حیدر آباد: (پریس ریلیز) مشہور مصنف اور مقبول قلم کار حضرت مولانا ندیم الواجدی کی وفات علمی دنیا کے لئے بڑا خسارہ اور راقم الحروف کے لئے ایک ذاتی حادثہ ہے، وہ دارالعلوم دیو بند سے ۱۹۷۴ء میں فارغ ہوئے اور میں نے ۱۹۷۵ء میں وہاں دورہ حدیث میں داخلہ لیا اور ۱۹۷۶ء میں اس کی تکمیل ہوئی ، انھوں نے دورہ حدیث کے بعد تحمیل ادب اور غالبا تخصص فی الادب بھی کیا ، جب میں دیوبند حاضر ہوا تو وہ دارالعلوم میں موجود تھے، وہ اپنی ذہانت اور سلیقہ تحریر کی وجہ سے اُس وقت بھی مقبول طالب علم تھے اور اپنے عہد کے مقبول ترین استاذ ، حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی کے چہیتے شاگردوں میں سے تھے، انھوں نے ڈھیر سارے علمی اور تصنیفی کام کئے، جن میں احیاء علوم الدین کا رواں اور عام فہم ترجمہ سب سے اہم کارنامہ ہے، انھوں نے دیو بند میں دار الکتاب کی صورت میں بہت اہم اور مقبول کتب خانہ قائم کیا، جو بہتر طباعت اور مناسب قیمت کے اعتبار سے پورے ملک میں مقبول ہے، اُن کے صاحبزادے عزیز مکرم مولانا یا سرندیم الواجدی صاحب ان کی تعلیم و تربیت کا بہترین نمونہ ہیں اور علمی و دعوتی خدمت انجام دے رہے ہیں ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس کانپور میں باتفاق رائے مولانا ندیم الواجدی صاحب کو بورڈ کا رکن منتخب کیا گیا تھا، اس کے بعد سے بورڈ سے متعلق مسائل پر برابر ان سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا، اللہ تعالی بال بال مغفرت فرمائے ، اُن کے درجات کو بلند کرے اور اُن کے کاموں کو اُن کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