مقدس شخصیات کی بے حرمتی پر سخت قانون کی ضرورت

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو بنایا اور اس کو بہت سی مخلوقات سے بسایا ہے ، ان میں جاندار بھی ہیں اور بے جان بھی ، طاقتور بھی ہیں اور کمزور بھی ، چھوٹی بھی ہیں اور بڑی بھی ؛ لیکن ان سب کا مخدوم حضرت انسان کو بنایا گیا ہے ، پوری کائنات اس کی خدمت گذارہے اور ہر شئے اس کو راحت پہنچانے میں لگی ہوئی ہے ، انسان کا یہ اعزاز واکرام اس لئے ہے کہ خالق تعالیٰ نے اس کو اپنی بندگی اور اطاعت و فرمانبرداری کے لئے پیدا کیا ہے ، وہ ہر وقت امتحان کی حالت میں ہے ، اس کا ایک ایک لمحہ ریکارڈ ہورہا ہے ، اس پر مسلسل نگرانی کی جارہی ہے کہ وہ کس حد تک اپنی ڈیوٹی کو مکمل کرتا ہے ؛ لیکن کیا تعلیم و تربیت کے بغیر کسی طالب کا امتحان لیا جاسکتا ہے ؟ اگر آپ کسی بچہ کو پڑھائیں نہیں اور اسے امتحان ہال میں بٹھادیں اور پرچۂ سوال حل کرنے کا حکم دیں تو یہ بات قطعا قابل قبول نہیں ہوسکتی ، پھر انسان اپنی ساٹھ ستر سال کی عمر کا امتحان دے ، آخرت میں اس کے ایک ایک عمل کو تولا جائے اور قیامت کے دن اس کے ایک ایک لمحہ کا جائزہ لیا جائے ، یہ سب کچھ اس کے بغیر کیوںکر ہوسکتا ہے کہ پہلے ان سے وہ باتیں بتائی جائیں ، جن سے ان کا مالک راضی ہوتا ہے ، ان باتوں سے آگاہ کیا جائے ، جن سے ان کا پروردگار ناراض ہوتا ہے ، انھیں دنیا میں زندگی گذارنے کا طریقہ بتایا جائے ، جب ہی ان کا امتحان لینا تقاضۂ انصاف کے مطابق ہوگا ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے کہ ہم اس قوم کو اپنے عذاب میں مبتلا نہیں کرتے جو غافلین یعنی بے خبر ہو ۔ (الانعام: ۱۳۲)

 اللہ تعالیٰ ہر انسان کو براہ راست اپنی مرضیات کے بارے میں بتادیں ، یہ ممکن نہیں تھا ؛ اس لئے کہ ہر انسان کے اندر کلام خداوندی کو اُٹھانے کی صلاحیت نہیں تھی ، بادل کی غیر معمولی گرج کو سننے اور کوندتی ہوئی بجلی کو دیکھنے کی انسان کے اندر طاقت نہیں ہے تو کیا اس کا حقیر وجودبراہ راست خدا کا کلام سننے کا متحمل ہوسکتا تھا ؟ نیز اس لئے بھی کہ ہر انسان جب براہ راست خدا کی بات سنتا تو پھر امتحان کی کیفیت باقی نہیں رہتی ، امتحان تو اسی وقت ہے ، جب اَن دیکھی حقیقتوں پر ایمان لایا جائے — دوسری طرف یہ بات بھی ضروری تھی کہ اللہ کا پیغام اس کے پاس کسی انسان ہی کے ذریعہ پہنچے ؛ کیوںکہ ایک انسان دوسرے انسان ہی کو اپنے لئے نمونہ بناسکتا ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان ہی میں کچھ برگزیدہ ترین بندوں کو منتخب کیا اور انھیں اپنی نبوت سے سرفراز فرمایا ، پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام پہلے نبی بھی تھے ، اور ختمی مرتبت حضرت محمد ﷺ آخری نبی بنائے گئے اور آپ کی ذات والا صفات پر نبوت کا یہ سلسلۃ الذہب مکمل ہوگیا ۔

