سہیل انجم
اتر پردیش کے بہرائچ ضلع کے مہراج گنج کو بھی شرپسندوں کی نظر لگ گئی۔ وہ بہرائچ جو اب تک ایک پرامن ضلع کے طور پر جانا جاتا تھا، اب وہ بھی ایک حساس ضلع میں تبدیل ہو گیا ہے۔ شرپسند تنظیموں اور نفرت انگیز سیاست کے علمبرداروں کو وہاں کے ہندوؤں اور مسلمانوں کا شیر و شکر کے مانند گھل مل کر رہنا راس نہیں آیا۔ لہٰذا وہاں بھی وہی کھیل کھیلا گیا جو ایسے تمام امن پسند علاقوں میں کھیلا جا رہا ہے۔ دراصل اس وقت ملکی سیاست کو جس رخ پر ڈال دیا گیا ہے وہ اسی صورت میں زندہ رہ سکتی ہے جب اسے نفرت و تشدد کی خوراک ملے۔ لہٰذا جب بھی وہ سیاست کمزور پڑتی نظر آتی ہے تو خاک و خون کی وارداتیں شروع کر دی جاتی ہیں۔
اس سیاست کو اسی صورت میں تقویت ملتی ہے جب اس میں مذہب کی غلط طریقے سے آمیزش کی جائے۔ حالانکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب نفرت و دشمنی کی تعلیم نہیں دیتا۔ تمام مذاہب امن و شانتی اور پیار محبت کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن اب ہندوتو کے نام سے ایک نیا مذہب پیدا کر دیا گیا ہے جس میں دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت اور تشدد کو ایک ہتھیار کی حیثیت حاصل ہے۔ بالخصوص مذہب اسلام اور مسلمانوں کا ڈر اور خوف دکھا کر ہندوؤں کو متحد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس کے لیے آسان طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ دھارمک جلوس نکالے جائیں۔ ان کو مسلم علاقوں سے گزارا جائے۔ اور ایسے علاقے سے گزارا جائے کہ راستے میں مسجد ضرور پڑے۔ مسجد کے سامنے پہنچ کر تیز آواز میں ڈی جے پر اشتعال انگیز گانے بجائے جائیں۔ اسلام اور مسلمانوں کو گالیاں دی جائیں۔ اگر وہ پھر بھی خاموش رہتے ہیں اور کوئی جواب نہیں دیتے ہیں تو مسجد کی چھت پر چڑھ کر اسلامی پرچم اتار کر ہندوتوا کا پرچم لہرایا جائے۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو کسی مسلمان کے مکان کی چھت پر چڑھ کر یہی حرکت کی جائے۔ اس کے باوجود اگر مسلمان صبر سے کام لیں تو کہیں سے ایک پتھر پھینک دیا جائے اور یہ افواہ اڑا دی جائے کہ مسلمانوں نے پتھراؤ کیا ہے۔ اور پھر طوفان بدتمیزی برپا کر دیا جائے۔
یہی سب کچھ بہرائچ میں ہوا۔ جب درگا وسرجن جلوس مسجد کے سامنے پہنچا تو اشتعال انگیز گانے بجائے جانے لگے اور ایک ہندو نوجوان ایک مسلمان کے مکان کی چھت پر چڑھ گیا۔ اس نے وہاں اسلامی پرچم اتار کر ہندوتوا کا پرچم لہرایا۔ اس دوران اس کی زور آزمائی میں چھت کی ریلنگ ٹوٹ گئی۔ اسی دوران کسی نے گولی چلائی جو اس نوجوان کو لگی اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ ابھی تک یہ ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ گولی کس نے چلائی لیکن مکان مالک عبد الحمید اور ان کے تین بیٹوں کو اس کا ملزم بنایا گیا اور انھیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس خبر کے پھیلتے ہی فطری طور پر غیر مسلموں میں اشتعال پھیل گیا اور معاملہ مزید بگڑ گیا۔
اگلے روز پورے علاقے میں طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا۔ مسلمانوں کی لاتعداد دکانوں اور مکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ لوٹ مار مچائی گئی۔ مقامی مسلمان خوف و دہشت کے عالم میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ وہ دوسرے محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔ گھروں میں عورتیں اور بچے بچے ہوئے ہیں۔ پولیس ہمیشہ کی طرح پہلے خاموش تماشائی بنی رہی۔ اس نے شرپسندوں کو اپنی کارروائی کرنے کی کھلی چھوٹ دی اور اس کے بعد اس نے مسلمانوں کی اندھادھند گرفتاری شروع کر دی۔ متعدد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اسی دوران میونسپلٹی کی جانب سے 23 مکانوں اور دکانوں پر غیر قانونی املاک کا نوٹس چسپاں کر دیا گیا اور انھیں تین دن کی مہلت دی گئی کہ وہ اس دوران اپنا سامان نکال لیں۔ ان ناجائز تعمیرات کو منہدم کیا جائے گا۔ اگر کسی نے انتظامیہ کے ساتھ تعاون نہیں کیا تو انہدام کا خرچ اسی سے وصول کیا جائے گا۔ لیکن مسلمانوں کا الزام ہے کہ اس کارروائی میں بھی امتیاز سے کام لیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی خبروں میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جن 23 مکانوں پر نوٹس چسپاں کیے گئے ہیں ان میں سے صرف تین غیر مسلموں کے ہیں باقی سب مسلمانوں کے ہیں۔
خبروں کے مطابق ایک ہی قطار میں درجنوں دکانیں ہیں لیکن بیچ بیچ میں غیر مسلموں کی دکانوں کو چھوڑ دیا گیا ہے اور صرف مسلمانوں کی دکانوں پر نوٹس چسپاں کیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی ایک مکان یا دکان کے بالکل برابر میں کوئی مکان یا دکان ہے تو پہلی دکان غیر قانونی اور دوسری قانونی کیسے ہو جائے گی۔ اس سے بالکل صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے تفریقی رویہ برتا جا رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ نوٹس ایسے وقت چسپاں کیے گئے ہیں جب نہ تو متاثرین عدالت کا رخ کر سکیں اور نہ ہی اپنا سامان مکانوں اور دکانوں سے نکال سکیں۔
جمعرات کی تاریخ کا نوٹس ہے جسے جمعے کو لگایا گیا ہے۔ ہفتے کو عدالتیں بند رہتی ہیں لہٰذا کوئی بھی عدالت نہیں جا سکتا۔ اتوار کی شام کو تین دن کی مدت ختم ہو جائے گی اور پیر سے انہدامی کارروائی شروع ہو جائے گی۔ جن گھروں میں صرف عورتیں اور بچے ہیں وہ اپنا سامان کیسے نکالیں گے اور کہاں رکھیں گے۔ ایسا لگتا ہے جیسے جان بوجھ کر ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا کہ متاثرین کوئی قانونی چارہ جوئی نہ کر سکیں۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ جب کہیں دنگا فساد ہوتا ہے تو اسی وقت میونسپل کارپوریشن کو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ فلاں دکان اور مکان غیر قانونی ہے اور ناجائز طور پر اس کی تعمیر ہوئی ہے۔ البتہ اگر الزام غیر مسلموں پر ہے تو پھر یہ انکشاف نہیں ہوتا۔ بہرائچ کے مہراج گنج میں جو انہدامی نوٹس لگائے گئے ہیں اس میں کوئی انتظامیہ پر امتیازی سلوک کا الزام نہ لگا سکے اس لیے تین غیر مسلموں کے مکانوں پر بھی لگا دیے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس کا امتیازی رویہ اس سے ظاہر ہو گیا کہ ایک ہی قطار کی مسلم دکانوں کو نوٹس دیا گیا جبکہ غیر مسلم دکانوں کو بخش دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں اپنے تاریخی فیصلے میں کہا تھا کہ کسی نجی عمارت کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم نہیں کیا جا سکتا۔ انہدام کے لیے اس کی اجازت ضروری ہوگی۔ البتہ اس نے یہ کہا تھا کہ تجاوزات کو ہٹایا جا سکتا ہے اور اگر کہیں ناجائز طریقے سے تعمیرات کی گئی ہیں تو انھیں گرایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے بھی ضابطوں کی پابندی کرنی ہوگی۔ لیکن بہرائچ میں جو کارروائی کی جا رہی ہے اس میں بھی ضابطوں کی مکمل پابندی نہیں کی جا رہی ہے۔ اس طرح پہلے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول بنایا گیا۔ پھر ہنگامہ آرائی کی گئی۔ مکانوں اور دکانوں کو نذر آتش کیا گیا اور اب انہدامی کارروائی کا دور آگیا۔ خدا جانے یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