احمد آباد میں فرضی عدالت کا انکشاف، جج بن کر پاس کیے گئے کئی آرڈر، ملزم گرفتار

گجرات میں فرضی پی ایم او آفیسر، نقلی آئی اے ایس اور فرضی آئی پی ایس کے پکڑے جانے کے بعد اب فرضی واڑہ کے ایک اور حیران کن معاملے کا انکشاف ہوا ہے۔ احمد آباد پولیس نے شہر کے سول کورٹ کے سامنے چل رہی ایک فرضی عدالت کو پکڑا ہے۔ گجرات کے احمد آباد میں یہ فرضی عدالت کافی وقت سے چل رہی تھی۔ اتنا ہی نہیں حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ ماریس کرشچین نامی شخص نے متنازع زمینوں کے کئی آرڈر کر ڈالے، کئی آرڈر ڈی ایم آفس تک بھی پہنچے اور کچھ ڈی ایم آفس سے پاس بھی ہو گئے۔ جب یہ معاملہ احمد آباد سٹی سول سیشنس کورٹ کے پاس پہنچا تو جانچ کے بعد رجسٹرار نے کارنج پولیس تھانہ میں ایف آئی آر داخل کی۔ پولیس نے جانچ کے بعد ماریس کو دبوچ لیا۔ احمد آباد میں فرضی عدالت کے انکشاف کے بعد ہنگامہ مچا ہوا ہے۔

گجرات پولیس نے پیر کو اس سلسلے میں جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ گاندھی نگر میں ایک شخص نے اپنے دفتر میں فرضی ٹریبیونل قائم کر لیا تھا۔ ساتھ ہی خود کو اس کا جج پیش کرکے اس نے حقیقی عدالت جیسا ماحول بنایا اور کئی آرڈر بھی پاس کر دیے۔ پولیس کے مطابق ملزم ماریس سیموئل کرشچین نے 2019 میں سرکاری زمین سے جڑے ایک معاملے میں اپنے موکل کے حق میں حکم پاس کیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ فرضی عدالت کم سے کم پانچ برسوں سے چل رہی تھی۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق احمد آباد پولیس نے ماریس سیموئل کرشچین کو مبینہ طور سے ایک ثالثی ٹریبیونل کے جج کے طور پر خود کو پیش کرنے اور فرضی حکم پاس کرکے لوگوں کو دھوکہ دینے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ کرشچین نے دعویٰ کیا تھا کہ قانونی تنازعات کا نپٹارہ کرنے کے لیے ایک ثالثی عدالت نے اسے ثالث مقرر کیا ہے۔

احمد آباد شہر کے سول کورٹ کے رجسٹرار کے ذریعہ کرنج تھانہ میں شکایت درج کرائے جانے کے بعد اس شاطر ٹھگ کے خلاف کارروائی کی گئی اور فرضی عدالت کا انکشاف ہوا۔ بیان کے مطابق ماریس سیموئل کرشچین پر دفعہ 170 اور 419 کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

پولیس کی ابتدائی جانچ میں پتہ چلا ہے کہ کرشچین ان لوگوں کو پھنساتا تھا جن کے زمینی تنازع سے متعلق معاملے شہر کے سول کورٹ میں زیر التوا تھے۔ وہ اپنے موکلوں سے ان کے معاملے کو سلجھانے کے لیے فیس کے طور پر ایک مقرر رقم لیتا تھا۔

پولیس کے مطابق کرشچین پہلے خود کو عدالت کے ذریعہ مقرر ایک سرکاری ثالث کے طور پر بتاتا تھا پھر اپنے موکلوں کو گاندھی نگر واقع اپنے دفتر میں بلاتا تھا۔ اس دفتر کو اس نے بالکل عدالت کی طرح بنایا ہوا تھا جہاں وہ دیگر عدالتوں کے جیسے آرڈر پاس کرتا تھا۔ کرشچین کے ساتھی عدالت کے ملازم یا وکیل کے طور پر کھڑے ہوکر ایسا ماحول بناتے تھے کہ کارروائی حقیقی معلوم پڑتی تھی۔

2019 میں کرشچین نے اسی طریقہ کار کا استعمال کرکے اپنے موکل کے حق میں ایک حکم پاس کیا تھا۔ یہ معاملہ ضلع کلکٹر کے ماتحت ایک سرکاری زمین سے متعلق تھا۔ ثالثی اور صلح قانون کے تحت کسی بھی عدالت کے ذریعہ جاری کسی بھی اتھاریٹی یا حکم کے بغیر کرشچین نے اپنے موکل سے کہا تھا کہ حکومت کے ذریعہ اسے سرکاری ثالث مقرر کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کے بعد ٹھگ نے اپنی عدالت میں فرضی کارروائی شروع کی اور اپنے موکل کے حق میں ایک حکم پاس کر دیا۔ اس حکم میں کلکٹر کو اس زمین کے محصولات ریکارڈ میں اپنے موکل کا نام جوڑنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ اس حکم کو نافذ کرنے کے لیے کرشچین نے ایک دیگر وکیل کے توسط سے شہر کی سول عدالت میں اپیل داخل کی اور اپنے ذریعہ پاس اس دھوکہ دہی والے حکم کو بھی منسلک کیا۔

حالانکہ عدالت کے رجسٹرار ہاردک دیسائی کو حال ہی میں پتہ چلا کہ نہ تو کرشچین ثالث ہے اور نہ ہی اتھاریٹی کا حکم حقیقی ہے۔ بیان کے مطابق اس کی شکات کے بعد کرنج پولیس نے ایف آئی آر درج کی اور ٹھگ کو گرفتار کرلیا۔ اس کے خلاف 2015 میں احمد آباد شہر کے منی نگر پولیس تھانہ میں دھوکہ دہی کی شکایت پہلے سے ہی درج ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com