نبوت اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ ہے ، اس میں انسان کے کسب اور محنت کا کوئی دخل نہیں ہے ، ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص زیادہ محنت کرتا ہو تو اس کو نبوت مل جاتی ہو ، زیادہ لکھتا پڑھتا ہوتو اسے نبوت سے نواز دیا جاتا ہو ؛ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی انتخاب ہے ؛ لیکن اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان کام کے لئے اپنے ان ہی بندوں کا انتخاب فرمایا کرتے تھے ، جو حسن اخلاق کے اعتبار سے امتیازی شان کے حامل ہوں ، عقل و دانش کے لحاظ سے اوج کمال پر پہنچے ہوئے ہوں ، کردار کی پاکیزگی میں اپنی مثال آپ ہوں ، جسمانی قوی کے لحاظ سے بھی اعلیٰ معیار پر ہوں، تخلیقی اعتبار سے بھی مکمل ترین شخصیت ہوں ، غرض وہ ہر لحاظ سے کامل و مکمل ہوتا تھا ، ایک ملک جب دوسرے ملک میں اپنا سفیر بھیجتا ہے تو اس میں بھی یہ بات ملحوظ رکھی جاتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ذہین ، باصلاحیت ، قوت فیصلہ اور سلیقۂ اظہار کا مالک ہو تو اللہ تعالیٰ اپنی نمائندگی کے لئے جن اعلیٰ ترین صفات کی حامل شخصیتوں کا انتخاب کریںگے ؟ یہ ظاہر ہے ، اور جو شخصیتیں خدا کی منتخب کی ہوئی ہوں ، ان پر انگلی اُٹھانا اور ان کی شان میں کوئی بدگوئی کرنا یقیناً چاند پر تھوکنے اوربد نصیبی و کم بختی کے مترادف ہے ۔

اسی لئے تمام انبیاء کا احترام ، ان سے محبت ، ان پر ایمان ، ان کی تعظیم و توقیر اور ان کے ساتھ ساتھ ان کے متعلقین اوررفقاء کا احترام بھی شرعاواجب ہے ، کسی بھی نبی کی شان میں بے احترامی ایمان سے محرومی کا باعث ہے ، اسلام میں اس کی سزا قتل ہے ؛ بشرطیکہ اہانت کا یہ واقعہ ایسی جگہ پیش آیا ہو ، جہاں اسلامی حکومت ہو ، یہ وہ بات ہے جس پر تمام فقہاء متفق ہیں ، یہ حکم نہ صرف پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کا ہے ؛ بلکہ ہر اُس پیغمبر جن کی قرآن مجید نے تصدیق کی ہے — کے سلسلہ میں یہی حکم ہے ، ایسے مذہبی پیشوا جن کا قرآن مجید نے کوئی ذکر نہیں کیا ہے، نہ تصدیق کی ہے، نہ تکذیب، ان کے بارے میں بھی قرآن مجید نے تلقین کی ہے کہ ان کو برا بھلا نہ کہا جائے؛ کیوںکہ اس سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ، اور عمل اوررد عمل کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے : وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام: ۱۰۸)

چنانچہ دنیا کے مختلف ملکوں میں بجا طو پر ایسے قوانین بنائے گئے ہیں ، جو مذہب اورمذہبی پیشواؤں کی توہین کو جرم قرار دیتے ہیں ، ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ایسا قانون موجود ہے اور یہ بالکل مبنی برانصاف قانون ہے، یقیناً ہر شخص کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ جس عقیدہ کو درست سمجھتا ہے ، اس پر یقین رکھے اور جس شخصیت کی محبت وعظمت اس کے دل میں ہے ، اس سے عقیدت واحترام کا تعلق رکھے ، اس کی ستائش کرے ؛ لیکن اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ دوسرے کی محبوب شخصیت کو برا بھلاکہہ کر ان کے معتقدین کے جذبات کو مجروح کرے ؛ مگربڑے افسوس کی بات ہے کہ مغربی ممالک ایک طرف تو انصاف ، رواداری اور انسانی حقوق کی پاسداری کی باتیں کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ اظہار خیال کی آزادی کے نام پر دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ، اولا تو یہی بات قابل غور ہے کہ کیا آزادئ اظہار کا بے قید ہونا انسان کے حق میں بہتر ہے ؟ — یقیناً ایسا نہیں ہے ، یہ ایسا ہی ہے جیسے سڑک پر بائیں جانب سے چلنے کا قانون ہو اور آپ آزادی کی دہائی دے کر اپنی سواری دائیں جانب سے چلائیں اور راہ گیروں کو کچل ڈالیں ، سرکار کے عہدیداران دفاع کی

