور گاؤں پہنچی تو شرپسندوں نے پھر ہنگامہ کیا اور مہراج گنج کے چندپئیا روڈ پر مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا جس سے اقلیتی فرقہ دہشت پھیل گئی اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ مہراج گنج تحصیل کے کبڑین پوروہ میں بھی اقلیتی فرقہ کے متعدد مکانات کو نذر آتش کردیا گیا۔ اسی طرح مصرن پوروہ کی عیدگاہ میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ پولیس نے شہر کے کے مدارس و مساجد سمیت بازار میں گشت بڑھا دی تھی۔ اطلاع کے مطابق شہر سمیت مہسی ودیگر مقامات پر حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ پولیس پر یکطرفہ کارروائی کا الزام بھی عائد ہورہا ہے۔ (بشکریہ انقلاب)