حساس رپورٹیں منظر عام پر لے آئیں اور کہیں کہ ہم نے آزادی اظہار سے فائدہ اُٹھایا ہے تو یہ ایک نا معقول بات ہی ہوگی ؛ کیوںکہ آزادی اظہار اسی وقت تک ہے جب تک کہ آپ کا عمل دوسرے کے لئے مضرت رساں اور تکلیف دہ نہ ہو ، اگر آپ کا عمل دوسرے کے لئے تکلیف دہ ہو تو یہ آزادی نہیں ہے ؛ بلکہ ایک شیطانی حرکت ہے ۔

پھر اظہار خیال کی آزادی کے لئے ایک ہی پیمانہ ہونا چاہئے ، مغربی ممالک کا یہ رویہ عجیب ہے کہ کوئی عیسائی مذہب اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرے تو وہ مجرم ہے اوردوسرے مذاہب اور دوسرے مذہبی پیشواؤں کی اہانت کی جائے تو وہ جائز ٹھہرے ؛ بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین تو کجا ، اگر کوئی شخص یہودیوں کے ہولوکاسٹ کا انکار کردیا جائے تو وہ بھی مجرم ہے ، فرانس کے نئے قانون کے مطابق اگر کوئی ترکوں کی طرف سے آرمینیاؤں کے قتل عام کا انکار کرے تو اس کی شہریت ختم کردی جائے گی ، نیز کوئی شخص ’نائن الیون ‘والے واقعہ کو امریکہ کی فریب کاری قرار دے تو وہ بھی مجرم سمجھا جائے گا ، ان قوانین سے اظہار خیال کی آزادی پر کوئی آنچ نہیں آتی ہے ؛ لیکن دوسرے مذاہب اور مذہبی پیشواؤں کی اہانت پر پابندی سے اظہار خیال کی آزادی کا حق پارہ پارہ ہوجاتا ہے ، یہ ایسا غیر منطقی و نامعقول ، نامنصفانہ اور جانبدارانہ طرز عمل ہے ، جس کو کوئی صاحب انصاف قبول نہیں کرسکتا ۔

مسلمانوں نے نہ صرف ہندوستان میں ؛ بلکہ پوری دنیا میں اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ وہ دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ نہ کریں ، وہ بین الاقوامی طاقتوں اور اقوام متحدہ سے بجا طور پر اس بات کے طالب ہیں کہ تمام مذاہب کے احترام کے سلسلہ میں قانون سازی کی جائے اور تمام مذہبی گروہوں کے احترام کو یکساں طریقہ پر ملحوظ رکھا جائے ، اظہار رائے کی آزادی کے حق کو اتنا بڑھا نہ دیاجائے کہ وہ لوگوں کے لئے نفع کی بجائے نقصان کا اور دنیا کے لئے امن و سکون کی بجائے بد امنی کا سبب بن جائے ، خاص کر حکومت ہند کا فریضہ ہے کہ وہ اندرون ملک بھی مذہبی جذبات اور مذہبی شعائر کے احترام کے سلسلہ میں مؤثر قانون سازی کرے اوراس کی مرتکب ننگ انسانیت شخصیتوں کی ملک میں آنے پر پابندی کے سلسلہ میں بھی مؤثر قدم اُٹھائے ؛ کیوںکہ ایک شخص کی آ زادی کے مقابلہ کروڑوں انسان کی جذبات کی اہمیت کہیں زیادہ ہے ، مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے اور کررہا ہے ؛ لیکن یہ بات اس کے لئے ناقابل برداشت ہے کہ اس کے پیغمبر کی شان میں کوئی گستاخی کی جائے ؛ کیوںکہ یہ براہ راست اس کے ایمان سے متعلق ہے ، مسلمان رگِ گلو کٹا سکتا ہے ، زر و زمین کے نقصان کو برداشت کرسکتا ہے ، ابتلاء و آزمائش کے ہر زخم کو سہہ سکتا ہے ؛ لیکن وہ اس بات کو گوارہ نہیں کرسکتا کہ کوئی اس کے نبی کی حرمت و عظمت پر معاندانہ نظر اُٹھائے ۔

– –

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com